ترکی اور شام میں 5 زلزلوں کے بعد ’آفٹر شاکس‘ کا سلسلہ جاری، 36 گھنٹے میں 109 بار کانپی زمین، عوام دہشت زدہ، 15000 زخمی، 5.5 ہزار سے زیادہ عمارتیں زمیندوز، عمارتیں ملبے میں تبدیل، چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں
نئی دہلی، سماج نیوز:صدی کے سب سے طاقتور زلزلے نے ترکی اور شام میں شدید تباہی مچانے کے بعد کم وبیش 109مرتبہ پھر زمین کانپ اٹھی اور لوگوں میں دہشت وخوف کا ماحول بنا ہوا ہے۔ اس وقت قیامت صغریٰ کا جیسا منظر دیکھنے کو مل رہاہے۔ ہر طرف لاشوں کے انبار کے ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی کے منظر ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ زمین کے اندر سے لوگوں کی پکاریں مل رہی ہیں اور بچاؤ وراحت کا کام بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ شدید ٹھنڈ اور برف باری ہونے کی وجہ سے راحت وبچاؤ میں دقت پیش آرہی ہے۔ جس شدت سے ترکی کے جنوبی علاقے اور شام کے مشرقی علاقے میں زلزلے آئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کئی ہزار ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7.8ریکارڈ کی گئی۔ جس وقت زلزلہ آیا اس وقت صبح کے 4.17منٹ ہورہے تھے اور لوگ لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ ترکی اور شام میں گزشتہ روز آنے والے تباہ کن سلسلہ وار زلزلوں سے زمین بوس ہوجانے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل شدید سرد موسم کے باوجود جاری ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 5ہزار سے زائد ہوچکی ہے ۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (اے ایف اے ڈی) کا کہنا ہے کہ اموات کی تعداد 3ہزار 419ہوگئی ہے ۔اتھارٹی کا کہنا تھا کہ زلزلے کے بعد ابتک 285آفٹر شاکس آچکے ہیں، جس کے نتیجے میں 5ہزار 775عمارتیں تباہ ہوئی جبکہ زخمیوں کی تعداد 285ہے ۔ترکی کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے کہا کہ 13ہزار سرچ اینڈ ریسکیو اہکار تعینات کیے گئے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں 41ہزار خیمے ، ایک ہزار بستر اور 3لاکھ کمبل روانہ کیے جاچکے ہیں۔اس سے قبل ترکیہ میں سال1999میں مہلک ترین زلزلہ آیا تھا جس میں 17ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔شام کی حکومت اور ریسکیو سروس کے مطاق گیارہ سال سے جاری جنگ سے متاثرہ ملک میں ابتک 1500ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔جنوب مشرقی ترکیہ میں قہر مان مرعش کے شہر میں عینی شاہد زلزلے سے ہونے والی تباہی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔23سالہ صحافی میلیسا سلمان نے کہا کہ ‘ہمیں لگا قیامت آگئی، ایسی صورتحال ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ہے ۔پیر کے روز آنے والے زلزلے سے صرف ترکی میں اب تک 16ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے اور عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق اس بدترین تباہی کے نتیجے میں اموات کی تعداد 20ہزار ہوسکتی ہے ۔غازی انتیپ، جہاں شام میں ایک دہائی طویل جنگ سے پناہ کے لیے ترکیہ آنے والے ہزاروں افراد قیام پذیر تھے ، وہاں ریسکیو ورکرز چیختے اور روتے ہوئے ملبے کو ہٹانے میں مصروف تھے کہ یکایک ایک اور عمارت منہدم ہوگئی۔ابتدائی زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اسے گرین لینڈ جتنا دور محسوس کیا گیا اور اس کے اثر نے عالمی ردعمل کو جنم دیا ہے ۔یوکرین سے لے کر نیوزی لینڈ تک درجنوں ممالک نے امداد بھیجنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم شدید سرد موسم اور نقطہ انجماد نے کارروائیوں کو سست کردیا ہے ۔صرف ترکیہ میں زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 2ہزار 921تک پہنچ چکی ہے انتہائی سرد موسم کے باوجود خوف میں جکڑے رہائشیوں نے رات سڑک پر گزاری اور گرمی کے لیے آگ کے الاؤ روشن کیے ۔ایک رہائشی نے بتایا کہ میرا جاننے والا ایک خاندان ملبے تلے دبا ہوا ہے ، صبح 11 بجے تک میری دوست فون کا جواب دے رہی تھی لیکن اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہ بھی ملبے کے نیچے ہے ۔ایک 55سالہ رہائشی نے ‘اے ایف پی’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم گھر نہیں جاسکتے ، ہر کوئی خوفزدہ ہے ’۔سب سے زیادہ تباہی غازی انتیپ اور قہر مابین کے درمیان زلزلے کے مرکز پر ہوئیں جہاں پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پیر کو پہلا زلزلہ 20 لاکھ آبادی پر مشتمل قہر مان اور غازی انتیپ شہر کے درمیان مقامی وقت کے مطابق صبح 4بجکر 17منٹ پر آیا جس کی گہرائی 18کلومیٹر تھی۔حکام نے بتایا کہ 3بڑے ایئرپورٹس بھی زلزلے کے باعث غیر فعال ہوچکے ہیں جس سے انتہائی اہم امداد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔شمالی شام کا زیادہ تر زلزلہ زدہ علاقہ پہلے ہی برسوں کی جنگ اور شامی اور روس کی افواج کی فضائی بمباری سے تباہ ہو چکا تھا جس میں گھر، ہسپتال اور کلینکس شامل ہیں۔تاہم اقوام متحدہ میں شام کے ایلچی بسام صباغ نے بظاہر سرحدی گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنے سے انکار کردیا ہے جس سے باغی گروپوں کے زیر کنٹرول علاقوں تک امداد پہنچ سکے گی۔شام کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ قدرتی آفت کے باعث حلب، لطاکیہ، حما اور طرطوس کے صوبوں میں نقصان ہوا ہے ۔اس سانحے سے پہلے ہی شام کے جنگ سے پہلے کے تجارتی مرکز حلب میں عمارتیں اکثر خستہ حال انفرااسٹرکچر کی وجہ سے منہدم ہوجاتی ہیں جن کی جنگ کی وجہ سے دیکھ بھال اور مرمت نہیں ہوسکی تھی۔حکام نے احتیاطی طور پر پورے خطے میں قدرتی گیس اور بجلی کی سپلائی منقطع کر دی ہے اور اسکولوں کو بھی دو ہفتوں کے لیے بند کردیا۔شمال مغربی شام میں قائم جیل جہاں زیادہ تر داعش کے ارکان قید ہیں، قیدیوں نے زلزلے کے بعد بغاوت کی اور کم از کم 20 فرار ہوگئے ۔امریکہ، یورپی یونین اور روس سب نے فوری طور پر تعزیت اور مدد کی پیشکش بھیجی۔