23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

اسلامی خواتین کا امتیازی کردار

محمد طارق انور ندوی
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سماج کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا کردار بڑا درخشاں اور مثالی نظر آتا ہے۔ ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے میدان میں انہوں نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے۔علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہے اور حفظ کرایا ہے، تجوید اور علم قراءت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوسروں کو یہ فن سکھایا ہے،اپنے شیوخ سے احادیث ِنبوی کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں تک پہنچایا ہے، فقہ سے اشتغال رکھاہے اور اپنے فتاویٰ کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے، زہد وتصوف میں شہرت حاصل کی ہے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اسلامی علوم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا مرہونِ منت نہ ہو۔علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔

١-امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے۔حضرت عائشہؓ نہایت ذہین اور غیر معمولی حافظہ کی مالک تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کامل ترین شکل میں یادرکھا اور آپ کے جن اعمال کا مشاہدہ کیا ان کو بھی پوری طرح سمجھ کر اپنے ذہن میں محفوظ رکھا۔وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پچاس (۵۰) برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دو نسلوں تک آپؐ کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔وہ ایک قسم کا زندہ Tape recorderبن کر تقریباًنصف صدی تک امت کے حق میں فیض رسانی کا ذریعہ بنی رہیں۔

حضرت عائشہؓ سے دوہزار دو سو دس(۲۲۱۰) احادیث مروی ہیں۔ان سے دو سو ننانوے(۲۹۹) صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میں سڑسٹھ( ۶۷) خواتین تھیں۔ ٢.حضرت ام سلمہؓ کا شمار فقہائے صحابیات میں ہوتاہے۔علامہ ابن قیمؒ نے لکھاہے کہ اگر ان کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوسکتاہے۔ان سے ایک سو ایک (۱۰۱)صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میں تیئس(۲۳) خواتین ہیں۔احادیث کی روایت میں صحابیات ، تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
٣-سید التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ بڑے علم و فضل کے مالک تھے۔ ان کے حلقۂ درس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’درّۃ‘ نے ان سے مروی تمام احادیث حفظ کرلی تھیں۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے اور ولی عہد ولیدکے لیے ان کا رشتہ مانگا، لیکن ابن المسیب ؒنے انکار کردیا اور ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد ابن ابی وداعہ سے کردیا۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن المسیبؒ کی علمی مجلس میں جانے لگے تو بیوی نے کہا: اجلس أعلّمک علم سعید۔’’یہیں رہیے۔ (میرے والد) حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میں ہی آپ کو دے دوں گی۔‘‘

۴-امام مالک بن انس کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں۔ احادیث پڑھنے میں کوئی شخص غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹادیاکرتی تھیں۔ امام مالک سمجھ جاتے اور پڑھنے والے کی اصلاح کردیتے تھے۔

۵-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب بنگال کے دورے پر نکلے تو آپ کے ہاتھ پر سات لاکھ ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور ستر لاکھ مسلمانوں نے بیعت توبہ کی ،جب آپ گھر واپس آئے تو خوشی کی وجہ سے چہرے پر رعنائی تھی،آپ نے اپنی والدہ کی قدم بوسی کی،ماں نے پوچھا ،بیٹے!کیا بات ہے کہ آج بڑے خوش نظر آرہے ہو؟انہوں نے فرمایا،امی جان! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت بخشی کہ لاکھوں انسانوں نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا،ماں نے یہ سن کر فرمایا ،بیٹا! یہ تیرا کمال نہیں،یہ تو میرا کمال ہے۔کہنے لگے امی!آپ نے سچ فرمایا ،مگر اس کی کچھ تفصیل تو ارشاد فرمادیجئے۔ماں نے کہا بیٹا!جب تم چھوٹے تھے،میں نے تمہیں کبھی بھی بے وضو دودھ نہیں پلایا تھا،یہ اسکی برکت ہے کہ اللہ نے تمہارے ہاتھوں پر لاکھوں انسانوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دی۔اور بھی بہت سارے واقعات خواتین اسلام کے سلسلے میں پیش کی گئی ہیں۔
خواتین نے کبھی بیٹی تو کہیں بہن اور کبھی ماں کی شکل میں اسلام کو فروغ دیا ہے،کیونکہ انہوں نے اچھی تربیت،دینی علوم،اور پردے کو ترجیح دی۔آج جس طریقے سے اسلام کے خلاف خواتین کو اکسایا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔یورپ میں عورتوں کی آزادی کے لئے پہلا آئینی قدم 1882 میں اٹھایا گیا جب برطانوی حکومت نے فرمان جاری کر کے عورت کو اپنی کمائی ہوئی دولت پاس رکھنے کا حق دیا، جس کے بعد عورت نے کارخانوں کا رخ کیا، منافع کی اسی ترغیب نے عورت کو گھروں سے نکال کر بازاروں اور دکانوں کی کنیز بنا دیا، آج بھی مغرب میں ہر دو میں سے ایک عورت دفتر، کارخانے اور دکان میں کام کرتی ہیں، عورتوں کی صنعت زدگی کا لازمی نتیجہ خاندانی زندگی کا اختتام تھا، جس کے بعد گھر کی فضا بے کیف اور عورت بیکار ہوتی گئی۔اس طور طریقے کو بیسویں صدی میں مشرق کے اندر لایا گیا جس کی وجہ سے ہر جگہ فتنہ وفساد برپا ہے۔علامہ اقبال عورتوں کو فاطمۃ الزہرا کے کردار کو اپنانے اور ان کی تربیت کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں ۔آج کے زمانے کی عورتیں فاطمۃ الزہرہ جیسی مثالی ازواج مطہرات کی زندگی کو اپنانے کی بجائے بے شرمی ،بے پردگی اور مردوں کو بہلانے والی ناز وانداز اداؤں کو اپنا زیور سمجھتی ہے ۔اپنی بے غیرتی کو فیشن سمجھتی ہے اللہ تعالی نے توعورت کو معظم بنایا لیکن قدیم جاہلیت نے عورت کو جس پستی کے گھڑے میں پھینک دیا اور جدید جاہلیت نے اسے آزادی کا لالچ دے کر جس ذلت سے دو چار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایک طرف قدیم جاہلیت نے اسے زندگی کے حق سے محروم کیا تو جدید جاہلیت نے اسے زندگی کے ہر میدان میں دوش بدوش چلنے کی ترغیب دی اور اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر شمع محفل بنادیا ۔ جاہل انسانوں نےاسے لہولعب کاکھلونا بنا دیا اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب ومکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی اور عورت اپنی عزت ووقار کھو بیٹھی آزادی کے نام پر غلامی کا شکار ہوگئی۔ ۔ لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی ۔محسن انسانیت جناب رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا عورتوں کو ظلم ،بے حیائی ، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے ماں،بہن ، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سےان کےفرائض بتلائے اورانہیں شمع خانہ بنایا.عورتوں کے لئے حیا،پاکدامنی،غیرت مندی‌،حجاب ونقاب پوشی کو زیور بنایا۔
جب کبھی غیرت انساں کا سوال آتا ہے
بنت زہرا تیرے پردے کا خیال آتا ہے
(معہد الشیخ أبی الحسن علی الاسلامی مظفرپور بہار )

Related posts

ایم ای پی قومی کارگزار صدر فریدہ بیگم منتخب

www.samajnews.in

عامر سلیم خان!بے باک ودیانتدار صحافت کا پاسدار

www.samajnews.in

ہماچل پردیش میں انتخابی مہم ختم، ہفتہ کو ووٹنگ

www.samajnews.in