ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
حرف آغاز:بھارت کی جمہوری تاریخ، اپنی تمام تر کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور سیکولر اقدار کے تحفظ کے مسلسل امتحان سے عبارت رہی ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کا دن، جب ایودھیا میں صدیوں قدیم بابری مسجد کو ایک مشتعل ہجوم نے دن دہاڑے شہید کر دیا، بلاشبہ آزاد بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ یہ محض ایک عبادت گاہ کا انہدام نہیں تھا؛ یہ آئینِ ہند کی روح پر، قانون کی حکمرانی پر اور ملک کے سیکولر کردار پر ایک کاری ضرب تھی۔ اس سانحے نے بھارتی مسلمانوں کے اجتماعی شعور پر ایک ایسا گہرا زخم لگایا جس کی ٹیس آج بھی محسوس کی جاتی ہے، اور ان میں عدم تحفظ اور بے بسی کا ایک شدید احساس پیدا کیا۔ یہ واقعہ اکثر و بیشتر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ان کے حقوق کی پامالی کے لیے ایک استعارہ بن چکا ہے۔لیکن تاریخ کبھی ایک مقام پر ساکن نہیں رہتی؛ وقت کے ساتھ چیلنجز کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ آج، جب بابری مسجد کی شہادت کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں، اور عدالت عظمیٰ کے ایک متنازعہ فیصلے کے تحت اس کی زمین ہندو فریق کو سونپ دی گئی ہے، ایک نیا قانونی و انتظامی ڈھانچہ، وقف (ترمیمی) قانون 2024 کی شکل میں نمودار ہوا ہے۔ قانونی ماہرین، مسلم کمیونٹی کے رہنما، سماجی کارکنان اور حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد اسے نہ صرف شدید تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، بلکہ اسے بابری مسجد کی شہادت کے سانحے سے بھی کہیں زیادہ سنگین اور دور رس مضمرات کا حامل قرار دے رہی ہے۔ ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ بابری مسجد کا انہدام، اپنی تمام تر الم ناکی اور علامتی شدت کے باوجود، جغرافیائی طور پر ایک مخصوص مقام تک محدود تھا اور اس کا اثر فوری نوعیت کا تھا۔ اس کے برعکس، وقف ترمیمی قانون ایک بظاہر قانونی، مگر خاموش اور بتدریج پیش قدمی کرنے والا حملہ ہے جو پورے بھارت میں پھیلی لاکھوں وقف املاک، ان سے منسلک ہزاروں اداروں اور نتیجتاً مسلم کمیونٹی کے صدیوں پر محیط سماجی، معاشی، تعلیمی اور مذہبی ڈھانچے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا پوشیدہ خطرہ ہے جس کی فوری شدت شاید محسوس نہ ہو، لیکن جس کے طویل مدتی اثرات کہیں زیادہ گہرے، وسیع اور ممکنہ طور پر ناقابلِ تلافی حد تک تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
1- وقف: ایک مقدس امانت، ایک سماجی ضرورت
وقف کا ادارہ اسلامی تہذیب و قانون کا ایک لازمی اور روشن باب ہے۔ لفظ ’وقف‘ کا مطلب ہے ’روکنا‘ یا’ٹھہرا دینا‘۔ شرعی اصطلاح میں، وقف سے مراد کسی مسلمان کا اپنی ملکیت (عموماً غیر منقولہ جائیداد جیسے زمین، عمارت وغیرہ) کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں، ہمیشہ کے لیے، کسی نیک، مذہبی، خیراتی یا فلاحی مقصد کے لیے مخصوص کر دینا ہے۔ وقف کرنے کے بعد وہ جائیداد واقف (وقف کرنے والے) کی ذاتی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اسے نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ وراثت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحفے میں دیا جا سکتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک مقدس امانت کی ہو جاتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عوام الناس کی بھلائی اور متعین کردہ نیک مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔
بھارت میں وقف کی روایت کی جڑیں مسلم حکمرانی کے آغاز تک جاتی ہیں۔ دہلی سلطنت سے لے کر مغل دورِ حکومت تک، اور اس کے بعد بھی، بادشاہوں، نوابوں، امراء، صوفیاء اور عام مسلمانوں نے کثیر تعداد میں اپنی قیمتی اراضی اور جائیدادیں وقف کیں۔ ان اوقاف کے ذریعے مساجد تعمیر ہوئیں، عیدگاہیں آباد ہوئیں، بزرگانِ دین کے مزارات (درگاہیں/خانقاہیں) قائم ہوئے جہاں روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ لنگر اور سماجی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ قبرستانوں کے لیے وسیع اراضی وقف کی گئی۔ علم کی ترویج کے لیے مدارس، مکاتب اور کتب خانے قائم کیے گئے۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کی کفالت کے لیے ادارے بنے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے سرائے اور بیماروں کے علاج کے لیے شفاخانے (ہسپتال) وقف املاک پر قائم ہوئے۔ غرض یہ کہ وقف نے مسلم کمیونٹی (اور کئی مقامات پر بلا تفریق مذہب و ملت تمام ضرورت مندوں) کی زندگی کے ہر پہلو کو سہارا دیا۔
جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی نے اپنی 2006 کی رپورٹ میں بھارت میں وقف املاک کے حیران کن حجم کو واضح کیا تھا۔ ملک بھر میں رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد ہی 8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جو کئی لاکھ ایکڑ پر پھیلے وسیع رقبے کی نشاندہی کرتی ہے؛ غیر رجسٹرڈ املاک کا شمار اس کے علاوہ ہے۔ یہ حقیقت وقف اداروں کو بھارتی ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد ملک کا تیسرا سب سے بڑا زمیندار بناتی ہے۔ ان املاک کی تخمینی مالیت کھربوں روپے میں ہے، جو وقف کی زبردست معاشی اہمیت کو خود بخود واضح کر دیتی ہے۔ تاہم، ان اوقاف کی اصل قدر و قیمت محض اقتصادی پیمانوں تک محدود نہیں؛ اس کی جڑیں کہیں زیادہ گہری سماجی، ثقافتی اور مذہبی حقائق میں پیوست ہیں۔ یہی املاک بھارت کے مسلمانوں کی اجتماعی شناخت، ان کی تاریخی وراثت، مذہبی شعائر کی ادائیگی کے تسلسل اور ان کے سماجی تحفظ کے نظام کی اساس ہیں۔
ان قیمتی املاک کے تحفظ، ان کے درست انتظام و انصرام اور ناجائز قبضوں سے بچاؤ کے لیے ہی آزادی کے بعد مختلف ریاستی قوانین اور پھر مرکزی سطح پر وقف ایکٹ 1954، اور بعد ازاں ایک جامع قانون، وقف ایکٹ 1995 نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کا مقصد مرکزی اور ریاستی سطح پر وقف بورڈز قائم کرنا، اوقاف کا سروے اور رجسٹریشن کرنا، متولیوں کی نگرانی کرنا، املاک کا بہتر انتظام یقینی بنانا اور تنازعات کے حل کے لیے وقف ٹریبونل قائم کرنا تھا۔ 2013 میں اس ایکٹ میں اہم ترامیم کی گئیں جن کا مقصد وقف املاک کے تحفظ کو مزید مضبوط بنانا اور بورڈز کو مزید بااختیار کرنا تھا۔ ان ترامیم میں خاص طور پر وقف املاک کو میعادِ سماعت قانون (Limitation Act) کے اطلاق سے مستثنیٰ قرار دینے والی دفعہ 107 اور وقف بالاستعمال (Waqf by User) کو تسلیم کرنے والی شقیں شامل تھیں، جنہیں مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا تھا۔
2- وقف (ترمیمی) قانون 2024 : خطرے کی گھنٹی بجانے والی شقیں
وقف (ترمیمی) بل 2024، جس کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری (صدر جمہوریہ کی حتمی توثیق کے بعد) اسے قانون کی شکل دے گی، نے نہ صرف ملک گیر بحث کو جنم دیا ہے بلکہ 1995 کے بنیادی وقف ایکٹ (بترمیم 2013) کے اندر موجود کئی اہم حفاظتی ستونوں کو متزلزل کر دیا ہے۔ یہ ترامیم محض انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں ہیں، بلکہ قانونی ماہرین اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے مطابق، ان کے دور رس اور ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان ترامیم نے وقف کے ادارے کی اصل روح اور اس کے تحفظ کے قانونی ڈھانچے کی افادیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ آئیے پارلیمانی مباحثوں اور قانونی تجزیوں کی روشنی میں چند انتہائی متنازعہ اور تشویشناک ترامیم کا تفصیلی جائزہ لیں:
1-’وقف بالاستعمال‘ (Waqf by User) کے تصور کا خاتمہ اور اس کے مضمرات:
lوقف قانون کا ایک بنیادی اصول ’وقف بالاستعمال‘ تھا، جسے 2013 کی ترمیم نے مزید واضح کیا تھا۔ اس اصول کے تحت، وہ جائیدادیں جو طویل عرصے سے، بعض اوقات صدیوں سے، مسجد، عیدگاہ، درگاہ، امام باڑہ، قبرستان یا دیگر تسلیم شدہ مذہبی، فلاحی و خیراتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہوں، انہیں قانونی طور پر وقف تسلیم کیا جاتا تھا، بھلے ہی ان کے باقاعدہ تحریری وقف نامے وقت کے ساتھ ضائع ہو گئے ہوں یا ابتدا میں بنائے ہی نہ گئے ہوں۔ یہ شق بھارت جیسی قدیم تہذیب میں، جہاں تاریخی ریکارڈ کا تحفظ ہمیشہ کامل نہیں رہا، ہزاروں تاریخی اور قدیم اوقاف کے تحفظ کی ایک مضبوط قانونی ضمانت تھی۔ تاہم، نئے قانون میں اس اصول کو بڑی حد تک غیر مؤثر یا ختم کر دیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر اب محض طویل استعمال کی بنیاد پر کسی جائیداد کو وقف تسلیم نہیں کیا جائے گا، یا اس کے لیے ناقابلِ عمل حد تک سخت شرائط عائد کر دی گئی ہیں (جیسے مسلسل اور بلا روک ٹوک استعمال کا ناقابلِ تردید ثبوت وغیرہ)۔
lاس ترمیم کے براہ راست اور تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں ایسی قدیم مساجد، قبرستان، درگاہیں اور دیگر مذہبی مقامات ہیں جن کے پاس صدیوں کے استعمال کے ٹھوس شواہد (جیسے نماز کا تسلسل، عرس کا انعقاد، تدفین کا عمل) تو موجود ہیں، لیکن شاید باقاعدہ کاغذی ملکیت یا وقف نامہ موجود نہیں۔ اس قانونی تحفظ کے ہٹ جانے کے بعد، ان تمام املاک کی قانونی حیثیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے نہ صرف سرکاری اداروں بلکہ نجی افراد اور قبضہ مافیا (لینڈ مافیا) کے لیے ان قیمتی اور اکثر شہروں کے مرکزی مقامات پر واقع اراضی پر دعویٰ کرنے یا قبضہ کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ قانونی تنازعات کا ایک ایسا طوفان اٹھے گا جس کا سامنا کرنا وقف بورڈز اور مقامی کمیونٹیز کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جیسا کہ رکن پارلیمان اقرا چودھری نے پارلیمنٹ میں خدشہ ظاہر کیا، اس کا اثر صرف املاک کے چھن جانے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ ان املاک سے وابستہ لاکھوں غریب افراد کی روزی روٹی اور رہائش بھی خطرے میں پڑ جائے گی، جو انہیں "سڑکوں پر” لا سکتی ہے۔ یہ محض قانونی ترمیم نہیں، بلکہ تاریخ، ثقافت اور کمیونٹی کے وجود پر حملہ محسوس ہوتی ہے۔
2-میعادِ سماعت قانون (Limitation Act) کا نفاذ: قبضے کو قانونی حیثیت دینے کا دروازہ؟
2013کی ترمیم میں سب سے اہم اور انقلابی سمجھی جانے والی تبدیلی وقف ایکٹ میں دفعہ 107 کا اضافہ تھا۔ اس دفعہ نے واضح طور پر وقف املاک کو میعادِ سماعت قانون 1963 (Limitation Act, 1963) کے اطلاق سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔ عام قانون کے تحت، اگر کوئی شخص کسی نجی جائیداد پر ایک مخصوص مدت (عموماً 12 سال) تک بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے مالک کی حیثیت سے قابض رہتا ہے، تو وہ ’ایڈورس پوزیشن‘ (Adverse Possession – قبضہ مخالفانہ) کی بنیاد پر اس جائیداد کی ملکیت کا قانونی حق حاصل کر لیتا ہے، اور اصل مالک اپنا حق کھو دیتا ہے۔ دفعہ 107 نے وقف املاک کو اس خطرے سے بچا لیا تھا، کیونکہ وقف کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی مانی جاتی ہے اور یہ دائمی ہوتی ہے، اس پر میعاد کا اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وقف بورڈ اپنی کسی بھی جائیداد پر، چاہے اس پر 50 یا 100 سال سے ہی کیوں نہ قبضہ ہو، اسے واپس لینے کے لیے قانونی کارروائی کرنے کا حق رکھتا تھا۔
نئے قانون نے اس بنیادی حفاظتی شق، دفعہ 107، کو حذف کر دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب وقف املاک بھی Limitation Act کے دائرے میں آ گئی ہیں۔ بھارت میں، خاص طور پر شہری علاقوں میں، ہزاروں ایکڑ قیمتی وقف اراضی پر سرکاری محکموں، نجی اداروں اور بااثر افراد کا دہائیوں پرانا ناجائز قبضہ ہے۔ اس ترمیم کے بعد، وہ تمام قابضین جن کا قبضہ 12 سال سے زائد کا ہے، اب وقف املاک پر اپنی ملکیت کا قانونی دعویٰ کر سکتے ہیں۔ وقف بورڈز، جو پہلے ہی وسائل کی کمی اور قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہیں، ان ہزاروں ممکنہ مقدمات کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے؟ عمران مسعود نے اسے پارلیمنٹ میں بالکل درست طور پر "قبضہ کرنے والوں کے لیے راستہ کھولنا” قرار دیا۔ یہ شق بلاشبہ وقف املاک کے تحفظ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھری ہے اور خدشہ ہے کہ اس سے کھربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ یہ محض قانونی ترمیم نہیں، بلکہ وقف کی دائمی حیثیت اور اس کے تقدس پر براہ راست حملہ ہے۔
3-وقف بورڈز؍کونسل کی تشکیل اور خودمختاری کا سوال:
نیا قانون مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز، جو اوقاف کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار ادارے ہیں، کی تشکیل اور ساخت کو بھی تبدیل کرتا ہے۔ پرانے قانون کے تحت، ان بورڈز میں مسلم کمیونٹی کے منتخب نمائندوں، جیسے مسلم اراکین پارلیمان و اسمبلی، مسلم اراکین بار کونسل، اور متولیوں کے منتخب نمائندوں کی اکثریت کو یقینی بنایا گیا تھا تاکہ بورڈز کی جمہوری نوعیت اور کمیونٹی کے مفادات کی نمائندگی برقرار رہے۔ اس سے بورڈز کو کافی حد تک خودمختاری حاصل تھی۔
