18.1 C
Delhi
فروری 11, 2025
Samaj News

کیا اسلامی دنیا کو اپنا AI ماڈل تیار کرنا چاہیے؟

ISLAMGPT کی اہمیت،امکانات اور چیلنجز

 

ڈاکٹر محمد عظیم الدین
عصرِ حاضر میں مصنوعی ذہانت کا دائرہ کار ہر علمی و تحقیقی میدان میں پھیل چکا ہے، اور مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے لیے مخصوص ماڈلز تیار کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اسلامی علوم، تاریخ، الہیات اور فلسفے کے لیے کوئی ایسا ماڈل موجود نہیں جو تمام مکاتبِ فکر کو یکجا کرکے اسلامی تحقیق و تفکر کی خدمت کر سکے۔ اسی پس منظر میں ’ISLAMGPT‘جیسے ایک SLM (Small Language Model) کی اشد ضرورت ہے، جو اسلامی ذخیرۂ علم کو جدید سائنسی و ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کر کے تحقیق و تفکر کی نئی راہیں ہموار کرے۔
موجودہ دور میں اسلامی تاریخ، ادب اور دینی علوم کے بیش بہا مخطوطات اور نادر ذخائر یا تو ضائع ہو رہے ہیں یا عام لوگوں اور محققین کی رسائی سے باہر ہیں۔ ایک ایسا مصنوعی ذہانت ماڈل جو قدیم اور جدید علمی مواد کو یکجا کرے، محققین، اساتذہ، طلبہ اور عام قارئین کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ یہ نہ صرف اسلامی علوم کو ڈیجیٹل تحفظ فراہم کرے گا بلکہ تحقیق کو آسان، منظم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی بنائے گا۔
اسلامی دنیا میں فقہ، تفسیر، حدیث اور دیگر علوم پر مختلف مکاتبِ فکر کی اپنی تشریحات اور تعبیرات ہیں۔ ISLAMGPT کی خصوصیت یہ ہوگی کہ یہ کسی خاص مسلک یا مکتبِ فکر تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ تمام معتبر اسلامی مکاتبِ فکر کی کتب، تفاسیر، فتاویٰ اور فلسفیانہ مباحث کو شامل کرے گا، تاکہ ہر شخص اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق مستند اور معتبر علمی مواد حاصل کر سکے۔ اس کے علاوہ اسلامی فلسفہ، کلامی نظریات اور جدید فکری مکالمے کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا تاکہ اسلامی اور جدید مغربی علمی مکاتب کے درمیان فکری ربط پیدا کیا جا سکے۔
یہ ماڈل جدید تعلیمی نظام میں بھی ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ مدارس، جامعات، تحقیقی مراکز اور اسلامی فلاحی ادارے اس ماڈل کو اپنے نصاب اور تحقیقی کاموں میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس کی مدد سے دینی سوالات کے مستند جوابات فراہم کیے جا سکیں گے، جو عام افراد کو گمراہی اور غیر مستند معلومات سے بچانے میں مدد دے گا۔ مزید یہ کہ جدید سائنسی موضوعات جیسے بایوٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، کرپٹو کرنسی اور سماجی مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر کو علمی انداز میں پیش کرنے میں بھی یہ ماڈل اہم ثابت ہوگا۔
لیکن اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ مستند اسلامی ماخذات کی دستیابی اور ان کا ڈیجیٹل تحفظ ہے۔ چونکہ اسلامی علوم کا ایک بڑا ذخیرہ عربی، فارسی اور اردو میں موجود ہے، اس لیے ISLAMGPT کو ان تمام زبانوں میں مہارت حاصل ہونی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر اس سے استفادہ کیا جا سکے۔ دوسرا چیلنج جدید تکنیکی مہارت رکھنے والے ماہرین کی ضرورت ہے جو نہ صرف مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ اسلامی علوم پر بھی گہری نظر رکھتے ہوں۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری درکار ہوگی، جو صرف اسلامی حکومتیں یا بڑے فلاحی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اس منصوبے کو مشترکہ طور پر اپنائیں اور اس میں سرمایہ کاری کریں تو یہ امت مسلمہ کے علمی ورثے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔
چونکہ مصنوعی ذہانت کے جدید ماڈلز کو بنانے میں بہت زیادہ وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں، اس لیے چین کے ’DeepSeek‘جیسے اوپن سورس ماڈلز کو استعمال کرکے ایک مخصوص اسلامی ماڈل تیار کرنا نسبتاً آسان اور کم خرچ ثابت ہو سکتا ہے۔ DeepSeek ایک جدید چینی مصنوعی ذہانت ماڈل ہے جو کھلے عام دستیاب ہے اور اس میں اسلامی علوم کو شامل کرکے ISLAMGPT کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف کم وسائل میں ایک بہترین ماڈل تیار ہوگا بلکہ اسلامی دنیا ایک جدید اور مستند ڈیجیٹل علمی ماخذ سے مستفید ہو سکے گی۔
عالمِ اسلام کو علمی و تحقیقی ترقی کے لیے ایسے جدید اقدامات کی ضرورت ہے جو نہ صرف اسلامی ورثے کو محفوظ کریں بلکہ تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھولیں۔ اگر اس منصوبے پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو یہ اسلامی علوم، تاریخ، الہیات اور فلسفے کے لیے ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے اور امت مسلمہ کو جدید سائنسی اور فکری ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

Related posts

اعظم گڑھ کا محروم طبقہ (نٹ سماج) اور ہم سب

www.samajnews.in

بھجن لال شرما ہوں گے راجستھان کے نئے وزیر اعلیٰ

www.samajnews.in

بیدری کاریگر جناب رشیداحمد قادری کو پدم شری ایوارڈ تفویض

www.samajnews.in