سیاست اور کاروباری دوستی میں میڈل کے مستحق ہیں مودی: راہل گاندھی
نئی دہلی،سماج نیوز:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کو وزیر اعظم نریندر مودی پر سیدھا حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مودی حکومت کی ملکی، خارجہ اور اسٹراٹیجک پالیسیاں اور ترقیاتی پروگرام صنعت کار گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنائے جارہے ہیں جس کی عالمی سطح پر تحقیق کی جانی چاہیے اور مسٹر مودی کو سیاست اور کاروبار کے درمیان اس انوکھے رشتے کیلئے ’گولڈ میڈل‘ دیا جانا چاہیے۔اڈانی معاملے پر بولتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ پی ایم کا اڈانی سے کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت سے اصول بدلے ہیں۔راہل گاندھی نے کہا ’’آپ نے کہا کہ اگنی ویر سے ملک کو فائدہ ہوگا لیکن ملک کے نوجوان جو صبح 4 بجے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے بھاگتے ہیں، وہ آپ سے متفق نہیں ہیں۔ نوجوانوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں پہلے 15 سال کی سروس مل جاتی۔ ہمیں پنشن ملتی تھی اب چار سال بعد نوکری سے نکال دیا جائے گا، ہمیں کچھ نہیں ملے گا، پنشن بھی نہیں ملے گی۔انہوں نے کہا’فوج سے ریٹائرڈ سینئر افسران نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ اگنی ویر اسکیم فوج کے اندر سے نہیں آئی ہے، یہ کہیں اور سے آئی ہے، فوج کے ریٹائرڈ سینئر لوگوں کے مطابق یہ آر ایس ایس کی طرف سے آئی ہے، یہ وزارت داخلہ سے آئی ہے‘۔31جنوری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر دروپدی مرمو کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر لوک سبھا میں بولتے ہوئے مسٹر راہل نے مسٹر مودی پر سیدھا طنز کیا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ جادو کیسے ہوا کہ 2014میں امیر ترین لوگوں کی فہرست میں 609ویں نمبر پر رہنے والے مسٹر اڈانی 2022میں دوسرے نمبر پر پہنچ گئے ۔ کس طرح ان کی مجموعی مالیت 2014میں 8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022میں 140ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ پچھلے چار مہینوں میں انہوں نے کنیا کماری سے کشمیر تک تقریباً 3600کلومیٹر پیدل یاترا کی۔ اس یاترا میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ عوام کی آواز کو بہت گہرائی سے سننے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ آج کل سیاست میں پیدل چلنے کا رجحان کم ہو گیا ہے ۔ سیاست دانوں نے گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں میں چلنا شروع کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شروع میں یاترا کے دوران لوگ آتے تھے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے ۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی بات کرتے تھے۔ تقریباً500-600 کلو میٹر کے بعد عوام کی آواز گہرائی سے سنائی دینے لگی اور یاترا خود ہی بات کرنے لگی۔ اتنے لوگوں سے بات کرتے ہوئے میری (مسٹر گاندھی کی) آواز بند ہو گئی۔ کسان، نوجوان، طالب علم، قبائلی وغیرہ آئے ۔ بے روزگاری کی بات کی تو پردھان منتری انشورنس اسکیم کی قسطیں ادا کرتے ہیں لیکن کلیم نہیں ملتا۔ قبائلیوں کی زمینیں چھین لی جاتی ہیں۔ پہلے جو ملتا تھا اب نہیں مل رہا۔ کسانوں نے کم از کم امدادی قیمت، کسان بل کا مسئلہ اٹھایا۔ اگنی ویر کی کہانی منظر عام پر آگئی۔کانگریس کے لیڈر نے کہا کہ یاترا کے دوران نوجوانوں اور سابق فوجی افسران نے اگنی ویر کے بارے میں بتایا کہ یہ اسکیم فوج کی طرف سے نہیں آئی ہے ۔ یہ وزارت داخلہ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طرف سے آئی ہے ۔ یہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے فوج پر تھوپی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سابق فوجی افسران کہتے ہیں کہ اس سے ملک کمزور ہو جائے گا۔ ہم ہزاروں لوگوں کو ہتھیاروں کی تربیت دے رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ سوسائٹی میں واپس آجائیں گے ۔ معاشرے میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے ۔ اس سے معاشرے میں تشدد کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ صدر کے خطاب میں اگنی ویر اسکیم کے بارے میں صرف ایک جملہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بے روزگاری کا ایک لفظ تک نہیں ہے ۔ مہنگائی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔ یاترا کے دوران انہیں ہم وطنوں کی تکالیف کے بارے میں جو کچھ بھی سننے کو ملا، صدر کے خطاب میں ایک بات بھی نہیں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یاترا کے دوران انہوں نے کیرالہ، تمل ناڈو، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب، جموں و کشمیر میں ایک نام یکساں سنا، وہ نام اڈانی تھا۔ انہوں نے کہا، لوگوں نے پوچھا کہ یہ اڈانی کسی بھی کاروبار میں آتا ہے اور کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے ۔ یہ کیسے ہو رہا ہے ، ہم بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔”لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہا کہ گوتم اڈانی 2014 سے پہلے تین سے چار شعبوں میں کام کرتے تھے ۔ اب وہ آٹھ سے دس شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، قابل تجدید توانائی، اسٹوریج وغیرہ کے شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ اڈانی ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں سیب کا کاروبار کریں گے ۔ ہوائی اڈے ، بندرگاہیں اڈانی چلائیں گی۔ آخر اڈانی جی کو یہ کامیابی کیسے ملی؟ ان کا ہندوستان کے وزیر اعظم سے کیسا رشتہ ہے ؟مسٹر گاندھی نے ایوان میں مسٹر اڈانی کے ساتھ پرائیویٹ طیارے میں وزیر اعظم مودی کی تصویر دکھائی، جس پر حکمراں پارٹی کے اعتراض کے بعد لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے مسٹر گاندھی سے پوسٹر یا تصویر نہ دکھانے کی درخواست کی۔
مسٹر گاندھی نے کہا کہ مسٹر اڈانی کے مسٹر مودی کے ساتھ تعلقات برسوں پہلے اس وقت شروع ہوئے جب مسٹر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ مسٹر اڈانی نے مسٹر مودی کو ریزرجنٹ گجرات کا تصور دیا اور بتایا کہ کس طرح تاجروں کو شامل کرکے ترقی کی کہانی لکھی جا سکتی ہے ۔ اس سے مسٹر اڈانی کیلئے زبردست ترقی ہوئی، لیکن اصل جادو 2014 میں شروع ہوا جب مسٹر مودی دہلی آ گئے ۔ اس کے بعد سال 2014 میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر رہنے والے مسٹر اڈانی چند برسوں میں دوسرے نمبر پر آگئے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے ایک اصول تھا کہ جو لوگ ہوائی اڈے کے کاروبار میں نہیں ہیں انہیں ہوائی اڈے کے کاروبار میں آنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اس اصول کو تبدیل کر کے چھ ہوائی اڈے اڈانی کو دے دیے گئے ہیں۔ ہندستان نے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ہوائی اڈے کھو دیے ۔ ممبئی ایئرپورٹ جی وی کے کے نزدیک تھا۔ ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے جی وی کے سے ہوائی اڈہ چھین کر اڈانی کو دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کا 24 فیصد ہوائی ٹریفک اور 31 فیصد ہوائی کارگو اڈانی کے تحت چل رہا ہے ۔مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا کہ مسٹر گاندھی بہت سنگین الزامات لگا رہے ہیں، انہیں الزامات کو ثابت کرنے کیلئے دستاویزات فراہم کرنے ہوں گے ۔ اس پر مسٹر گاندھی نے کہا کہ وہ دستاویزات دینے کو تیار ہیں۔ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت ارجن رام میگھوال، سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد، بی جے پی کے نشی کانت دوبے نے بھی اعتراض درج کرایا۔حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں مسٹر گاندھی نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی اور دفاعی پیداوار میں بھی مسٹر اڈانی کو فائدہ پہنچانے کا کام کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر اڈانی کو دفاعی صنعتوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کے حوالے سے غلط الزامات لگائے ۔ 126 طیاروں کا ٹھیکہ انیل امبانی کو دیا گیا تھا لیکن انیل امبانی نے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا۔ مسٹر اڈانی نے ایلبائٹ کمپنی کے ساتھ مل کر ڈرون تیار کرنا شروع کیا ہے اور یہ ڈرون فوج کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم اسرائیل کے دورے پر جاتے ہیں اور اس کے فوراً بعد مسٹر اڈانی کو یہ ٹھیکہ مل جاتا ہے ، آج مسٹر اڈانی سنائپر رائفلیں، ڈرون اور بہت سے اہم دفاعی ساز و سامان بناتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کا پہلا ایم آر او قائم کرنے کا کام بھی ملا ہے ۔ اگر آپ آسٹریلیا جائیں تو وہاں کے بینکوں سے آپ کو ایک ارب ڈالر کا خطیر قرض فوراً مل جاتا ہے ۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ بنگلہ دیش کے اپنے پہلے دورے پر مسٹر اڈانی کو 1500 میگاواٹ پاور پلانٹ لگانے کا 25 سال کا طویل مدتی ٹھیکہ مل جاتا ہے ۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں سرکاری پاور کمپنی کے سربراہ نے صدر راجا پکشے کے حوالے سے کہا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم مسٹر مودی ہوا سے چلنے والے پاور پلانٹ کا ٹھیکہ اڈانی گروپ کو دینے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔کانگریس کے لیڈر نے راہل گاندھی نے کہا کہ درحقیقت ہندوستان کی خارجہ پالیسی اڈانی کے کاروبار کو بڑھانے کی پالیسی بن کر رہ گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا کہ لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کا پیسہ اڈانی کو کیوں دیا جا رہا ہے جب اسٹاک مارکیٹ میں ان کے حصص اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ وہ پبلک سیکٹر کے بینکوں سے ہزاروں کروڑ روپے کیسے حاصل کر رہے ہیں؟ اگر کوئی اور کمپنی اڈانی کے راستے میں آتی ہے تو اسے سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہنڈنبرگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اڈانی کی شیل کمپنیاں ہیں یعنی بیرون ملک جعلی کمپنیاں ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ان شیل کمپنیوں کو بھیجی گئی رقم کس کی ہے ؟انہوں کہا کہ نے کہا کہ اڈانی گروپ کا اسٹریٹجک علاقوں جیسے بندرگاہ، ہوائی اڈے وغیرہ میں اہم کردار ہے تو حکومت ان کی شیل کمپنیوں سے کیوں واقف نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا بجٹ کس کیلئے تیار کیا جا رہا ہے ۔ کس کو 50ایئرپورٹ دیئے جانے ہیں۔ گرین ہائیڈروجن کیلئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ اڈانی کہ ملنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے کچھ سوالات ہیں کہ پہلے مسٹر مودی مسٹر اڈانی کے جہاز میں سفر کرتے تھے اور اب مسٹر اڈانی وزیر اعظم کے جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ یہ پہلے گجرات کا معاملہ تھا، پھر یہ ملک کا معاملہ بن گیا اور اب یہ بین الاقوامی معاملہ بن گیا ہے ۔ وہ وزیر اعظم سے براہ راست پوچھنا چاہتے ہیں کہ مسٹر اڈانی اپنے غیر ملکی دوروں پر کتنی بار ان کے ساتھ گئے ۔ بعد میں مسٹر اڈانی کتنی بار غیر ملکی سفر میں شامل ہوئے ۔ وزیر اعظم کے دورے کے فوراً بعد وہ کتنی بار اس ملک کے دورہ پر گئے اور کتنی بار اڈانی نے دورے کے فوراً بعد بیرون ملک ٹھیکے ملے ۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اڈانی نے پچھلے 20 برسوں میں بی جے پی کو کتنی رقم دی ہے اور کتنے انتخابی بانڈ لئے ہیں۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ پوری دنیا، خاص طور پر امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کو اس بات پر تحقیق کرنی چاہئے کہ سیاست اور کاروبار کے درمیان کس قسم کا رشتہ ہے ۔ وزیراعظم کو ایسے باہمی فائدہ مند تعلقات کیلئے گولڈ میڈل دیا جانا چاہیے ۔