جس کیخلاف ناجائز بنگلہ قبضہ معاملے میں ایف آئی آر نہیں لکھی جاتی
نئی دہلی، سماج نیوز: حیدر آباد جبلی ہل بنگلہ قبضہ معاملے میں یہ سچ کھل کر سامنے آیا ہے کہ برسوں سے کرپشن کے معاملے میں آگے آگے رہنے والے خواجہ معین الدین جو پہلے ٹریفک پولس انسپکٹر تھا ، اب اسے تلنگانہ کے وقف معاملے پر حکمراں بنا کر بٹھایا گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے چور چور موسیرے بھائی۔ جب یہی اہلکار کھوج نکال کر کسی بھی وقف پراپرٹی کو اپنے آقاؤں کے سامنے رکھیں گے تو ان کی مدد سے اس کے غبن کا کام آسان ہوگا۔ اسی لئے خواجہ معین الدین جیسے اہلکاروں کو با مقصد جگہوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اور ان کے ہر ناجائز مطالبے بھی پورے کئے جاتے ہیں۔ خواجہ معین الدین سابقہ دنوں منی لانڈنگ کے معاملے میں ملوث پایا گیاتھا ۔ لیکن نہ اس کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور نہ ہی اسے عہدے سے معطل کیا گیا بلکہ اس کو مزید اور بڑے عہدوں پر بیٹھا کر اس کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
تازہ معاملے میں خواجہ معین وقف معاملے کا اہلکار ہے ، جس نے ہیرا جویلرس کے جبلی ہل حیدر آباد میں واقع ایک بنگلے پر قبضہ کرلیا ہے۔ جب جب اس بدعنوان آفیسر کے خلاف پولس تھانوںمیں اور محکمہ جات میں شکایت درج کرائی گئی کسی نہ کسی بہانے سے ٹال دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایف آئی آر بھی درج ناکی گئی۔ خواجہ معین الدین نے فاطمہ نامی اپنی وکیل اہلیہ کی مدد سے بنگلے کی جعلی دستاویز بھی بنا لی ہے۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب اس بات کا پتہ لگا کہ یہ سارا واقعہ اس وقت رچا گیا جب ہیرا جویلرس کی کمپنی ہیرا گروپ قانونی داؤں پیچ میں مصروف تھی اور جانچ پڑتال کے مرحلے میں بنگلے کے باہر ای ڈی کا بورڈ چسپاں کیا گیا تھااس کے باوجود جبلی ہل علاقہ میں واقع ہیرا جویلرس کے بنگلے میں گھس کر سیکڑوں کلو سونا اور جویلری پر قبضہ کر لوٹ لیا گیا اور نقدر روپئے پیسے آپس میں تقسیم کر لئے گئے۔ جس کا منظر ویڈیو کیمرے اور فوٹوز وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
ان سب معاملوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بخوبی پتہ چل جاتی ہے کہ خواجہ معین الدین اور اس کی اہلیہ کے ساتھ اس ناجائز قبضہ معاملے میں سرکاری مشنری اور سیاسی اہلکار بھی پوری طرح ملوث ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی اہلکاروں کے خواجہ معین الدین پر بڑے رحم و کرم بھی ہیں۔ اسی لئے خواجہ معین الدین کے حالیہ قبضہ اور پچھلے کئی ایک غیر قانونی لوٹ گھسوٹ معاملے کے باوجود جب کہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے اسے اب وقف پراپرٹیز کے عہدے پر بٹھا کر لوٹ کے معاملے کو اور آسان بنا لیا گیاہے۔ تلنگانہ کی چالیس ہزار وقف پراپرٹیز اب کم ہوتی ہوئی نصف یوں ہی نہیں ہو گئی ہے۔ خواجہ معین الدین جیسے آفیسران کو ان عہدوںپر بھیج کر اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ نرم ملائم لقمہ کون سا ہے جسے ہضم کر لیا جائے اور وہ اسی منشا پر کام کرتے ہوئے جس ملک اور ریاست کی روٹی کھاتے ہیں اسی کے خلاف غداری کرتے ہیں۔ حالیہ معاملے میں ہیرا گروپ سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ میں تحریری حلف نامہ داخل کیا ہے مگر ابھی تک کارروائی کے نام پر خاموشی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ خواجہ معین الدین کی تمام ملکیت کی از سر نو جانچ پڑتا ہو تو پتہ چلے گا کہ خواجہ معین الدین نے کن لوگوں کی غلامی کی ہے اور کتنے ناجائز قبضے خود کئے اور اپنے لوگوں کے لئے انجام دئے ہیں۔