نئے قانون کے تحت، منتخب اراکین کی کیٹیگریز اور ان کی تعداد کو کم کیا جا رہا ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے نامزد کردہ اراکین کی تعداد اور اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب نامزدگیوں میں غیر مسلم اراکین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ عمران مسعود نے لوک سبھا میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ 22 رکنی مرکزی وقف کونسل میں 12 اراکین غیر مسلم ہوں گے، جس سے ادارے میں مسلمانوں کی اکثریت ہی ختم ہو جائے گی۔ نامزدگی کا مکمل اختیار حکومت کے پاس ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ بورڈز اپنی خودمختاری کھو بیٹھیں گے اور مکمل طور پر سرکاری احکامات اور سیاسی دباؤ کے تابع ہو جائیں گے۔ ان کی حیثیت ایک آزاد، کمیونٹی کے نمائندہ ادارے کے بجائے ایک سرکاری محکمے جیسی ہو کر رہ جائے گی۔ اس صورت میں، فیصلے وقف کے اصل مقاصد اور شریعت کی روشنی میں نہیں، بلکہ حکومتی ترجیحات اور سیاسی ایجنڈے کے تحت کیے جائیں گے، جس سے وقف املاک کے غلط استعمال یا ان کے مقاصد سے انحراف کا شدید خطرہ ہے۔ یہ ادارہ جاتی خودمختاری پر ایک واضح حملہ ہے۔
4-’پریکٹسنگ مسلم‘ کی مبہم تعریف: ایک نیا فتنہ؟
ایک اور ترمیم، جس پر گورو گگوئی اور مولانا محب اللہ ندوی جیسے اراکین نے شدید اعتراضات اٹھائے، وقف کی تعریف میں ’’کوئی بھی شخص… جو اسلام پر عمل پیرا ہونے کا مظاہرہ کرتا ہو‘‘ (Any person… Showing or demonstrating that he is practicing Islam)جیسی شرط کا اضافہ ہے۔ یہ تعریف انتہائی مبہم اور تشریح طلب ہے۔ کون یہ طے کرے گا کہ کون ’پریکٹسنگ مسلم‘ ہے اور کون نہیں؟ اس کا پیمانہ کیا ہوگا؟ کیا حکومت یا اس کے نامزد کردہ افسران اب مسلمانوں کو ان کے ایمان اور عمل کا سرٹیفکیٹ دیں گے؟ گورو گگوئی نے اسے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی (آرٹیکل 25) پر حملہ قرار دیا۔ مولانا ندوی نے بجا طور پر کہا کہ جب مکہ کے امامِ حرم بھی کسی کو یہ سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتے، تو حکومت یہ اختیار کیسے لے سکتی ہے؟ اس مبہم شق کے ذریعے مستقبل میں وقف کرنے والوں (واقفین) یا وقف کے منتظمین (متولیوں) کی اہلیت کو چیلنج کرنے، انہیں ہراساں کرنے اور وقف کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے۔ یہ شرط غیر ضروری، مبہم اور ممکنہ طور پر تفرقہ انگیز ہے۔
5-تنازعات کا تصفیہ اور ’نامزد افسر‘: انصاف میں تاخیر کا حربہ؟
نئے قانون میں وقف املاک سے متعلق پیدا ہونے والے تنازعات، خاص طور پر رجسٹریشن یا حیثیت کے تعین سے متعلق، کے ابتدائی تصفیے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک ’نامزد افسر‘ (Designated Officer) مقرر کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ یہ افسر ممکنہ طور پر ضلعی انتظامیہ کا حصہ ہوگا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس افسر کے لیے اپنا فیصلہ سنانے کی کوئی واضح یا لازمی مدت مقرر نہیں کی گئی ہے۔ رکن پارلیمان عمران مسعود نے اس پر شدید خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری افسر سیاسی دباؤ یا دیگر وجوہات کی بنا پر معاملے کو سالہا سال تک غیر معینہ مدت کے لیے لٹکا سکتا ہے۔ بھارتی عدالتی اور انتظامی نظام میں پہلے ہی تاخیر ایک بڑا مسئلہ ہے، اور یہ نئی شق وقف کے معاملات میں انصاف کے حصول کو مزید مشکل اور طویل بنا سکتی ہے۔ جب تک یہ افسر فیصلہ نہیں کرتا، عملی طور پر وقف جائیداد متنازعہ رہے گی اور اس کا انتظام یا تو معطل رہے گا یا سرکاری کنٹرول میں رہے گا، جو وقف کے مقصد کو ہی فوت کر دے گا۔ یہ شق انصاف کی راہ میں ایک نئی بیوروکریٹک رکاوٹ پیدا کرتی نظر آتی ہے۔
یہ چند نمایاں شقیں ہیں جنہوں نے وقف (ترمیمی) قانون 2024 کو انتہائی متنازعہ بنا دیا ہے۔ ان ترامیم کو مجموعی طور پر دیکھنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ قانون اصلاحات کے نام پر دراصل وقف کے ادارے کو اس کی بنیادوں سے کمزور کرنے، اس کی املاک پر کنٹرول حاصل کرنے اور مسلم کمیونٹی کو اس کے ایک اہم آئینی اور سماجی حق سے بتدریج محروم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
6- پارلیمانی مباحثے:نیتوں کا تصادم اور خدشات کا اظہار
وقف (ترمیمی) بل 2024 جب بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا، میں پیش ہوا، تو یہ محض ایک معمول کی قانون سازی کی مشق نہیں تھی، بلکہ یہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان گہرے نظریاتی اختلافات، بڑھتے ہوئے عدم اعتماد اور ملک کے سیکولر مستقبل سے متعلق متضاد تصورات کے ٹکراؤ کا ایک واضح مظہر بن گئی۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے، جن میں کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس، شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے)، بی ایس پی اور دیگر شامل تھیں، اس بل کی شدید مخالفت کی اور اسے آئینِ ہند، سیکولر اصولوں اور بالخصوص اقلیتی حقوق پر ایک سوچا سمجھا حملہ قرار دیا۔ دوسری جانب، حکومتی بنچوں، خصوصاً بی جے پی، نے ان تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس قانون کو وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانے، بدعنوانی ختم کرنے اور ایک صدی سے زائد پرانے قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک ضروری اصلاحاتی کوشش کے طور پر پیش کیا۔ ان مباحثوں کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ دونوں اطراف کے دلائل اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کو سمجھا جا سکے۔
3- حزبِ اختلاف کے بنیادی دلائل اور خدشات:
1-حکومتی نیت اور منافقت پر سوالات: حزبِ اختلاف کا سب سے مضبوط اور بار بار دہرایا جانے والا نکتہ حکومتی نیت پر گہرا شبہ تھا۔ متعدد اراکین نے اس تضاد کی نشاندہی کی کہ جس سیاسی جماعت (بی جے پی) اور نظریاتی تنظیم (آر ایس ایس) کا پورا سیاسی بیانیہ اور عملی ریکارڈ مبینہ طور پر مسلم مخالف رہا ہو، جس کے اعلیٰ ترین رہنما انتخابی ریلیوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بیانات دیتے ہوں (جن کی مثالیں اراکین نے پارلیمنٹ میں بھی پیش کیں، جیسے وزیر اعظم مودی کا مبینہ ’کپڑوں سے پہچاننے‘یا’زیادہ بچے پیدا کرنے والےکا بیان‘ یا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ’80 بنام20 ‘یا ’بانٹیں گے تو کاٹیں گے‘ کا نعرہ، یا وزیر داخلہ امیت شاہ کا مبینہ ’گھس پیٹھئے‘ کا لفظ)، جس جماعت کی حکومتوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہو، ان کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ہوں، اور جس جماعت نے گزشتہ دس سالوں میں لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں ایک بھی مسلمان کو منتخب نہ کیا ہو اور انتخابی ٹکٹ دینے میں بھی انتہائی کنجوسی کا مظاہرہ کیا ہو، وہ جماعت اچانک وقف قانون میں ایسی ترامیم کیوں لا رہی ہے جو بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہیں، اور انہیں ’’مسلم ہمدردی‘‘ یا ’’انتظامی اصلاح‘‘ کا نام دے رہی ہے؟ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اسے بی جے پی کی "سیاسی ہٹ دھرمی” اور اپنے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے "گھر دکان چھیننے کی سازش” قرار دیا۔ کانگریس کے گورو گگوئی نے اسے بی جے پی کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ بتایا جس کے چار مقاصد ہیں: آئین کو کمزور کرنا (Dilute)، اقلیتوں کو بدنام کرنا (Defame)، معاشرے کو تقسیم کرنا (Divide) اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا (Disenfranchise)۔ شیو سینا (UBT) کے اروند ساونت نے اسے بی جے پی کی "کتھنی اور کرنی کا فرق” قرار دیتے ہوئے "سوغاتِ مودی” کی سیریز میں ایک اور ’تحفہ‘ کہا جو اقلیتوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا۔ یہ تمام دلائل حکومتی دعوؤں کے پیچھے چھپی مبینہ منافقت کو بے نقاب کرنے کی کوشش تھے۔
2-آئین ہند سے تصادم: حزبِ اختلاف نے اس بل کو بھارتی آئین کی بنیادی روح اور کئی اہم آرٹیکلز سے متصادم قرار دیا
lآرٹیکل 14 (قانون کے سامنے برابری): یہ دلیل دی گئی کہ جب دیگر تمام مذہبی ٹرسٹ اور ادارے (ہندو مندر، سکھ گوردوارے، عیسائی چرچ، پارسی اگیاری وغیرہ) Limitation Act سے مستثنیٰ ہیں یا ان پر یہ قانون اس طرح لاگو نہیں ہوتا کہ ان کی دائمی حیثیت ختم ہو جائے، تو صرف وقف املاک کو اس قانون کے تابع لانا امتیازی سلوک ہے اور قانون کے سامنے برابری کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
lآرٹیکل 15 (مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت): کہا گیا کہ یہ قانون واضح طور پر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 15 کے منافی ہے۔
lآرٹیکل 25 (مذہبی آزادی): ’پریکٹسنگ مسلم‘ کی مبہم شرط کو مذہبی آزادی پر قدغن لگانے اور حکومت کو کسی کے مذہبی عمل کو جانچنے کا غیر آئینی اختیار دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔
lآرٹیکل 26 (مذہبی اداروں کے انتظام کا حق): وقف بورڈز کی تشکیل میں حکومتی مداخلت اور نامزدگیوں میں غیر مسلموں کی شمولیت کو آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت مذہبی کمیونٹی کو اپنے اداروں کے انتظام کے حق سے محروم کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔ مولانا محب اللہ ندوی نے خاص طور پر اس نکتے پر زور دیا کہ یہ کمیونٹی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
3-دور رس عملی نقصانات اور تباہی کا خدشہ : اپوزیشن اراکین نے قانون کی شقوں کے عملی اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا
lاملاک کا چھن جانا: عمران مسعود، اقرا چودھری اور دیگر نے بارہا کہا کہ “Limitation Act” کے نفاذ اور “Waqf by User” کے خاتمے سے لاکھوں ایکڑ قیمتی وقف اراضی، جن پر ناجائز قبضے ہیں یا جن کی دستاویزات نامکمل ہیں، ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس سے ایک قانونی بحران پیدا ہوگا اور وقف بورڈز مقدمات کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔
lمعاشی و سماجی اثرات: چونکہ اوقاف کی آمدنی سے ہزاروں تعلیمی، فلاحی اور طبی ادارے چلتے ہیں، املاک کے چھن جانے سے یہ ادارے بند ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف کمیونٹی کی تعلیمی اور معاشی حالت مزید خراب ہوگی بلکہ لاکھوں غریب، یتیم، بیوائیں اور طلباء جو ان اداروں سے مستفید ہوتے ہیں، شدید متاثر ہوں گے۔ اقرا چودھری نے ان لوگوں کے "سڑکوں پر آنے” کا خدشہ ظاہر کیا۔
lتاریخی و ثقافتی ورثے کا نقصان: بہت سی وقف املاک تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت ختم ہونے یا ان پر قبضے سے ملک اپنے قیمتی ورثے سے محروم ہو جائے گا۔
lسیاسی پولرائزیشن کا حربہ : اپوزیشن کا یہ بھی موقف تھا کہ اس بل کا اصل مقصد مسلمانوں کی بھلائی نہیں، بلکہ ہندوؤں کو یہ پیغام دینا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے "خصوصی” حقوق ختم کر رہی ہے اور ان کی "بڑھتی ہوئی طاقت” کو لگام ڈال رہی ہے۔ اکھلیش یادو نے واضح طور پر کہا کہ بی جے پی کا مقصد ’’دھروی کرن‘‘ (Polarization) ہے تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔ ان کے مطابق، یہ بل ووٹ بینک کو مضبوط کرنے اور معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔
خلاصہ یہ کہ حزبِ اختلاف نے وقف (ترمیمی) بل کو ایک کثیر الجہتی حملے کے طور پر دیکھا کہ یہ آئینی اقدار پر حملہ ہے، یہ اقلیتی حقوق پر حملہ ہے، یہ مسلم کمیونٹی کی معاشی بنیادوں پر حملہ ہے، یہ ان کے تاریخی و ثقافتی ورثے پر حملہ ہے، اور سب سے بڑھ کر، یہ بی جے پی کی پولرائزیشن کی سیاست کو آگے بڑھانے کا ایک نیا حربہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو واپس لے، اسے مزید غور و خوض کے لیے پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی کو بھیجے اور تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر مسلم کمیونٹی، کو اعتماد میں لے۔
4- حکومتی موقف اور بی جے پی کی مبینہ منافقت:
جب وقف (ترمیمی) بل 2024 پارلیمنٹ میں شدید تنقید کی زد میں آیا، تو حکومتی بنچوں، خاص طور پر بی جے پی کے اراکین اور متعلقہ وزیر، کرن رجیجو (جنہوں نے یہ بل پیش کیا)، نے حزبِ اختلاف کے تمام خدشات اور الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔ حکومت نے اس قانون سازی کو ایک ضروری اصلاحاتی اقدام کے طور پر پیش کیا، جس کا مقصد دہائیوں پرانے وقف نظام میں موجود مبینہ خامیوں کو دور کرنا تھا۔ حکومتی موقف کے کلیدی نکات درج ذیل تھے:
lشفافیت اور جوابدہی کا فروغ: حکومت کا ایک بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ موجودہ وقف نظام میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان ہے۔ الزام لگایا گیا کہ وقف بورڈز اور متولیوں کے درمیان مبینہ بدعنوانیاں ہوتی ہیں، املاک کا ریکارڈ درست نہیں رکھا جاتا، اور آمدنی کا صحیح حساب کتاب موجود نہیں، جس سے اوقاف کے اصل مقاصد پورے نہیں ہو پاتے۔ نئے قانون کا مقصد، حکومتی بیانیے کے مطابق، جدید ٹیکنالوجی (جیسے وامسی WAMSI پورٹل کا حوالہ دیا گیا، اگرچہ اپوزیشن نے اس کی کارکردگی پر سوال اٹھایا) کے استعمال اور سخت قوانین کے ذریعے وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانا اور ذمہ داران کو جوابدہ بنانا ہے۔
lناجائز قبضوں کا خاتمہ: حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ ملک بھر میں ہزاروں وقف املاک پر ناجائز قبضے ہیں، جنہیں واگزار کرانا موجودہ قوانین کے تحت مشکل ہے۔ Limitation Act کے اطلاق کو اس تناظر میں پیش کیا گیا کہ اس سے قانونی صورتحال واضح ہوگی اور طویل عرصے سے جاری تنازعات کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ (اگرچہ اپوزیشن نے اسے قبضوں کو قانونی حیثیت دینے کا راستہ قرار دیا)۔ حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ وقف املاک کو "قبضہ مافیا” سے بچانا چاہتی ہے۔
lیکساں قانونی ڈھانچہ: ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ ملک میں تمام مذہبی اداروں اور ٹرسٹ کے لیے قوانین میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ حکومت کا موقف تھا کہ وقف ایکٹ 1995 میں موجود Limitation Act سے استثنیٰ جیسی شقیں دیگر مذہبی اداروں کے قوانین میں موجود نہیں، لہٰذا یہ ترمیم تمام مذہبی کمیونٹیز کے لیے قوانین کو ایک سطح پر لانے کی کوشش ہے۔ اس دلیل کا مقصد قانون کو سیکولر اور غیر امتیازی ظاہر کرنا تھا۔
lاوقاف کا بہتر انتظام: مجموعی طور پر، حکومت نے یہ مؤقف اپنایا کہ ان ترامیم کا مقصد وقف کے ادارے کو ختم کرنا یا کمزور کرنا نہیں، بلکہ اسے مزید مؤثر، شفاف اور جوابدہ بنانا ہے تاکہ وقف املاک کا بہتر انتظام ہو سکے اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد صحیح معنوں میں مستحقین تک پہنچ سکیں۔
اپوزیشن کے جوابی الزامات: منافقت، تضادات اور وعدہ خلافی
حزبِ اختلاف نے حکومتی دلائل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں منافقت اور قول و فعل کے تضاد کا آئینہ دار قرار دیا۔ اجیت انجم کے تجزیے میں بھی یہی جھلک نمایاں تھی کہ حکومت کا عوامی بیانیہ اور اس کی پالیسیوں کے ممکنہ نتائج میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اپوزیشن نے کئی ٹھوس نکات اٹھائے:
lمسلم مخالف ریکارڈ: اپوزیشن نے بارہا بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے ماضی اور حال کے ان بیانات اور اقدامات کی طرف توجہ دلائی جو واضح طور پر مسلم مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ سوال اٹھایا گیا کہ جو جماعت مسلمانوں کو ’گھس پیٹھیا‘، ’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘ سمجھتی ہو، جس کے وزیر اعلیٰ ’80 بنام 20‘جیسی تفریق پیدا کرنے والی زبان استعمال کرتے ہوں، اور جس کی حکومتوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانا ایک معمول بن گیا ہو، وہ جماعت اچانک مسلمانوں کے وقف اداروں کی شفافیت اور بہتر انتظام کے لیے کیسے فکر مند ہو گئی؟ کیا یہ مگرمچھ کے آنسو نہیں ہیں؟
lدیگر مذہبی اداروں سے موازنہ: اروند ساونت نے حکومت کے ’یکساں قانون‘ کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے ہندو مندروں (جیسے پدمنابھ سوامی مندر، کیدارناتھ مندر) میں مبینہ بے ضابطگیوں اور وہاں سے غائب ہونے والے سونے کا ذکر کیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا حکومت نے ان اداروں کے قوانین میں بھی ایسی ہی سخت ترامیم کی ہیں؟ کیا وہاں بھی Limitation Act کا اطلاق اسی طرح کیا گیا ہے؟ انہوں نے کاشی وشوناتھ ٹرسٹ کی مثال دی جہاں قانوناً یہ شرط ہے کہ اگر ضلع ادھیکاری مسلمان ہو تو وہ پَداھیکاری (Ex-officio Chairman) نہیں بن سکتا۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ حکومت کا "یکساں قانون” کا نعرہ کھوکھلا ہے اور اس کا اصل نشانہ صرف مسلم ادارے ہیں۔
lاصلاح نہیں، کنٹرول کا ارادہ: اپوزیشن نے زور دے کر کہا کہ حکومت کا اصل مقصد وقف اداروں کی اصلاح نہیں، بلکہ ان پر مکمل سرکاری کنٹرول حاصل کرنا اور انہیں غیر مؤثر بنانا ہے۔ بورڈز کی تشکیل میں تبدیلی، سرکاری افسران کا بڑھتا ہوا کردار، اور قانونی تحفظات کا خاتمہ، یہ سب اسی سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی اصلاح چاہتی تو وہ کمیونٹی کے نمائندوں، علمائے کرام اور قانونی ماہرین سے مشاورت کرتی اور ان کے خدشات دور کرتی۔
lوعدہ خلافی اور جلد بازی: بل کی منظوری کے عمل پر بھی شدید اعتراضات کیے گئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حکومت نے پہلے پارلیمانی کمیٹیوں اور عوامی مشاورت کا تاثر دیا لیکن پھر اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر، بغیر مناسب بحث اور غور و خوض کے، اس متنازعہ بل کو جلد بازی میں منظور کروا لیا۔ یہ عمل حکومت کے جمہوری اقدار سے انحراف اور اس کی مبینہ بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
الغرض، پارلیمانی مباحثے نے حکومت کے اصلاحات اور شفافیت کے بیانیے اور اپوزیشن کے منافقت، امتیازی سلوک اور کنٹرول حاصل کرنے کے الزامات کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ اپوزیشن کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ وقف ترمیمی بل، بی جے پی کی وسیع تر سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کو مزید کمزور کرنا اور ملک میں مذہبی بنیادوں پر تفریق کو گہرا کرنا ہے۔
5- پروپیگنڈا کا طوفان بمقابلہ زمینی حقائق : وقف کے متعلق پھیلائے گئے جھوٹ کا احتساب
کسی بھی متنازعہ قانون سازی کے ارد گرد، خاص طور پر جب اس کا تعلق مذہبی اقلیتوں سے ہو، غلط معلومات، افواہوں اور منظم پروپیگنڈے کا پھیلایا جانا ایک عام حربہ بن چکا ہے۔ وقف (ترمیمی) بل 2024 بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا، مخصوص نیوز چینلز اور سیاسی پلیٹ فارمز سے وقف کے نظام، وقف بورڈز اور وقف ٹریبونلز کے بارے میں ایسے گمراہ کن اور بے بنیاد دعوے کیے گئے جن کا مقصد بظاہر عوام الناس، خصوصاً اکثریتی طبقے، کو اس ادارے کے خلاف بھڑکانا، مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنا اور مذہبی بنیادوں پر معاشرے کو مزید تقسیم کرنا تھا۔ ان حالات میں، حقائق کو سامنے لانا اور پروپیگنڈے کا مدلل جواب دینا انتہائی ضروری ہے۔ آئیے، وقف کے متعلق پھیلائے جانے والے چند عام جھوٹ اور ان کی اصل حقیقت کا جائزہ لیں:
1-جھوٹ: ’وقف ٹریبونل وقف بورڈ کے احکامات کا پابند ہوتا ہے اور اسی کے ماتحت کام کرتا ہے‘
