پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
فرض نماز اسلام کے عظیم واجبات میں سے ایک واجب ہے اور سب سے اہم تاکیدی رکن ہے یہ نماز ہر بالغ اور عاقل مسلمان پر فرض ہے سوائے حیض اور نفاس والی عورتوں کے کتاب و سنت اور اجماع امت سے نماز کی فرضیت کے بہت سارے دلائل موجود ہیں کتاب اللہ میں اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} [البينة : 5] اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کیساتھ اللہ کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کراورنماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی سچا دین ہے۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے {و أقيموا الصلوة وآتوا الزكوة} (المزمل: ٢٠) تم نماز قائم کرو اور زکوۃ دو
احادیث کے ذخیرے میں جب ہم دیکھتے ہیں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ". متفق علیہ
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی جانب روانہ فرمایا تو ان سے کہا: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ…… (الحدیث متفق علیہ)انہیں سب سے پہلے دعوت دینا کہ وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیں اور اس بات کی گواہی دیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ اس اطاعت کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے اوپر ہر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت ساری آیات اور بے شمار روایات موجود ہیں جو نماز کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔
رہی بات اجماع امت کی تو امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایک دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔یہ نماز حیض و نفاس والی عورتوں پر واجب نہیں ہے چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ، وَلَمْ تَصُمْ ؟ (متفق علیہ) کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت ماہواری کا شکار ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے؟
اسی طرح سے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ماہواری والی عورت اپنے ماہواری کے دنوں میں نماز نہیں پڑھے گی اس دوران اس پر یہ نماز واجب نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے قضاء لازم ہے۔اور یہ نماز اسلام کے ارکان میں سے دوسرا رکن ہے اور شہادتین کے اقرار کے بعد اس کی بنیادوں میں سے ایک عظیم بنیاد ہے، یہ نماز دین کا ستون ہے جیسا کہ سنن ترمذی وغیرہ کی روایت سے ثابت ہے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ ؟ ” قُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ‘‘ رواہ الترمذی کیا میں تمہیں امور دین کے سر اس کے ستون اور اس کے کوہان کی چوٹی کے بارے میں نہ بتلاؤں میں نے کہا کیوں نہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: معاملے کا اصل اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی چوٹی جہاد ہے۔
نماز کی اہمیت پر کئی چیزیں دلالت کرتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
نمبر ایک
اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نماز پڑھنے والوں کی مدح و ثنا بیان کی ہے اور اسی طرح سے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے ہیں اللہ تعالی سورۂ معارج فرماتا ہے: إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا (19) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا (20) وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا (21) إِلَّا الْمُصَلِّينَ (22) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (23) بلاشبہ انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے جب اس کو برائی لاحق ہوتی ہے تو جزع فزع کرنے لگتا ہے جب اس کو خیر میسر ہوتا ہے تو بخیلی کرنے والا ہوتا ہے سوائے ان نمازیوں کے جو اپنی نماز میں ہمیشگی برتتے ہیں
اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی سورۂ مریم میں فرماتا ہے: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿54﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ﴿55﴾ اے نبی کتاب میں اسماعیل کا ذکر کرو بلا شبہ وہ وعدے کے سچے تھے اور بھیجے ہوئے نبی تھے وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ آدمی تھے۔
نمبر دو
اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو نماز کو ضائع کر دیتے ہیں اس میں سستی برتتے ہیں اور انہیں عذاب اور سزا کی وعید اور دھمکی دی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: { فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا} [مريم : 59] تو ان کے بعد کچھ ایسے نااہل جانشین آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کی پیروی کی وہ گمراہی میں پڑ گئے۔
اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے: {إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء : 142] بلاشبہ منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ خود ان کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے جب یہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کو دکھاتے ہیں اور بہت کم اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔
نمبر تین
قیامت کے دن انسان کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہی ہے اگر نماز درست نکلی تو اس کے دیگر اعمال بھی درست رہیں گے اگر نماز ہی خراب نکلی تو سارے اعمال فاسد قرار دیے جائیں گے سنن ترمذی اور سنن نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ ؟ فَيُكَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ . رواہ الترمذی و النسائی بلا شبہ قیامت کے دن بندے کے جس عمل کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے اگر یہ درست رہی تو وہ کامیاب رہے و کامران رہے گا اگر یہ خراب نکلی تو وہ گھاٹے اور خسارے میں پڑے گا اگر اس کے فرائض میں کسی بھی چیز کی کمی رہے گی تو اللہ رب العزت والجلال فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے چنانچہ نفل کے ذریعہ فریضے کی کمی کو مکمل کر دیا جائے گا پھر اس کے تمام اعمال اسی کے مطابق ہوں گے۔
نمبر چار
نماز کی اہمیت اس سے ثابت ہوتی ہے کہ یہی وہ آخری چیز ہے جس کی وصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کی تھی سنن ابو داؤد میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے وہ کہتے ہیں: کانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری جملہ تھا: نماز کا خیال رکھنا نماز کا خیال رکھنا اپنے غلاموں کے بارے میں اور باندیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔
نمبر پانچ
ایک اہم چیز جس سے اسلام میں نماز کا مقام اس کی اہمیت اور اس کا درجہ ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اس امت پر نماز کو سات آسمانوں کے اوپر سے فرض کیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر آسمان پہ لے جایا گیا تو اللہ رب العالمین نے بغیر جبرائیل علیہ السلام کے واسطے کے براہ راست نماز کو فرض کیا اس نماز کو زمین پہ فرض نہیں کیا اور اس موقع پر یہ نماز 50 وقت کی تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العزت سے تخفیف کی گزارش کی چنانچہ اللہ رب العالمین نے اس میں تخفیف کی یہاں تک کہ پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں اور ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتا ہے چنانچہ لوح محفوظ میں یہ 50 نمازیں ہیں اور امت پر پانچ وقت ہیں۔
روزے دارو! شریعت مطہرہ میں فرضیت نماز کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے اس پر امت کو ابھارا گیا ہے نماز کی رغبت دلائی گئی ہے۔ نماز کے سلسلے میں جو چیزیں واجب ہیں ان میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ مردوں کو مساجد میں نماز ادا کرنا واجب ہے جب وہ اذان سنیں چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا صحابی آئے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول میرے پاس کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد تک پہنچا سکے چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ انہیں گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت دے دیں آپ نے انہیں اجازت دے دی جب وہ واپس جانے لگے تو آپ نے انہیں بلایا پھر کہا کیا تم نماز کے اذان کی آواز سنتے ہو انہوں نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا تو پھر اس کا جواب دو یعنی مسجد میں آؤ۔
اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں جسے اس بات کی خوشی ہو کہ وہ کل اللہ تعالی سے حالت اسلام میں ملاقات کرے تو وہ ان نمازوں کی پابندی کرے جب اس کے لیے پکارا جائے کیونکہ اللہ رب العالمین نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے راستوں کو مشروع قرار دیا تھا اور یہ پانچ وقت کی نمازیں ہدایت کے راستوں اور طریقوں میں سے ہیں اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور جو بھی آدمی طہارت حاصل کرتا ہے پھر اچھی طرح سے صفائی کرتا ہے پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں جو وہ چلتا اور طے کرتا ہے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ہر قدم کے بدلے میں ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ہر قدم کے بدلے میں ایک برائی ختم کر دیتا ہے اور ہم صحابہ نے اپنے آپ کو دیکھا کہ نماز سے صرف وہی پیچھے رہتا تھا جو منافق ہو اور اس کا نفاق واضح اور معلوم ہو اور آدمی کو دو آدمیوں کے کندھوں کے درمیان لاد کر اور اٹھا کر لایا جاتا تھا یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔
اللہ رب العالمین نے یہ نماز ہر حالت میں فرض قرار دی ہے اور کسی مریض یا خائف یا مسافر یا ان کے علاوہ کسی اور کو بھی نماز چھوڑنے کے سلسلے میں معذور نہیں قرار دیا ہے البتہ اس کے شرائط میں کبھی کبھی تخفیف کر دی ہے کبھی تعداد رکعت میں تخفیف کر دی ہے کبھی افعال میں تخفیف کر دی ہے مگر عقل رہتے ہوئے اس کو ساقط نہیں قرار دیا بلکہ اللہ رب العالمین نے باجماعت نماز دوران جنگ بھی واجب قرار دی ہے آپ سوچ سکتے ہیں کہ حالت امن میں اور اطمینان کی حالت میں اس کی فرضیت کا کیا عالم ہوگا۔
نماز کی یہ پابندی ماہ رمضان میں اور اس کے علاوہ سال کے دیگر مہینوں میں بھی واجب ہے بعض لوگ ماہ رمضان میں نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جب مہینہ ختم ہو جاتا ہے تو سست پڑ جاتے ہیں اور بعض لوگ تو نعوذ باللہ بعض نمازیں ضائع بھی کر دیتے ہیں اسی طرح سے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی نماز پر ابھارنا واجب ہے ان خواتین اور بیویوں کو بھی نماز پر ابھارنا واجب ہے جو آپ کے ماتحت ہوں اور ماتحت خادموں اور نوکرانیوں کو بھی نماز پر ابھارنا واجب ہے۔ اللہ تعالی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ} [طه : 132] اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو ہم تم سے روزی کا سوال نہیں کرتے ہم خود تمہیں روزی دیتے ہیں اور بہترین انجام تو تقوی والوں کے لیے ہے۔
اپنے مومن بندوں کو اللہ تعالی حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} [التحريم : 6] اے لوگو جو ایمان لائے ہو خود اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر ایسے تند خو اور سخت مزاج فرشتے متعین ہیں جو اللہ تعالی کے دئے گئے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اللہ تعالی جو بھی انہیں حکم دیتا ہے اس کو وہ بجا لاتے ہیں۔
فرض نماز کو چھوڑنا کفر ہے جو اس کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے چھوڑ دے وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے جیسا کہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے اگرچہ وہ نماز پڑھے اور اگر کوئی شخص نماز چھوڑ دیتا ہے اس کے وجوب کا عقیدہ رکھتا بھی ہے اس کا انکار نہیں کرتا ہے تو بھی یہ کفر ہے اور اہل علم کے کئی اقوال میں سے صحیح ترین قول یہی ہے کہ اس کا کفر بھی وہی کفر اکبر ہے جو اسلام سے خارج کر دیتا ہے اس کے بہت سارے دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں انہیں میں سے اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [التوبة : 11] اگر یہ لوگ توبہ کریں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم آیتوں کو ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
اللہ رب العالمین نے اس آیت میں مومنوں کے لیے دینی اور ایمانی اخوت و بھائی چارہ نماز کے قیام سے مشروط کر دیا ہے اسی طرح سے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ . رواہ مسلم بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑنا ہے۔
بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ. رواہ الترمذی وہ عہد و پیمان جو ہمارے اور ان کے درمیان نافذ ہے وہ نماز ہے جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا سنن ترمذی ہی میں عبداللہ بن شقیق عقیلی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اعمال میں سے کسی بھی عمل کو چھوڑنا کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔ پتہ چلا کہ اس بات پر صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ جو سستی اور کاہلی کی بنا پر نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ تارک صلاۃ کے کفر پر کتاب اللہ سنت رسول اللہ اور اجماع صحابہ سے دلائل موجود ہیں۔لوگو! اللہ سے ڈرو پانچوں وقت کی نمازوں کی پابندی کرو مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھو اس کے ارکان و واجبات کو ادا کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے کے مطابق نمازوں کی سنتوں کا خیال رکھو اور جو تمہارے ماتحت ہوں بچے بیویاں خواتین اور عمال و مزدور وغیرہ ان سب کو نمازوں کا حکم دو۔
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی الہ صحابہ اجمعین