سہارنپور، سماج نیوز: (احمد رضا)ضلع چمولی کے 8 ویں صدی پرانے تاریخی مذہبی علاقہ جوشی مٹھ میں زمین دھنسنے کے واقعات کو دیکھ کر ہر کوئی خوف زدہ ہے۔زمین روز بروز نیچے کو دھنس تی ہی جارہی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے گزشتہ 14 دن میں زمین 6 سے 7 سینٹی میٹر نیچے کی جانب دھنس چکی ہے، مگر سرکار کے پاس مکانات،ہوٹل اور عمارتیں منہدم کرانے کے سوائےعوام کی جانیں اور مال بچانے کیلئے کوئی دیگر راستہ ہی نہیں بچا ہے سرکار کچھ بھی کھے مگر یہ حالت سرکار کی لاپرواہی، من مانی اور زد کے باعث تباہی کی شکل میں سبھی کے سامنے ہے پہلے سے جوشی مٹھ کی زمین میں ہورہے خطرناک بدلاؤ پر اتراکھنڈ سرکار سکون سے بیٹھی ہوئی تھی جب جوشی مٹھ دھنس نے لگا تب مرکز سے لیکر ریاستی سرکار نے معاوضہ کے ساتھ ساتھ جلد بازی میں علاقہ خالی کرانے اور عمارتیں منہدم کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے اگر سرکار اپنی ذمہ داری نبھاتی تو 8ویں صدی کے اس مذہبی شہر کو بہ آسانی محفوز رکھا جا سکتا تھا مگر اب کافی دیر ہو چکی ہے کانگریس کے سینئر قائد سابق وزیر اعلیٰ ہریش را وت کا صاف کہنا ہے کہ اس شہر کو اب بچا پانا مشکل سا معلوم پڑ رہا ہےحالانکہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں مگر دھیرے دھیرے آدی گرو شنکراچاریہ مٹھ کی جگہ بھی زمین دھنسنے کے واقعہ کا شکار ہونے لگی ہے مٹھ کی جگہ میں موجود شیو مندر تقریباً 4 تک انچ دھنس گیا ہے اور یہاں رکھے شیولنگ میں شگاف پڑ گیا ہےمندر کے جیوترمٹھ کا مادھو آشرم وغیرہ شنکراچاریہ نے بسایا تھا یہاں ملک بھر سے طلبا ویدک تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اس وقت بھی 60 طلبا یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں دراصل آدی گرو شنکراچاریہ مٹھ کی جگہ کے اندر ہی شیو مندر ہے۔ اس مندر میں کئی لوگوں کی عقیدت ہے 2000 میں شیولنگ جئے پور سے لا کر قائم کیا گیا تھا۔اتنا ہی نہیں، عقیدے کے مطابق شنکراچاریہ نے آج سے 2500 سال قبل جس کلپ درخت کے نیچے گپھا کے اندر بیٹھ کرگیان حاصل کی تھا، آج اس کلپ درخت کا وجود مٹنے کے دہانے پر ہےاس کے علاوہ احاطہ کی عمارتوں، لکشمی نارائن مندر کے آس پاس بڑی بڑی دراڑیں پڑ گئی ہیں جیوترمٹھ کے انچارج برہمچاری مکند آنند نے بتایا کہ مٹھ کے داخلی دروازے، لکشمی نارائن مندر اور جلسہ گاہ میں شگاف پڑ گئے ہیں اسی احاطے میں ٹوٹکاچاریہ گپھا، تریپور سندری راج راجیشوری مندر اور جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ کی گدی والی جگہ ہےمندر کے پجاری وشسٹھ برہمچاری نے جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ تقریباً 13-12 ماہ سے یہاں دھیرے دھیرے دراڑیں آرہی تھیں لیکن کسی کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ حالات یہاں تک پہنچ جائیں گےپہلے دراڑوں کو سیمنٹ لگا کر روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن گزشتہ تیرہ چودہ دن میں حالات مزید بگڑنے لگے ہیں۔