عیسائیوں اور مسلمانوں پر آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا شدید حملہ، ہندو مذہب کو بتایا سب سے بہترمذہب
نئی دہلی: آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے ’پانچ جنیہ‘ اور ’آرگنائزر‘ کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے جو سرخیوں میں ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے آر ایس ایس، ہندوتوا اور اسلام و عیسائی مذاہب کو لے کر اپنے نظریات کھل کر رکھے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسے ’ہم افضل ہیں‘ کا احساس چھوڑنا ہوگا۔ بھاگوت نے مزید کہا کہ یہاں مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھاگوت نے یہ باتیں آر ایس یس کے ترجمان پنچجنیہ اور آرگنائزر کو دیئے گئے انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو ہماری پہچان، قومیت ہے اور سب کو اپنا سمجھنے اور ساتھ لے کر چلنے کا رجحان ہے۔ اسی لیے یہاں تمام مذاہب پروان چڑھے ہیں۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق بھاگوت نے کہا ’’ہندو ہماری شناخت، قومیت اور سب کو اپنا ماننے اور ساتھ لے کر چلنے کا رجحان ہے۔ ہندوستان، ہندوستان بنا رہے، سیدھی سی بات ہے۔ اس کی وجہ سے آج ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ وہ ہیں اور رہنا چاہتے ہیں، رہیں۔ آباء واجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں۔ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔بھاگوت نے کہا ’’اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ہم ہی بڑے (افضل) ہیں، ہم ایک وقت میں بادشاہ تھے، ہم پھر سے بادشاہ بنیں گے، یہ سب چھوڑنا ہوگا اور دوسروں کو بھی چھوڑنا ہوگا۔ اگر کوئی ہندو ہے جو ایسا سوچتا ہے، اسے بھی (یہ احساس) ترک کرنا پڑے گا اور کوئی کمیونسٹ ہے، تو اسے بھی چھوڑنا پڑے گا‘‘۔آبادی کی پالیسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بھاگوت نے کہا کہ سب سے پہلے ہندوؤں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج ہندو اکثریت میں ہیں اور اس ملک کے تمام لوگ ہندوؤں کی ترقی سے خوش ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آبادی بوجھ کے ساتھ ساتھ ایک مفید چیز بھی ہے، ایسی صورت حال میں ایک دور رس اور گہری سوچ کے ساتھ پالیسی بنائی جائے۔‘‘آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا ’’یہ پالیسی سب پر یکساں طور پر لاگو ہونی چاہئے، لیکن یہ زبردستی کام نہیں کرے گی۔ اس کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔ آبادی کا عدم توازن ایک ناقابل عمل چیز ہے کیونکہ جہاں عدم توازن ہوتا ہے وہاں ملک ٹوٹ جاتا ہے، پوری دنیا میں ایسا ہوتا رہا ہے۔‘‘بھاگوت نے کہا کہ ہندو برادری ہی وہ واحد ہے جو جارحانہ نہیں ہے۔ لہٰذا عدم جارحیت، عدم تشدد، جمہوریت، سیکولرازم، ان سب کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک تیمور، سوڈان کو ٹوٹتے دیکھا اور پاکستان کو بنتا دیکھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ سیاست چھوڑیں اور غیر جانبدار ہو کر سوچیں کہ پاکستان کیوں بنا؟بھاگوت نے کہا’’اب کسی کے پاس ہماری سیاسی آزادی میں خلل ڈالنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو جائے گا نہیں، یہ اب ثابت ہو گیا ہے۔ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے اندر کی جنگ جیتنی ہے اور ہمارے پاس جو حل ہے اسے پیش کرنا ہے‘‘۔وہیں انٹرویو میں کچھ مقامات پر موہن بھاگوت نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر شدید حملہ بھی کیا ہے اور ہندو مذہب کو سب سے بہتر قرار دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بھاگوت ہندوؤں کا موازنہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہندو سماج اگر خود کو جانے گا تو اپنا حل کیا ہے اسے سمجھ جائے گا۔ کٹر عیسائی کہتے ہیں کہ ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے، اور جو نہیں بنیں گے ان کو ہمارے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا، یا تو مرنا پڑے گا۔ کٹر اسلام والے، جو ابراہیمی نظریہ رکھتے ہیں، ایشور کو ماننے والے اور نہیں ماننے والے لوگ ہیں، کمیونزم کیپٹلزم سمیت، سب ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں کہ سب کو ہماری راہ اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ ہم ہی صحیح ہیں، ہمارے رحم و کرم پر رہو، یا مت رہو۔ ہم تباہ کر دیں گے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں ’’ہندو کا عالمی نظریہ کیا ہے؟ کیا ہندو کبھی ایسا کہتا ہے کہ سب کو ہندو (مذہب) ماننا پڑے گا؟ ہمارا ایسا نظریہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کے سامنے ایک مثال پیش کریں گے۔ سب لوگوں سے بات کریں گے۔ جس کو اچھا بننا ہے، وہ ہماری پیروی کرے گا۔ نہیں تو، ہم ان کا کچھ نہیں کریں گے۔ لیکن وہ ہمارا کچھ نہ کر سکیں، اس کی فکر تو کرنی پڑے گی۔‘‘ ساتھ ہی بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ان سب لڑائیوں میں اب ہم مضبوط ہو گئے ہیں۔ اب وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘۔