پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
دین اسلام کی بہت ساری امتیازی خصوصیات میں سے ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ یہ دین ایک کامل جامع اور مکمل دین ہے، اللہ رب العالمین فرماتا ہے: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة : 3] آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمتیں پوری کر دی ہیں اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر چن لیا ہے۔ شریعت اسلامیہ کا یہ کمال ہے کہ اس نے لوگوں کے درمیان تعلقات کو منظم کیا ہے انہیں تعلقات میں سے حاکم اور محکوم کا بھی تعلق اور حاکم و محکوم میں سے ہر ایک پر دوسروں کے حقوق کو بیان کرنا بھی ہے، ان حقوق کو ادا کرکے دین و دنیا کی بھلائی حاصل ہوتی ہے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنّ الجماعَةَ حَبْلُ اللهِ فَاعْتَصِمُوا
مِنْهُ بِعُرْوَتِهِ الوُثْقَى لِمَن دَانَا
كَمْ يَدْفَعُ اللهُ بِالسلطَانِ مظلمةً
في ديننا رحمَةً مِنْهُ وَدُنْيَانَا
بے شک اجتماعیت اللہ کی رسی ہے تو تم اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
یہ اللّٰہ تعالی کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے دین و دنیا کی کتنی ہی تاریکیوں کو سلطان کے ذریعہ ختم کر دیتا ہے۔عقیدہ کی کتابوں میں علماء امت نے رعایا پر حکمرانوں کے واجب الاداء حقوق کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ یہ حقوق درج ذیل ہیں:
نمبر ایک
بیعت یعنی ذمہ دار کی ولایت اور حکمرانی کا عقیدہ رکھنا مسلمان آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ اس کے مسلم ذمہ دار کو حکمرانی کے حقوق حاصل ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ، وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً.( رواہ مسلم) جو اطاعت سے ایک ہاتھ باہر نکل آیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے اس عالم میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت ہی نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
نمبر دو
معصیت الٰہی کے کاموں کو چھوڑ کر سمع وطاعت کرنا سمع سے مراد حکمراں کی باتوں کو سننا اور اطاعت سے مراد اس کے اوامر و نواہی کو بجا لانا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ} (النساء:٥٩) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول و ذمہ داروں کی اطاعت کرو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ، وَلَا طَاعَةَ .( متفق علیہ)مسلم مرد پر اپنے مسلم حکمرانوں کی سمع و طاعت لازم ہے ان امور میں جنھیں وہ پسند کرتا ہے اور ان امور میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے الا یہ کہ اسے معصیت الٰہی کا حکم دیا جائے اگر اسے معصیت کا حکم دیا جاتا ہے تو نہ سننا ہے نہ اطاعت کرنا ہے۔
نمبر تین
ولی امر یعنی ذمہ داران کی خیر خواہی: اس کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے حکمران اور ذمہ دار کے بھلائی کا ارادہ کرے اور خیرخواہی میں اس کیلئے دعا کرنا بھی شامل ہے تمیم بن اوس داری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدِّينُ النَّصِيحَةُ ". قُلْنَا : لِمَنْ ؟ قَالَ : ” لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ. (رواہ مسلم) دین خیر خواہی کا نام ہے ہم نے کہا اے اللہ کے رسول کس کیلئے خیر خواہی کرنا آپ نے فرمایا: اللہ کیلئے اس کی کتاب کیلئے اس کے رسول کیلئے مسلمانوں کے ائمہ کیلئے اور عام مسلمانوں کیلئے ۔
حافظ ابو عمرو ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث میں ائمہ مسلمین کی خیر خواہی سے مراد خلفاء اور ان کے قائدین کی خیر خواہی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ حق کے کاموں میں ان کا تعاون کرنا حق میں ان کی اطاعت کرنا اور لطف و نرمی کے ساتھ انہیں متنبہ کرنا اور نصیحت کرنا اسی طرح سے ان کے خلاف خروج و بغاوت کرنے سے بچنا اور ان کیلئے توفیق الہی ملنے کی دعا کرنا ہے۔سلاطین کے بارے میں امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بے شک میں بادشاہ کیلئے درستگی و صواب تک پہنچنے اور توفیق و تائید الٰہی پانے کی رات و دن دعا کرتا ہوں اور یہ میں اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں
نمبر چار
حکمراں کے ظلم و جور پر صبر کرنا: عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ ؛ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا، فَمَاتَ فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ .( متفق علیہ) جو اپنے امیر کی جانب سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے یا کسی چیز کو ناپسند کرے تو چاہیے کہ اس پر صبر کرے کیونکہ جو بھی شخص بادشاہ کی اطاعت سے ایک بالشت نکل جاتا ہے اور اسی پر اس کی موت ہوتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا مَنْ وَلِيَ عَلَيْهِ وَالٍ، فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ (رواه مسلم) یاد رکھو جس شخص پر کوئی آدمی حاکم ہو جائے پھر وہ اسے دیکھے کہ وہ اللہ کی کسی معصیت کا ارتکاب کر رہا ہے تو جس معصیت کا وہ ارتکاب کررہا ہے اسے ناپسند کرے اور اطاعت سے ہرگز اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔
نمبر پانچ
حکمراں کے خلاف خروج نہ کرنا جسے آج کل حاکم کے خلاف بغاوت یا انقلاب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے یا حاکم کی معزولی کا نام دیا جاتا ہے عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، قَالَ : ” إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ.( متفق علیہ) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی اپنی چستی و خوشی کی حالت میں بھی اور ناپسندیدگی کے عالم میں بھی آسانی کے عالم میں بھی اور تنگی کی حالت میں بھی اور اس حالت میں بھی جب ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جائے ہم نے اس بات پر بھی بیعت کی کہ ہم حکومت کے سلسلے میں حکمرانوں سے اختلاف نہیں کریں گے آپ نے فرمایا الا یہ کہ تم کوئی ایسا واضح کھلم کھلا کفر دیکھو جس کیلئے اللہ تعالی کی جانب سے تمہارے پاس دلیل اور برہان موجود ہو اور عرفجہ بن شریح رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ ، أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ . (رواہ مسلم)جو بھی شخص تمہارے پاس پہنچے اس حال میں کہ تمہارا معاملہ کسی ایک آدمی پر جمع ہو اور وہ شخص چاہتا ہو کہ وہ تمہارے لاٹھی کو پھاڑدے تمہاری جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے تو تم اسے قتل کردو۔
نمبر چھ
حاکم کے عیوب ذکر نہ کرنا اس کی غیبت نہ کرنا اسی طرح اس کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکانا کیونکہ یہی چیزیں اس کے خلاف بغاوت انقلاب یا معزولی کے عظیم اسباب میں سے ہیں زیاد بن کسیب عدوی کہتے ہیں: میں ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ابن عامر کے منبر کے پاس موجود تھا ابن عامر خطبہ دے رہے تھے اس حال میں کہ وہ باریک کپڑا زیب تن کیے ہوئے تھے ابو بلال نے کہا ذرا اپنے امیر کو دیکھو فاسقوں کا لباس پہن رکھا ہے ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا چپ رہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مَنْ أَهَانَ سُلْطَانَ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ أَهَانَهُ اللَّهُ ‘‘(رواہ الترمذی) جس نے زمین میں اللہ کے سلطان کی توہین کی اللہ اس کو ذلیل کر دیتا ہے انس ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہمارے بڑے لوگ ہمیں منع کیا کرتے وہ کہتے تھے: اپنے امیروں کو برا بھلا نہ کہو اور نہ ان کے ساتھ خیانت کرو نہ دھوکہ دو اور انہیں ناراض نہ کرو غصہ مت دلاؤ اللہ سے ڈرتے رہو صبر کرو کیونکہ معاملہ قریب ہی ہے عبداللہ بن عُکَیم فرماتے ہیں کہ میں عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد کسی بھی خلیفہ کے خون پر تعاون نہیں کرتا راوی کہتے ہیں ان سے کہا گیا ابومعبد کیا تم نے ان کے قتل میں تعاون کیا تھا انہوں نے کہا میں ان کے عیوب کا تذکرہ کرتا تھا اور یہی چیز میں ان کے قتل پر تعاون سمجھتا ہوں۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں خروج اور بغاوت کی دو صورتیں ہوتی ہیں پہلی صورت قول کے ذریعے بغاوت کرنا اور دوسری صورت تلوار اور قتال کے ذریعہ بغاوت کرنا ان میں سے پہلی چیز دوسری قسم کا مقدمہ اور تمہید ہوتی ہے کیونکہ جو تلوار لے کر خروج اور بغاوت کرتے ہیں وہ اس طرح نہیں نکل پڑتے کہ ہتھیار اٹھائیں اور چل پڑیں بلکہ اس کیلئے کچھ تمہیدی باتیں ضرور کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عوام الناس کے دلوں کو حکمرانوں کے خلاف کو بغض و عداوت سے بھردیں اور ایسی صورت میں بغاوت اور انقلاب کیلئے موقع میسر ہو جاتا ہے۔
تو لوگو! اللہ تعالی تمہاری حفاظت کرے اپنے حکمرانوں کے حقوق پہچانو ان کیلئے تائید الٰہی، توفیق، درستگی اور تعاون و مدد کی دعا کرو اور جن ممالک کی عوام نے اپنے حکمرانوں کے حقوق ادا نہیں کیے انہوں نے ان کے خلاف خروج اور بغاوت کی ان کی بادشاہت اور ان کی حکمرانی سے اختلاف کیا ان کی حالت پر غور کرو کہ ان میں کس طرح سے انارکی عام ہے اور کس قدر ان میں دین و دنیا کی خرابیاں آگئی ہیں جنہیں صرف اللہ تعالی جانتا ہے اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے تھے: ایسی کوئی بھی جماعت پائی نہیں جاتی جس نے اپنے سلطان کے خلاف خروج کیا ہو اور اس کے خروج میں اس سے بڑھ کر فساد نہ ہوا ہو جس فساد کو اس نے خروج کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم اللہ رب العالمین سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں توحید و سنت پر زندہ رکھے اور توحید و سنت پر موت دے ہمارے ملک اور عالم اسلام کی ہر اس چیز سے حفاظت فرمائے جو اختلاف و گروہ بندی کا سبب بنے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین