23.1 C
Delhi
جنوری 23, 2025
Samaj News

جامعہ ریاض العلوم دہلی میں 76واں جشن آزادی کی شاندار تقریب

نئی دہلی، سماج نیوز: دہلی کے قدیم تعلیمی ادارہ جامعہ ریاض العلوم کے سینٹرل لایبریری میں مورخہ 14اگست کو 9.30 بجےجشن آذادی کی مناسبت سے شاندار تقریب منعقد ہوئی ،جس میں طلبہ و اساتذہ و ناظم جامعہ شریک ہوئے۔ اس تقریب کی نظامت سینئر استاذ شیخ علی اختر مکی نے بخوبی انجام دی اور جشن جمہوریت کا مختصر تعارف کرایا جس میں علماء اور مسلم قائدین کی قربانیوں کا تذکرہ کیا ،

جلسہ کا آغاز طالب علم فخر الاسلام کی تلاوت قران پاک سے ہوا اور اسکے بعد حمد باری متعلم حمیداللہ نے مترنم آواز میں پیش کیا،:

الٰہی تو اکیلا ہے مگر سارا جہاں تیرا
مکیں تیرا مکاں تیرا زمین تیری آسمان تیرا
بعدہ نعت نبوی متعلم شفیق الرحمٰن نے مترنم آواز میں پیش کی۔ اس کے بعد "قومی ترانہ” اشتیاق احمد، مختار احمد، شفیق الرحمٰن اور عبدالرحیم نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد طلبہ کی طرف سے ارشاد عطاء اللہ نے ’’جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کرادار اور ان کی قربانیاں‘‘پر عمدہ تقریر کی اور یہ کہا کہ جنگ آزادی کی ابتداء1750 سے ہی ہوچکی تھی جو1947 میں بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی اورمزید بتایا کہ سراج الدولہ سے میر جعفر اور شیر میسور سلطان ٹیپو سے میر صادق نے اگرغداری و بغاوت نہ کی ہوتی تو یہ آزادی 200سال پہلے مل چکی ہوتی ، تقریرمیں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ اس کے بعد انگریزی میں تقریر کے لئے فضیلت آخر سے فرحان احمد عبدالمعبود کو دعوت دی گئ موصوف نے جنگ آزادی میں مسلمان علماء اور قائدین کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔بعدہ اشتیاق احمد اور عبدالرحیم نے الگ الگ جشن آزادی پر عمدہ نظم پیش کی۔ اس کے بعد جامعہ کے سینئر استاذ مولانا عبدالمبین ندوی نے آزادئ وطن میں مسلمان کی عظیم قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ76 سال قبل وطن عزیز کو 1947 میں آزادی کی دولت نصیب ہوئ جس کے لئے مسلمانوں نے پہلے اور برادران وطن نے بعد میں مل کر بڑی مہنگی قیمت ادا کی اور غلامی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صیاد خصلت انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف قسم کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔ جس نے تجارت کے نام پر ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کرکے 100 برس تک جبر و ظلم کی حکومت کی جب کہ اسی ہندوستان پر 800 سالہ مسلم فرمانروائی کا عہد ابھی تازہ بہ تازہ ختم ہوا تھا۔اس کے ساتھ مولانا نے سیاسی تعلیمی معاشی حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آج کے حالات جشن کے بجائے ماتم کرنے کے ھیں۔ ہر طرف یکطرفہ اقلیت پر کاروائی کی جارہی ہے جس میں منی پور اور نوح ہریانہ کے تازہ فسادات کا تذکرہ کیا اوراس کی مذمت کی، آخر میں اپنا خطاب مولانا عامر عثمانی رح کے ان اشعار پر ختم کیا
کتنا ہی سجالے محفل کو اے دوست! یہ جشن عام نہیں
جس جشن میں ناداروں کے لیے راحت کا کوئی پیغام نہیں
جس بادہ کی مستی دل توڑے جس جام سے روحیں گھائل ھوں
وہ تازہ لہو ہے بادہ نہیں وہ کاسۂ سر ہے جام نہیں
غیروں کی حکومت تھی جب بھی مفلس کے لیے آرام نہ تھا
اپنوں کی حکومت ہے اب بھی مفلس کےلئے آرام نہیں
ہم جشن تو اس دن سمجھیں گے جب چین ملے گا غربت کو
تقسیم غلط ھے دولت کی زردار ابھی ناکام نہیں
مولانا ندوی کےخطاب کے بعد انگریزی کے استاد ماسٹر انیس دہلوی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ہمیں ہر فیلڈ میں اپنے افراد چاہیے جبھی ہمیں حقیقی آزادی ملےگی۔ ہم تعلیم کے میدان میں آج بھی بہت پیچھے ہیں اسی لئے ہمارا سیاسی معاشی تعلیمی فیلڈ میں کوئی وزن نہیں اس کے لئے ہمیں بہت زیادہ جد و جہد اور محنت کرنی پڑے گی۔ اسکے بعد ناظم جامعہ انجینئر جناب عامر عبدالرشید بستوی نے جشن آذادی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کے علماء اور دوسرے لیڈروں نے اور ملک کی آزادی کے لیے مختلف برادری اور مذہب کے لوگوں نے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں تب ہم کو آزادی ملی ہے۔ ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں پیش کی تھیں اس کے مقابلہ میں آج ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس سلسلہ میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنے ماضی کو یاد رکھنا چاہئیے اور یاد دلایا کہ انڈیا گیٹ پر33ہزار مسلمانوں کے نام آزادی کی قربانی میں لکھے ہوئے ہیں آج ہمیں تعلیم کی میدان میں آگے بڑھنے کی سخت ضرورت ہے. اپنے دادا مولانا عبدالسلام بستوی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یتیمی کی حالت میں تعلیم حاصل کی آج ہماری شناخت انہی سے ہے وہ اپنی اولاد کو کچھ نہیں دے گئے مگر تعلیم دلا گئے اور آخری میں کہا کہ ہمیں اپنے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
بعدہ جامعہ کے دوسرے سینئیر استاد شیخ عبدالغنی مدنی نے اپنے مختصر خطاب میں پندرہ اگست کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں کی تاریخ کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے اسے مردہ قوم ثابت کیا جارہا ہے جب کہ مسلمان مردہ نہیں بلکہ زندہ قوم ہے۔ تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 500 برس تک ترکوں نے پھر خلجی، لودھی اور مغلوں نے حکومت کی اور کسی پر جبر وظلم نہیں کیا اس کے بعد انگریز آئے اور 100 برس تک حکومت میں ظلم و جبر کی تاریخ رقم کی۔ مولانا نے کہا : صرف جون پور میں 52000 علماء مار دئیے گئے۔ اس کے بعد 1947 میں جو آزادی ملی ان 76برسوں میں ہم پر جو ظلم و جبر ہوا وہ کہیں زیادہ ھے۔ آج ضرورت ہے کہ دینی مدارس میں دینی تعلیمات کے ساتھ عصری تعلیم کو شامل کیا جائے ورنہ اپاہج لوگ پیدا ہوں گے۔ اخیر میں کہا کہ یہ ظلم و جبر ہمیشہ نہیں رہیگا یہ سنت الٰہی ہے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ان شاء اللہ حالات جلد بدلیں گے۔آخر میں شیخ الحدیث مولانا عبدالاحد مدنی کے دعائیہ کلمات پر جلسہ کا اختتام ہوا۔ مولانا نے دعا فرمائی کہ اللہ ہمارے ملک سے شر وفساد کوختم کرکے اسے جنت نظیر بنادے اور ہر جگہ امن وامان پیدا فر ما دے آمین ،اسی پر جلسہ کا کامیابی کے ساتھ اختتام ہوا ۔

Related posts

تین ماہ قبل دوسری بیوی کا ہوا تھا انتقال

www.samajnews.in

مدرسہ عبداللہ بن مسعود لتحفيظ القرآن الکريم، تلسی پور میں دستاربندی کامیابی کیساتھ اختتام پذیر

www.samajnews.in

ریلائنس نے اتراکھنڈ میں سیلاب متاثرین کو راحت اور ترقی کیلئے 25 کروڑ روپے کاعطیہ دیا

www.samajnews.in