23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

مسلم پرسنل لاءبورڈ کے تنظیمی نظام سے وابستہ توقعات

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی بہت حد تک ایک ایسی متحدہ و متفقہ تنظیم ہے جس کوملکی پس منظر میں مسلمانوں کی نمائندہ اور ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے قیام کے اصل مقاصد میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ، اس کیلئے مناسب اور ضروری حکمت عملی تیار کرنا، مسلمانوں کے نجی معاملات کو شرعی احکام کے مطابق ڈھالنے کیلئے ماحول سازی، اس کے تعلق سے ہونے والی قانون سازی اور ملکی ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کراس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر کرنا، اس سلسلہ میں ذہن سازی کیلئے پروگرام بناکر ا س کی تنفیذ کی کوشش اور حتی الامکان سنجیدہ اقدامات کے ذریعہ اس میں ترمیم و اصلاح کی تگ و دو کرنا شامل ہے۔
لیکن ملک میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے حالات میں بورڈ نے بحالت مجبوری، وقتی ضرورتوں اور عوامی تقاضوں اور دباؤ کے مد نظر مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی پسماندگی، ان کے جان و مال اور دیگر حقوق کے تحفظ کی طرف بھی توجہ دی لہذا بابری مسجد، یکساں سول کوڈ، جبراً تبدیلی مذہب، سی اے اے، این آر سی، ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری ، مسلمانوں سے متعلق امور میں قانونی پیروی اور دیگر اہم ایشوز سے بورڈبے تعلق نہیں رہ سکا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا امتیاز ہے کہ اس میں ملکی سطح پر کسی بھی میدان میں سرگرم و نمایاں بیشتر شخصیات کی بھرپور نمائندگی ہے، لہذا اس میں بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں کے ممبران بحیثیت عہدیدار و ممبران یا مدعو خصوصی شریک رہتے ہیں اور عملاً اس کی کارکردگی میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح اس میں مسلم معاشرہ کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم شخصیات جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علماء و دانشوران، ماہرین قانون اور سیاست داں اور دیگر سماجی و معاشرتی میدانوں میں قابل ذکر افراد کو شامل کرنے کی ممکنہ طور پر کوشش کی جاتی ہے۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو تعلیمی، دعوتی و سماجی ہی نہیں بلکہ قانونی سیاسی غرض ہر میدان میں سرگرم اور فعال ملی افراد اس بورڈ کا حصہ ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور اگر کبھی سماج کے تمام طبقات، مسالک اور جماعتوں کو ساتھ لے کر متحدہ اور متفقہ طور پر پالیسی بنانے، اس کو نافذ کرنے یا اس سلسلہ میں ذہن سازی یا ماحول سازی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے زیادہ مؤثر افراد کسی بھی تنظیم ادارہ اور جماعت میں نہیں مل سکتے اوراس طرح اس بورڈ کے ذریعہ جو اجتماعی کام کیا جاسکتا ہے وہ اس وقت وطن عزیز میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جہاں تک بورڈ کے تنظیمی ڈھانچہ کا تعلق ہے تو اس میں صدرکو سب سے زیادہ اختیار اور اہمیت حاصل ہےاور یہ عہدہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی وفات سے اس وقت خالی ہےاور آئندہ 3 و 4 جون 2023 کو ان کی جگہ اندور کے اجلاس میں نئے صدر کے انتخاب کا امکان ہے۔ اسی طرح بورڈ میں مختلف مسلکوں اور جماعتوں کو بورڈ سے جوڑ کر اس کی متفقہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے مقصد سے کئی نائب صدور بھی ہوتے ہیں لیکن بظاہر نہ ان کے کچھ اختیار ات ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ذمہ داریاں اور نہ ہی بورڈ کی سطح پر کوئی سرگرم کردار۔ اسی وجہ سے صدر کی خالی ہونے والی سیٹ کے تعلق سے ان میں سے کسی نام پر بحیثیت نائب صدر غور کرنے کی امید نہیں کی جاتی، ہاں دوسرے عوامل و محرکات کی بنیاد پر اگر کسی نائب صدر کا انتخاب عمل میں آجائے تو یہ ممکن ہے ۔اور اس وقت تو دو نائب صدور کے عہدے بھی خالی ہیں جن کے لئے اندور کے اجلاس میں غور و خوض اور تعیین کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بورڈ میں دوسرا اہم عہدہ جنرل سکریٹری کا ہے جس پر عملی طور پر بورڈ کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام تیار کرنے اور اس کی منظوری کے بعد اس کی تنفیذ کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ،اس وقت یہ اہم ذمہ داری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جیسی مشہور علمی شخصیت کے پاس ہے جو بے شمار علمی کاموں اور مشغولیتوں کے ساتھ بہت سے دیگر اداروں کے بھی اصل ذمہ دار ہیں اور ان اداروں کا دائرہ کار بھی محدود و معمولی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ صرف ملکی سطح پر دوسری اتنی تنظیموں اور اداروں میں سرپرست اور د یگر عہدوں پر فائز ہیں جن کے نام شاید وہ خود بھی ایک نشست میں نہ بتا سکیں۔ اس پر مزید مختلف کتابوں پر مقدمہ لکھنا،ملک و بیرون ملک کسی بھی میدان میں کسی قدر بھی مشہور شخصیت کی وفات پر تعزیتی نوٹ، ملکی حالات میں تغیر پذیر صورت حال اور اہم ملکی و ملی واقعات پر پریس نوٹ بھیجنا اور ملکی و بین الاقوامی سیمنار و کانفرنسوں میں شرکت کے لئے بھی وقت نکالنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ خارج از امکان نہیں کہ ایام سفر ایام اقامت سے زیادہ ہوجاتے ہوں اور شریعت میں دی گئی رخصت کے مطابق قصر سے فائدہ اٹھاتے ہوں گے ۔ لیکن فکر مند ہوں گے کہ ملکی حالات اور بورڈ کے مسائل میں قصر کی گنجائش کیسے نکالیں؟
میں سمجھتا تھا کہ سکریٹری جنرل کی مدد اور الگ الگ امور کے تقسیم کار کے لئے ہی بورڈ میں کئی سکریٹری کے عہدہ ہیں لیکن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی جنرل سکریٹری کے عہدہ پر تقرری کے بعد اور گذشتہ دنوں وفات پانے والے مشہور ماہر قانون ظفریاب جیلانی مرحوم کی لمبی علالت کے دوران ان کی جگہ کسی اور کی مستقل یا عارضی تقرری نہ ہونے یاان کےذریعہ انجام پارہے امور کسی دوسرے کو تفویض نہ کرنے سے اگر کوئی فرق نہیں پڑتا تو آخر کئی سکریٹریوں کی تقرری اور انتخاب کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ کیا ان سکریٹریوں کو کچھ متعینہ کام دے کر جنرل سکریٹری کا بوجھ ہلکا نہیں کیا جاسکتا یا بعض اہم کمیٹیوں کےکنوینر حضرات کو ہی سکریٹری بنا کر اس عہدہ کی شان اور افادیت کو بڑھانا ممکن نہیں ؟
اسی طرح مجلس عاملہ، مجلس تأسیسی اور میقاتی ممبران کا انتخاب جو منتخب ممبران کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں اور جو ملک و بیرون ملک اس ممبر کے علمی و سماجی قد اور قدر دونوں میں اضافہ کا ذریعہ اور مزید احترام اور اعتماد کا سبب بنتا ہے اور جس کی وجہ سے لوگ اس کے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں اور کامیابی کی شکل میں اس عہدہ کو اپنے نام کے ساتھ لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے جس کے تئیں وہ اپنی کوئی جواب دہی محسوس کریں ؟ کیونکہ یہ عام طور پراپنے مسلک، جماعتوں،تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ مختلف میدانوں میں سر گرم اورعوام میں مقبول ہوتے ہیں اور ان کے سرگرم اور فعال کردار سے بورڈ کے مقاصد کے حصول میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
اب جبکہ اندور میں بورڈ کے تقریبا تمام ممبران، اہم ملی، سماجی، سیاسی ، تعلیمی و قانونی ماہرین و رہنما ملکی صورت حال، یہاں کے ملی مسائل ، اس کے حل اور اس کے لئے ذمہ داریاں اور ذمہ داروں کے تعین و تعیین کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے یہ اجلاس ہر طرح سے خیر وبرکت کاسبب اور ان کی دینی ، تعلیمی اور سماجی فلاح و بہبود کا اس نئے دور میں نقطہ اولیں ثابت ہوگا ۔

ذکی نور عظیم ندوی (لکھنؤ)

Related posts

تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی طاقت ہونا چاہئے:نجیب جنگ

www.samajnews.in

خود کو زندہ ثابت کرنے سے پہلے عدالت کی چوکھٹ پر توڑا دم

www.samajnews.in

مدرسہ عبد اللہ بن عباسؓ کا جلسہ تکمیل حفظ قرآن و تقسیم اسناد کا انعقاد

www.samajnews.in