حقیقت: یہ دعویٰ سراسر لاعلمی یا دانستہ غلط بیانی پر مبنی ہے۔ وقف ٹریبونل، وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 83 کے تحت قائم کیا گیا ایک آزاد عدالتی ادارہ (Judicial Body) ہے۔ اس کی حیثیت سول کورٹ کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے اراکین میں ریاستی جوڈیشل سروس سے تعلق رکھنے والے افسران (بطور چیئرمین)، ریاستی سول سروسز کے سینئر افسران، اور اسلامی قانون و فقہ کے ماہرین شامل ہوتے ہیں، جن کا تقرر ریاستی حکومت ہائی کورٹ کی مشاورت سے کرتی ہے۔ اس کے برعکس، وقف بورڈ ایک انتظامی ادارہ (Administrative Body) ہے جس کا کام اوقاف کی نگرانی اور انتظام کرنا ہے۔ ٹریبونل، وقف بورڈ کے فیصلوں (مثلاً کسی جائیداد کو وقف قرار دینے یا متولی کی تقرری) کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں اور تنازعات کی سماعت کرتا ہے۔ ٹریبونل کسی بھی طرح وقف بورڈ کے ماتحت نہیں، بلکہ وہ بورڈ کے انتظامی فیصلوں کا عدالتی جائزہ لینے کا اختیار رکھتا ہے۔
2-جھوٹ: ’وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف کسی اعلیٰ عدالت میں نہیں جایا جا سکتا‘
حقیقت: یہ دعویٰ بھی قانوناً غلط ہے۔ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 83(9) میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ وقف ٹریبونل کے کسی بھی فیصلے یا حکم سے متاثر ہونے والا کوئی بھی فریق ہائی کورٹ میں نظرثانی (Revision) یا اپیل (متعلقہ قانونی صورتحال کے مطابق) دائر کر سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ٹریبونل کے فیصلے کا جائزہ لے، اسے برقرار رکھے، تبدیل کرے یا مکمل طور پر کالعدم قرار دے۔ لہٰذا، ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی سمجھنا یا اسے دیگر عدالتی نظام سے بالاتر قرار دینا محض ایک گمراہ کن بیان ہے۔
3-جھوٹ: ’وقف بورڈ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں؛ وہ کسی بھی سرکاری یا نجی زمین کو جب چاہے وقف قرار دے کر اس پر قبضہ کر سکتا ہے‘
حقیقت: یہ وقف کے خلاف پھیلایا جانے والا شاید سب سے خطرناک اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ کسی بھی جائیداد کو وقف قرار دینے کا ایک انتہائی جامع اور کثیر سطحی قانونی و انتظامی طریقہ کار موجود ہے۔ وقف ایکٹ کے تحت، پہلے وقف سروے کمشنر (جو ایک سرکاری عہدیدار ہوتا ہے) ممکنہ وقف املاک کا سروے کرتا ہے، تمام دستیاب دستاویزات، ثبوت اور مقامی روایات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کی رپورٹ کی بنیاد پر وقف بورڈ ابتدائی طور پر کسی جائیداد کو وقف کے طور پر نوٹیفائی کر سکتا ہے۔ تاہم، یہ نوٹیفکیشن حتمی نہیں ہوتا۔ اس نوٹیفکیشن کے خلاف متاثرہ فریق (چاہے وہ حکومت ہو یا کوئی نجی فرد) ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل میں اعتراض دائر کر سکتا ہے۔ ٹریبونل تمام فریقین کو سن کر اور شواہد کی بنیاد پر حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔ اس پورے عمل میں قانونی جانچ پڑتال، سرکاری تصدیق اور عدالتی نظرثانی کے کئی مراحل شامل ہیں۔ وقف بورڈ ازخود کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی مرضی سے کسی بھی جائیداد کو وقف قرار دے سکتا ہے۔
4-جھوٹ: ’وقف بورڈ صرف مسلمانوں کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے اور ہندوؤں یا دیگر کمیونٹیز کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے‘
حقیقت: یہ ایک گمراہ کن اور تفرقہ انگیز بیان ہے۔ بھارت کا آئین تمام مذاہب کو اپنے مذہبی اداروں اور املاک کے انتظام کا حق دیتا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے لیے وقف بورڈز موجود ہیں، اسی طرح ہندوؤں کے مندروں اور مٹھوں کے انتظام کے لیے مختلف ریاستی قوانین (Endowment Acts) اور بڑے مندروں کے لیے مخصوص ایکٹ (جیسے شری جگناتھ مندر ایکٹ، ویشنو دیوی شرائن ایکٹ، کاشی وشوناتھ ٹرسٹ ایکٹ) موجود ہیں۔ سکھوں کے گوردواروں کے لیے سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی (SGPC) جیسا طاقتور ادارہ موجود ہے۔ عیسائیوں کے اپنے چرچ قوانین اور ٹرسٹ ہیں۔ ہر ادارہ بنیادی طور پر اپنی متعلقہ کمیونٹی کے مذہبی اور فلاحی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وقف بورڈ کو الگ سے نشانہ بنانا اور اسے ہندو مخالف بنا کر پیش کرنا، جبکہ دیگر مذہبی اداروں کے کام پر خاموشی اختیار کرنا، ایک واضح دوغلی پالیسی اور سیاسی ایجنڈے کی نشاندہی کرتا ہے۔
5-جھوٹ: ’وقف ٹریبونل میں مولوی بیٹھتے ہیں اور وہ شریعت کی بنیاد پر مسلمانوں کے حق میں فیصلے دیتے ہیں‘
حقیقت: یہ ادارہ جاتی کردار کشی کی بدترین مثال ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، وقف ٹریبونل ایک سرکاری عدالتی فورم ہے جس کی سربراہی ڈسٹرکٹ جج یا اس کے مساوی رینک کا سرکاری جج کرتا ہے۔ دیگر اراکین میں بھی سینئر انتظامی افسران اور قانون کے ماہرین (جو اسلامی قانون جانتے ہوں) شامل ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی مولوی یا مذہبی رہنما بطور رکن شامل نہیں ہوتا اور نہ ہی فیصلے صرف شریعت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ٹریبونل کے فیصلے بنیادی طور پر وقف ایکٹ 1995، دیگر متعلقہ سول قوانین اور پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ کہنا کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے حق میں فیصلے دیتا ہے، ٹریبونل کی غیر جانبداری اور عدالتی ساکھ پر بے بنیاد حملہ ہے۔
6-جھوٹ: ’وقف املاک صرف مسلمانوں کے فائدے کے لیے ہیں اور ان سے کسی اور کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘
حقیقت: یہ بھی ایک غلط تاثر ہے۔ اگرچہ وقف کا بنیادی تعلق مسلمانوں کی مذہبی ضروریات سے ہے، لیکن وقف کا وسیع تر مقصد خیرات، فلاحِ عامہ اور سماجی خدمت ہے۔ اوقاف کی آمدنی سے چلنے والے بہت سے تعلیمی ادارے، ہسپتال، ڈسپنسریاں، مسافر خانے اور دیگر فلاحی ادارے بلا تفریق مذہب و ملت تمام ضرورت مندوں کی خدمت کرتے ہیں۔ بہت سی درگاہوں پر لگنے والے لنگر میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ وقف کے ذریعے غریبوں کی مدد، بیواؤں کی کفالت اور قدرتی آفات میں امداد جیسے کام بھی کیے جاتے ہیں۔ اسے صرف مسلمانوں تک محدود سمجھنا وقف کی اصل روح اور اس کے وسیع سماجی کردار کو نظر انداز کرنا ہے۔
7-جھوٹ: ’وقف بورڈ منظم طریقے سے سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضہ کرکے ’لینڈ جہاد‘ کر رہا ہے‘
حقیقت: یہ ایک نفرت انگیز اور بے بنیاد الزام ہے۔ ’لینڈ جہاد‘ جیسی اصطلاح خود ساختہ ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف خوف اور نفرت پھیلانا ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، وقف املاک بنیادی طور پر وہ نجی جائیدادیں ہیں جو مسلمانوں نے اپنی مرضی سے ماضی میں عطیہ کی تھیں۔ ان کی رجسٹریشن اور انتظام ایک قانونی طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر تنازعہ ہے تو اس کا فیصلہ عدالتی فورم (ٹریبونل اور ہائی کورٹ) کرتے ہیں۔ وقف بورڈ کا کام اوقاف کا تحفظ اور انتظام ہے، نہ کہ زمینوں پر قبضہ کرنا۔ اس طرح کے الزامات محض سیاسی مقاصد کے لیے گھڑے گئے ہیں۔
یہ تمام حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ وقف کے نظام کے خلاف چلائی جانے والی مہم علمی دیانت داری اور قانونی فہم سے عاری ہے۔ اس کا اصل مقصد، جیسا کہ اپوزیشن نے بھی پارلیمنٹ میں کہا، بی جے پی کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا، ہندو ووٹوں کو اپنے حق میں مجتمع کرنا اور ملک میں مذہبی بنیادوں پر تفریق کو مزید گہرا کرنا معلوم ہوتا ہے۔ سچائی کو سامنے لانا اور ان جھوٹے بیانیوں کا مقابلہ کرنا نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ بھارت کے تمام انصاف پسند شہریوں کی ذمہ داری ہے۔
6- زخموں کا موازنہ – کیا وقف قانون کا نفاذ سانحہ بابری مسجد سے بڑا المیہ ہے؟
یہ سوال کہ کیا وقف (ترمیمی) قانون 2024 کا نفاذ، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت سے بڑا سانحہ ہے، ایک انتہائی سنجیدہ اور غور طلب معاملہ ہے۔ بابری مسجد کا انہدام بلاشبہ آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلم اقلیت کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ تھا، ایک ایسا واقعہ جس نے ان کے عدم تحفظ کے احساس کو شدید کیا اور ملک کے سیکولر تشخص پر گہرے سوالات اٹھائے۔ تاہم، جب ہم نئے وقف قانون کے ممکنہ مضمرات کا جائزہ لیتے ہیں، تو بہت سے پہلو ایسے سامنے آتے ہیں جو اس موازنے کو نہ صرف ممکن بلکہ ضروری بنا دیتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قانون کے اثرات شاید بابری مسجد کے سانحے سے بھی زیادہ وسیع، گہرے اور دیرپا ہوں۔ اس موازنے کو سمجھنے کے لیے دونوں واقعات کی نوعیت، دائرہ کار، نقصان کی کیفیت اور طویل مدتی نتائج کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
1-حملے کی نوعیت: فوری تشدد بمقابلہ خاموش قانونی یلغار:
بابری مسجد کا انہدام ایک کھلا، پرتشدد اور فوری حملہ تھا۔ یہ ایک غیر قانونی عمل تھا جسے ایک مشتعل ہجوم نے انجام دیا، اور یہ ریاست کی قانون نافذ کرنے والی مشینری اور آئینی اداروں کی ناکامی کا واضح ثبوت تھا۔ اس کا صدمہ فوری اور شدید تھا، جس نے ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی اور مسلمانوں کے ذہنوں پر خوف اور بے بسی کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
اس کے برعکس، وقف (ترمیمی) قانون کا نفاذ بظاہر ایک قانونی اور انتظامی عمل ہے۔ یہ کوئی فوری تشدد یا انہدام نہیں، بلکہ قانونی موشگافیوں اور انتظامی تبدیلیوں کا ایک مجموعہ ہے جو بتدریج اور خاموشی سے وقف کے پورے نظام کو اس کی بنیادوں سے کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ حملہ براہ راست جسمانی نہیں، بلکہ ادارہ جاتی، قانونی اور معاشی ہے۔ اس کی شدت شاید فوری طور پر محسوس نہ ہو، لیکن اس کا زہر آہستہ آہستہ پورے نظام میں پھیل سکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی مزاحمت کرنا بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ’’Slow Poisoning‘‘کی مانند ہے جو اندر ہی اندر اداروں کو کھوکھلا کر دے۔
2-دائرہ کار اور وسعت: ایک مقام بمقابلہ لاکھوں املاک:
بابری مسجد کا تنازعہ بنیادی طور پر ایودھیا میں واقع ایک مخصوص مقام سے متعلق تھا۔ اگرچہ اس کے اثرات اور علامتی اہمیت پورے ملک میں محسوس کی گئی اور اس نے قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن براہ راست نشانہ ایک ہی مقام تھا۔اس کے مقابلے میں، وقف (ترمیمی) قانون کا دائرہ کار پورے بھارت پر محیط ہے۔ اس کا اثر ملک بھر میں پھیلی ہوئی تقریباً 8 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور لاکھوں غیر رجسٹرڈ وقف املاک پر پڑے گا۔ یہ کسی ایک مسجد یا مقام کا سوال نہیں، بلکہ یہ لاکھوں مساجد، ہزاروں درگاہیں، سینکڑوں عیدگاہیں، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے قبرستان، بے شمار مدارس، مکاتب، یتیم خانے، مسافر خانے، شفاخانے اور دیگر فلاحی اداروں کے مستقبل اور قانونی حیثیت کا سوال ہے۔ اس کی زد میں آنے والی املاک کا حجم اور ان سے وابستہ افراد کی تعداد بابری مسجد کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہے۔
3-نقصان کی نوعیت: جذباتی و علامتی بمقابلہ ٹھوس، عملی و ہمہ جہت:
بابری مسجد کی شہادت نے بنیادی طور پر مسلمانوں کے جذبات، ان کے مذہبی تشخص اور ان کے آئینی حقوق پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ یہ ایک گہرا نفسیاتی اور علامتی زخم تھا۔ اگرچہ اس سے ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچا، لیکن اس کا براہ راست معاشی یا سماجی نقصان کمیونٹی کی وسیع اکثریت کے لیے فوری طور پر ظاہر نہیں تھا۔
دوسری طرف، وقف (ترمیمی) قانون سے ہونے والا ممکنہ نقصان صرف جذباتی یا علامتی نہیں، بلکہ ٹھوس، عملی، معاشی، سماجی، تعلیمی اور ادارہ جاتی ہے۔
lمعاشی نقصان: Limitation Act کے نفاذ سے ہزاروں قیمتی املاک، خاص طور پر شہری علاقوں میں، وقف بورڈز کے ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔ ان املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی، جو کمیونٹی کے فلاحی اور تعلیمی منصوبوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، ختم ہو جائے گی۔ یہ کمیونٹی کی معاشی بنیادوں پر براہ راست حملہ ہے۔
lتعلیمی نقصان: بہت سے مدارس، اسکول اور کالج وقف املاک پر قائم ہیں یا ان کی مالی معاونت اوقاف سے ہوتی ہے۔ ان املاک پر تنازعات یا ان کے چھن جانے سے یہ تعلیمی ادارے بند ہو سکتے ہیں، جس سے کمیونٹی میں تعلیمی پسماندگی مزید بڑھے گی۔
lسماجی نقصان: یتیم خانوں، بیواؤں کے وظائف، غریبوں کی امداد، طبی سہولیات – یہ سب وقف کے سماجی کردار کا حصہ ہیں۔ ان کے متاثر ہونے سے کمیونٹی کا اندرونی سماجی تحفظ کا نظام تباہ ہو سکتا ہے۔
lادارہ جاتی نقصان: وقف بورڈز کی خودمختاری ختم ہونے اور ان پر سرکاری کنٹرول بڑھنے سے وقف کا پورا ادارہ جاتی ڈھانچہ کمزور ہو جائے گا اور کمیونٹی اپنے معاملات میں بے اختیار ہو جائے گی۔
4-قانونی تحفظ اور بے بسی کا احساس:
بابری مسجد کے معاملے میں، اگرچہ انصاف کے حصول میں دہائیاں لگ گئیں اور حتمی فیصلہ مسلمانوں کے لیے مایوس کن رہا، لیکن کم از کم قانونی جنگ لڑنے کا ایک طویل موقع موجود تھا۔ عدالتوں میں دلائل پیش کیے گئے، شواہد رکھے گئے اور ایک باقاعدہ قانونی عمل مکمل ہوا۔
نیا وقف قانون، خاص طور پر Limitation Act کے اطلاق اور Waqf by User کے خاتمے کے ذریعے، لاکھوں وقف املاک کو قانونی جنگ لڑنے کے مؤثر حق سے ہی محروم کر سکتا ہے۔ 12 سال سے پرانے قبضوں کے خلاف اب قانونی چارہ جوئی تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ یہ صورتحال ایک شدید قانونی بے بسی کا احساس پیدا کرتی ہے، جہاں کمیونٹی اپنی جائز املاک کو قانون کے ذریعے ہی کھوتا ہوا دیکھے گی۔
5-ماضی کا زخم بمقابلہ مستقبل کا مستقل خطرہ:
بابری مسجد کا انہدام ایک ماضی کا واقعہ ہے، ایک المناک یاد دہانی ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کے زخم آج بھی تازہ ہیں، لیکن وہ بنیادی طور پر ماضی سے جڑے ہیں۔
وقف (ترمیمی) قانون مستقبل کے لیے ایک مستقل خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ اس کے منفی اثرات آج سے شروع ہو کر آنے والی کئی دہائیوں، بلکہ نسلوں تک، مسلم کمیونٹی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مقدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، املاک کا بتدریج چھنتے جانا، فلاحی اداروں کا بند ہونا، بورڈز کی بے بسی، یہ ایک ایسا مسلسل عمل ہو سکتا ہے جو کمیونٹی کو اندر سے کھوکھلا کر دے۔ یہ صرف ماضی کی وراثت پر نہیں، بلکہ مستقبل کی بنیادوں پر حملہ ہے۔
ان تمام پہلوؤں پر گہرائی سے غور کرنے کے بعد، یہ دلیل انتہائی وزن رکھتی ہے کہ وقف (ترمیمی) قانون 2024 کا نفاذ، اپنی خاموش اور قانونی نوعیت کے باوجود، بابری مسجد کی شہادت سے زیادہ گہرے، زیادہ وسیع اور زیادہ تباہ کن اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بابری مسجد کا زخم فوری، شدید اور علامتی تھا؛ وقف قانون کا زخم بتدریج، عملی، معاشی، سماجی اور ادارہ جاتی ہے۔ بابری نے ایک مسجد چھینی؛ یہ قانون لاکھوں اوقاف اور ان سے جڑے پورے نظام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ ایک ایسی قانونی تبدیلی ہے جو بھارتی مسلم کمیونٹی کے سماجی، معاشی اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ سکتی ہے اور انہیں ایک بے مثال قانونی و وجودی بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ اسی لیے، اسے "سانحہ بابری مسجد سے بڑا سانحہ” قرار دینا محض جذباتی بیان نہیں، بلکہ ایک سنگین اور قابلِ غور تجزیہ ہے۔
7- ممکنہ اثرات اور مستقبل کا لائحہ عمل
وقف (ترمیمی) قانون 2024 کے نفاذ کے بعد بھارتی مسلمانوں کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:
lبڑے پیمانے پر مقدمہ بازی: Limitation Act کے نفاذ کے بعد وقف املاک پر قابض افراد یا ادارے بڑے پیمانے پر ملکیت کے دعوے دائر کر سکتے ہیں۔
lاملاک کا نقصان: قانونی جنگ ہارنے کی صورت میں یا قانونی چارہ جوئی نہ کر پانے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ قیمتی اراضی اور املاک وقف کے ہاتھ سے نکل سکتی ہیں۔
lمعاشی بدحالی: اوقاف سے حاصل ہونے والی آمدنی ختم ہونے سے ان پر چلنے والے فلاحی ادارے، تعلیمی ادارے (مدارس، اسکول، کالج) اور دیگر خدمات شدید متاثر ہوں گی، جس سے کمیونٹی کی معاشی حالت مزید خراب ہوگی۔
lتعلیمی پسماندگی: بہت سے تعلیمی ادارے وقف املاک پر قائم ہیں یا ان کی آمدنی سے چلتے ہیں۔ ان کے متاثر ہونے سے کمیونٹی میں تعلیمی پسماندگی بڑھے گی۔
lسماجی تحفظ کا خاتمہ: یتیم خانے، بیواؤں کے وظائف، غریبوں کی امداد جیسے بہت سے کام اوقاف کے ذریعے ہوتے ہیں۔ ان کے خاتمے سے سماجی تحفظ کا نظام کمزور ہوگا۔
lمذہبی اداروں پر کنٹرول: وقف بورڈز کی خودمختاری ختم ہونے سے مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں کا انتظام بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومتی کنٹرول میں آ سکتا ہے۔
lشناخت اور تاریخ کا مٹنا: بہت سی وقف املاک تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا چھن جانا یا ان کی حیثیت تبدیل ہونا کمیونٹی کی تاریخ اور شناخت کو مٹانے کے مترادف ہوگا۔
lعدم تحفظ اور مایوسی میں اضافہ: یہ تمام عوامل مل کر مسلمانوں میں عدم تحفظ، بے بسی اور نظامِ انصاف سے مایوسی کے جذبات کو مزید گہرا کریں گے۔
ان سنگین خطرات کے پیش نظر، محض احتجاج یا مایوسی کا اظہار کافی نہیں۔ ایک ٹھوس، منظم اور کثیر الجہتی لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے:
lقانونی جنگ: اس قانون کی آئینی حیثیت کو اعلیٰ ترین عدالتوں میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔ ماہر قانون دانوں کی خدمات حاصل کر کے ٹھوس بنیادوں پر مقدمات دائر کیے جائیں۔
lریکارڈ کی درستگی: تمام وقف بورڈز کو جنگی بنیادوں پر اپنی املاک کا سروے مکمل کرانا چاہیے، تمام دستاویزات کو اکٹھا اور ڈیجیٹائز کرنا چاہیے تاکہ قانونی دفاع ممکن ہو سکے۔
lعوامی بیداری: مسلم کمیونٹی اور ملک کے دیگر انصاف پسند طبقات کو اس قانون کے خطرات اور وقف کی اصل اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ پروپیگنڈے کا مدلل جواب دیا جائے۔
lسیاسی دباؤ: تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر متحد ہو کر حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اس قانون پر نظر ثانی کرے یا اسے واپس لے۔
lبین المذاہب مکالمہ: دیگر مذہبی کمیونٹیز کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام مذہبی اقلیتوں اور آئینی حقوق کا مسئلہ ہے۔
lوقف کا بہتر انتظام: وقف بورڈز اور متولیوں کو بھی اپنے اندر اصلاحات لانے، شفافیت کو یقینی بنانے اور اوقاف کا بہتر انتظام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بدعنوانی یا نااہلی کے الزامات کا ازالہ ہو سکے۔
حاصل کلام:
وقف (ترمیمی) قانون 2024 ایک ایسا قانون ہے جس نے بھارتی مسلمانوں کے مستقبل پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ صرف چند قانونی شقوں کی تبدیلی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی سمت کی نشاندہی کرتا ہے جہاں اقلیتوں کے آئینی حقوق، ان کے مذہبی ادارے اور ان کی سماجی و معاشی بنیادیں خطرے میں نظر آتی ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت نے اگر مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کیا تھا، تو یہ نیا قانون ان کے وجود کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف قانونی یا سیاسی سطح پر ہی نہیں، بلکہ سماجی، علمی اور شعوری سطح پر بھی کرنا ہوگا۔ یہ بھارت کے جمہوری اور سیکولر مستقبل کے لیے ایک کڑا امتحان ہے، جس میں تمام انصاف پسند شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