مسلم طبقہ کے ہزاروں مکانات تباہ کیا جانا اتراکھنڈ حکومت کی گہری سازش:صابر علی خان
سہارنپور، سماج نیوز:(احمد رضا) ملک میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف فیصلہ مسلم طبقہ کے لئے تشویش کا باعث بن گئے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مذہبی رنگ دیکر صرف اور صرف مسلم طبقہ کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا جا نا غیر جمہوری اور غیر قانونی فعل اگر غور کریں تو آج ملک بھرمیں بڑھتی نفرت اور عدم رواداری ہماری ترقی امن اور اتحاد کیلئے خطرناک بنتی جا رہی ہے۔ ملی کونسل کے زونل نا ئب صدر صابر علی خان نے ہلدوانی میں مسلم طبقہ کے چار ہزار سے زائد مکانات کو سرکاری سطح پر گرائے جانے کے فرمان کو دستورِ ہند کا مزاق اڑانے جیسا بتاتے ہوئے کہا کہ ملک میں طاقت کے استعمال سے انصاف کا گلا گھونٹ نے کی سازشیں عروج پر ہیں ہلدوانی میں سرکاری مشینری کی مسلم طبقہ کے خلاف سخت کاروائی اس کاجیتا جاگتا ثبوت ہے۔ صابر علی خان نے کہا کہ ملک میں بڑھتی نفرت اور عدم رواداری کی بڑھتی ہوئی وار دا توں پر صاف صاف طور سے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکز اور کچھ ریاستوں میں برسراقتدار حکومت کے سپہ سالار و ں نے ملک بھر میں نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس کے سبب ہندو مسلمان کے درمیان ماحول کشیدہ ہوتا جا رہا ہے ملک کا عوام امن پسند ہے اور مل جل کر ہی رہنا چاہتا ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ بی جے پی پارٹی کے ترجمان سے لے کر صوبہ کے وزیر اعلیٰ تک کشیدگی کم کرنے کی جگہ کشیدگی بڑھانے پر آمادہ ہیں تبھی تو بے تکے فیصلہ لیکر اور گھنونے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جو دوسرے طبقہ کو برے محسوس ہو تے ہیں۔ سوشل قائد صابر علی خان نے کہاکہ اتراکھنڈ میں بی جے پی برسر اقتدار ہے وہاں کے وزیراعلی نے پہلے یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے لئے کمیٹی کی تشکیل دی ہےاب ہلدوانی میں صدی سے زائد وقت سے آباد ہزاروں مسلم افراد کو اجاڑ نے کی کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں جو ملک کی سالمیت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے کہاکہ پورے ملک میں مسلم طبقہ کے خلاف کوئی بھی قاعدہ یا قانون بھاجپا سرکار بہ آسانی پاس کرا سکتی ہے اور یکساں سول کوڈ قانون بھی پارلیمنٹ میں بی جے پی حکومت بہ آسانی سے پاس کروا سکتی ہے لیکن اس پر عمل کر آنا ناممکن ہے۔ محمد علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں اسلئے اسلام مذہب کے سبھی ماننے والے اپنی شریعت کے دائرے سے باہر جا کر کسی بھی غیر مذہبی اور غیر قانونی روایت پر عمل نہیں کرسکتے اقلیتی طبقہ پر جبر کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے ہماری طرح ہی عیسائی اور سکھ مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ساتھ بودھ مذہب والے اورآدی وا سی بھی زبردستی تھو پے ہوئے فیصلہ پر عمل نہیں کریں گے ہندو مذہب کے وہ لوگ بھی آنے والے دنوں میں سرکاری مشینری کے عمل کی خد ہی مخالفت کر نے لگے گیں،! جو ماں باپ کی جائیداد میں بیٹیوں کا حق نہیں دیتے شادی بیاہ کے بھی الگ الگ رسم ہیں وہ یکساں سول کوڈ کی بات کریں یہ بیحد بے تکی باتوں ہیں اسکے سوا ئے کچھ بھی نہیں اقلیتوں پر جبر اور ستم بر سر اقتدار حکومت کے لیے سر درد ثابت ہوگا! ہلدوانی مکانات ڈھائے جانے کے ایشو پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے محمد علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہمارے سنیئر وکلاء صاحبان سپریم کورٹ پہنچ 7گئے ہیں لا ئق عدالت جو بھی فیصلہ کر ے ہم قدر کریں گے مگر 1932 سے سرکاری حقوق حاصل ہونے کے بعد بھی چالیس ہزار مسلم افراد کو بے گھر کیا جاتا ہمیں کسی بھی صورت برداشت نہیں ہو گا۔ ہم لگاتار انصاف کے حصول کے لئے سڑکوں پر ہیں اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے لگاتار کپکپاتی ٹھنڈ میں ہماری بھو پیٹیاں اور ما ئیں سڑ کونپر پر ہیں مگر سرکار کو شرم نہیں آتی، گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ کہ تنازعہ کو لے کر کہا گیا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے کوئی بیان بازی نہ کی جائے مسلمان اپنے ایمان سے سمجھوتا نہیں کر سکتا ملت پر جبر، حق تلفی کے معاملہ پر ہم سبھی متحد ہیں۔ محمد علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ یکساں سول کوڈ حکومت نافذ کرے لیکن کسی مذہب کے ماننے والوں پر اثر نہ پڑے حکومت اس کا خیال رکھے! جمعیت علماءہند نے پہلے ہی یکساں سول کوڈ کو کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ محمد علی نے کہا کہ آج سے قبل اخبار کے ذریعہ اپنے کئی بیانوں میں بر سر اقتدار حکومت سے مانگ کر چکا ہوں کے یکساں سول کوڈ حکومت نافذ نہ کرے۔ مسلمان کے علاوہ اور مذہب کے ماننے والے بھی اس کی مخالفت کریں گے جمعیۃ علماءہند کے اجلاس میں بھی اتفاق رائے سے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔ ڈاکٹر آصف نے کہاکہ ایک جانب ملک میں یکجہتی قائم کرنے کے لئے جمعیت علماءہند سے لے کر بہت سادی تنظیمیں نفرت پھیلانے پر قابو پانے کے لیے پیغام دے رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب بی جے پی پارٹی کے ترجمان شہزاد پونا والا جب کانگریس برسر اقتدار تھی اس کے ساتھ تھے جب بی جے پی پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کے ساتھ ہو گئے۔ آج نفرت انگیز بیان اور مسلمانوں پر حملہ کر رہے آپ نے کہا کہ جان بوجھ کر ہلدوانی میں ہزاروں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلنے والا ہے، قریب 4 ہزار مکانات کو ہندوتوا کا بلڈوزر مسمار کرنے جارہاہے جن میں سے اکثریتی مکانات غریب مسلمانوں کے ہیں۔چار ہزار مکانات کے انہدام کا مطلب بیس ہزار سے زائد انسانوں کو سڑک پر لانا ہے، چار ہزار مکانات میں اگر اوسطا پانچ سے سات افراد بھی رہ رہے ہوں تو بھی بےگھر ہونے والوں کی تعداد چالیس ہزار سے متجاوز ہوگی، مسلمانانِ ہند پر یہ ایک ایسی قیامت مسلط ہونے والی ہے کہ اگر یہ ظلم اتنے بڑے پیمانے پر واقع ہوگیا تو پھر موجودہ بھارت میں ملک بھر کے مسلمانوں کا مستقبل واضح ترین سوالیہ نشان کی زد میں ہوگا؟ ایڈوکیٹ محمد علی نے صاف کہا کہ جب ہمارے مکانات پر بھی ہندوتوا کا بلڈوزر چلےگا تو ہمیں موت کا سناٹا سنائی دے گا، مرد، اور عورتیں ہی نہیں بلکہ بوڑھے، بوڑھیاں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہزاروں کی تعداد میں بےگھر ہونے جارہے ہیں، اس کا تصور ہی کتنا دل دہلانے والا ہے مگر ہمارا مکمل اعتماد عدلیہ پر ہے انصاف ضرور ملیگا لیکن سوال وہی ہےکہ جن لوگوں کو اس وقت ان مظلوم عورتوں کی مدد کرنی چاہیے وہ مسلم لیڈر کہاں ہیں ہماری عورتیں اور بچیاں سڑک پر رو رو کر فریاد کررہی ہیں لیکن لیڈرشپ کے خون میں کوئی ابال نہیں آ رہا ہے آئین و جمہوریت والے بھی اپنے سیکولرازم کا تماشا دیکھ رہےہیں!