نئی دہلی، سماج نیوز: کرناٹک انتخابی نتائج نے یہ واضح کردیا ہے کہ جنوب میں نفرت کا قلعہ منہدم ہوگیا اور محبت کی جیت ہوگئی ہے۔ جس مقصد کیلئے راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کی تھی اس کی پہلی کڑی کرناٹک میں دیکھنے کو ملی۔ 224 نشستوں والی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو سرکار بنانے کے لئے اکثریت کے 113 سیٹوں کی ضرورت ہے اور کانگریس نے اس سلسلے میں بازی مار لی ہے۔کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے پارٹی کی شاندار جیت کو غریب عوام کی جیت اور سرمایہ دار طاقتوں کی کراری شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں نفرت کی دکانیں بند ہو گئیں اور محبت کی دکانیں دکانیں کھل گئیں۔ کانگریس 136سیٹوں پر پرچم لہرایا ہے، جبکہ حکمراں جماعت بی جے پی محض 65سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوپائی ہے۔ جے ڈی ایس سمیت دیگر جماعتوں کو 19 سیٹوں پر سمٹ گئی ہے، جبہ دیگر کے قبضے میں 4سیٹیں آئی ہیں۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے کانگریس کی جیت کے پیش نظر کہا ہے کہ یہ مینڈیٹ نریندر مودی، امت شاہ اور جے پی نڈا کے خلاف ہے۔ 10 مئی کو جب کرناٹک کی 224 اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی، تو اس کے بعد مختلف ٹی وی چینلز اور اداروں کے ذریعہ ایگزٹ پول جاری کیے گئے۔ بیشتر ایگزٹ پول میں کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی دکھایا گیا تھا، لیکن آج جب انتخابی نتائج برآمد ہوئے تو کانگریس نے نہ صرف بی جے پی کو شکست فاش دے دی، بلکہ بیشتر ایگزٹ پول کو بھی شکست دے دی۔ یعنی ایگزٹ پول کے اندازے کو غلط ثابت کرتے ہوئے امید سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کانگریس نے کیا۔کرناٹک اسمبلی انتخاب کے نتائج برآمد ہونے کے بعد کئی غیر کانگریسی لیڈران نے کانگریس کی اعلیٰ قیادت کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ریاست میں بے مثال کامیابی کے لیے کانگریس کو مبارکباد دی۔ انھوں نے اس تعلق سے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’کرناٹک اسمبلی انتخاب میں جیت کے لیے کانگریس پارٹی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ لوگوں کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے میری نیک خواہشات۔‘‘کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں جیت کیلئے ریاست کے عوام کو مبارکباد دی اور انتخابی نتائج کو عوام کی جیت اور کانگریس لیڈروں اور کارکنوں کی اجتماعی کوششوں سے تعبیر کیا۔مسٹر کھڑگے نے کہا کہ کرناٹک کے عوام نے کانگریس پر جو اعتماد کیا ہے ، پارٹی اس پر پورا اترے گی اور ریاست کی ترقی کیلئے جو ترجیحات طے کی گئی ہیں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو سب سے پہلے شروع کیا جائے گا۔جب کانگریس صدر سے پوچھا گیا کہ کس پارٹی کے لیڈر کرناٹک کی جیت کو وزیر اعظم نریندر مودی کی شکست بتا رہے ہیں، تو انہوں نے کہا’’سچ یہ ہے کہ یہ انتخابی نتیجہ کرناٹک کے لوگوں کی جیت ہے ، یہ جیت ان کی محنت ہے ۔ کانگریس قائدین اور کارکنان کے سخت محنت کا نتیجہ ہے‘‘۔کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے پارٹی کی شاندار جیت کو غریب عوام کی جیت اور سرمایہ دار طاقتوں کی کراری شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں نفرت کی دکانیں بند ہو گئیں اور محبت کی دکانیں دکانیں کھل گئیں۔مسٹر گاندھی نے کرناٹک کی جیت کے جشن کے درمیان کانگریس ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ کانگریس غریبوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے مقصد کے لیے لڑی ہے ، جس میں سرمایہ داری کو شکست ہوئی ہے ۔ ایسے ہی نتائج آئندہ اسمبلی انتخابات میں بھی آنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے کرناٹک کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا کام ریاست میں حکومت کی تشکیل کے بعد کابینہ کی پہلی میٹنگ میں شروع کیا جائے گا۔مسٹر گاندھی نے کہا ’’ہم نے یہ جنگ پیار اور محبت سے لڑی اور کرناٹک کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ملک محبت سے پیار کرتا ہے ۔ کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوگیا اور محبت کی دکان کھل گئی۔ یہ کرناٹک کی جیت ہے ۔ ہمارے پانچ وعدے ہیں، پہلی کابینہ میں پورے کریں گے‘‘۔ کرناٹک میں کانگریس کی جیت پر پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے اور عوام کو مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’کانگریس پارٹی کو تاریخی مینڈیٹ دینے کے لیے کرناٹک کی عوام کا تہہ دل سے شکریہ۔ یہ آپ کے ایشوز کی جیت ہے۔ یہ کرناٹک کی ترقی کے نظریات کو ترجیح دینے والی جیت ہے۔ یہ ملک کو جوڑنے والی سیاست کی جیت ہے۔‘‘ اس ٹوئٹ میں وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’کرناٹک کانگریس کے تمام محنتی کارکنان و لیڈران کو میری نیک خواہشات۔ آپ سب کی محنت رنگ لائی۔ کانگریس پارٹی پوری لگن کے ساتھ کرناٹک کی عوام کو دی گئی گارنٹیوں کو نافذ کرنے کا کام کرے گی۔‘‘
کانگریس کے کرناٹک ریاستی صدر ڈی کے شیوکمار نے رام نگر ضلع کے کنک پورہ انتخابی حلقہ سے 57 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کی ہے۔ شیوکمار ووٹ شماری میں شروع سے ہی سبقت بنائے ہوئے تھے۔ بی جے پی کے آر اشوک بڑے فرق سے ہار گئے اور جنتا دل ایس کے بی ناگراجو دوسرے مقام پر رہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق شیوکمار کو 63475 ووٹ، ناگراجو کو 11306 ووٹ اور اشوک کو 10086 ووٹ ملے۔جیت کے بعد ڈی کے شیوکمار بہت جذباتی نظر آئے۔ شیوکمار نے کرناٹک میں کانگریس کو ملی جیت کو بدعنوانی کے خلاف جنگ میں جیت قرار دیا ہے اور اس دن کو یاد کیا جب سونیا گاندھی ان سے جیل میں ملاقات کے لیے گئی تھیں۔ ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ’’میں اپنے کارکنان اور اپنی پارٹی کے لیڈران کو اس جیت کا سہرا دیتا ہوں جنھوں نے اتنی محنت کی ہے۔ لوگوں نے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے… میں نے راہل گاندھی، سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کو جیت کی یقین دہانی کرائی تھی۔‘‘ڈی کے شیوکمار نے اس دوران وہ لمحہ بھی یاد کیا جب انھیں جیل میں بھیجا گیا تھا۔ ان کی آنکھوں میں اس لمحہ کو یاد کرتے ہوئے آنسو آ گئے اور گلا رُندھ گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں بھول نہیں سکتا جب سونیا گاندھی مجھ سے جیل میں ملنے آئی تھیں۔ تب میں نے عہدہ پر رہنے کی جگہ جیل میں رہنا منتخب کیا۔ پارٹی کو مجھ پر اتنا بھروسہ تھا۔‘‘
وہیں کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج آج جاری کیے جا رہے ہیں۔ رجحانات میں بی جے پی کے پیچھے رہ جانے اور حتمی نتائج کا اعلان کیے جانے سے پہلے ہی ریاست کے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے ہار قبول کر لی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ آگے کے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں گے اور نتائج کو لے کر پیش قدمی کریں گے۔ بسوراج بومئی نے کہا کہ بی جے پی نتائج کا جائزہ لے گی اور لوک سبھا انتخابات میں واپسی کرے گی۔ پارٹی کو منظم کریں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فی الحال حتمی نتائج کا انتظار کریں گے۔
کرناٹک اسمبلی انتخاب کے نتائج برآمد ہو چکے ہیں اور کانگریس نے نمایاں کارکردگی انجام دیتے ہوئے 224 میں سے 136 اسمبلی سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ کرناٹک کے موجودہ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر بسوراج بومئی نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی اس بارے میں تفصیلی تجزیہ کرے گی۔ اس الیکشن میں اگرچہ بومئی نے اپنے حلقہ انتخاب شیگاؤں سے 54.95 فیصد ووٹ حاصل کر بہ آسانی جیت حاصل کر لی، لیکن بی جے پی کے کئی سرکردہ لیڈران بشمول کئی وزراء، اپنی سیٹیں ہار گئے ہیں۔ آئیے ڈالتے ہیں بی جے پی کے کچھ ایسے ہی شکست خوردہ لیڈروں پر سرسری نظر۔
بی جے پی کے سرکردہ شخصیات جنہیںشکست کا سامنا کرنا پڑا
1- سی ٹی روی، چکمگلور:تمل ناڈو کے انچارج اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی کو چکمگلورو اسمبلی حلقہ میں اپنے پرانے ساتھی ایچ ڈی تھمیا کے ہاتھوں حیرت انگیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔2- وی سومنّا، ورونا:ہاؤسنگ منسٹر وی سومنّا نے کانگریس کے سرکردہ لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا کے خلاف مقابلہ کا ارادہ کیا جو ان کے لیے نقصاندہ ثابت ہوا۔ لنگایت لیڈر سومنّا صرف 73653 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ سدارامیا نے 119816 ووٹ حاصل کیے۔ 3- بی سریرامولو، بلاری دیہی:ریاستی وزیر بی سریرامولو کو کانگریس رکن اسمبلی بی ناگیندر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی ناگیندر نے 103836 ووٹ اور سریرامولو نے 74536 ووٹ حاصل کیے۔ یعنی ناگیندر نے 29300 ووٹوں سے جیت حاصل کی۔ 4- بی سی ناگیش، ٹیپٹور:بومئی کی کابینہ میں اسکولی تعلیم اور خواندگی کے وزیر بی سی ناگیش کانگریس امیدوار کے شداکشری سے 17652 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے ہیں۔ ناگیش نے 2008 اور 2018 میں ٹیپٹور حلقہ سے ریاستی اسمبلی کے انتخابات جیتے تھے۔5- ڈاکٹر کے سدھاکر، چکّبلاپور:کرناٹک اسمبلی انتخاب کے سب سے بڑے اَپ سیٹ میں سے ایک ریاستی وزیر صحت کے. سدھاکر کی شکست رہی۔ وہ چکّبلاپور میں کانگریس امیدوار پردیپ ایشور سے تقریباً 10000 ووٹوں سے ہار گئے۔ وہ ان باغیوں میں شامل تھے جنہوں نے پچھلے سال کانگریس چھوڑ دی اور پھر ایچ ڈی کماراسوامی کی قیادت والی حکومت کو اقلیت میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد بی جے پی نے انھیں اپنے پاس کھینچ لیا تھا۔6- آر اشوکا، کنکا پورہ:وزیر برائے ریونیو آر اشوکا کو کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ڈی کے شیوکمار کے خلاف میدان میں اتارا گیا تھا۔ یہاں شیوکمار کے ہاتھوں انھیں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شیوکمار کو جہاں 143023 ووٹ حاصل ہوئے، وہیں اشوکا کو محض 19753 ووٹ ملے۔7- وشویشور ہیگڑے کاگیری، سرسی:اسپیکر وشویشور ہیگڑے کاگیری کانگریس کے بھیمنا نائک سے 8712 ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ سرسی اسمبلی حلقہ شمالی اُتر کنڑ ضلع کے تحت آتا ہے اور 2018 میں یہ سیٹ بی جے پی نے جیتی تھی۔8- جے سی مدھوسوامی، چکنایاکناہلی:قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر جے سی مدھوسوامی کو جے ڈی (ایس) امیدوار سی بی سریش بابو نے 10025 ووٹوں سے شکست دی۔ چکنایاکناہلی اسمبلی حلقہ تماکورو ضلع کا ایک حصہ ہے اور یہاں 1997 کے ضمنی انتخابات سمیت گزشتہ 16 اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے چھ بار، جے ڈی (ایس) نے تین بار، بی جے پی نے دو بار، اور جنتا دل (متحدہ) و پرجا سوشلسٹ پارٹی نے ایک ایک بار جیت حاصل کی۔