نئی دہلی:بہار کے ایک گاوں میں دو کلومیٹر سڑک کی ‘چوری کے تازہ واقعے نے سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ مبینہ چور چند دنوں قبل ایک موبائل ٹاور اور گزشتہ ماہ ریل کا ایک انجن اورایک پل پر اپنا ہاتھ صاف کرچکے ہیں۔ بانکا ضلع میں راجون بلاک کے کھرونی گاوں کے لوگ گزشتہ روز جب صبح کو اپنے گھروں سے باہر نکلے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ گاو ں سے ہو کر گزرنے والی تقریباً دو کلومیٹر طویل سڑک کا کوئی پتہ ہی نہیں ہے اور جہاں کبھی سڑک ہوتی تھی وہاں گیہوں کے بیج بو دیے گئے ہیں۔لوگوں نے پہلے سمجھا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں لیکن جلد ہی انہیں حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ کھرونی گاوں کو خادم پور گاوں سے جوڑنے والی سڑک تو ’’چوری‘‘ ہو چکی ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق کھیرونی گاوں کے مبینہ ‘چوروں نے کولتار سے بنی پختہ سڑک کو پہلے اکھاڑ دیا اور پھر اس پر ٹریکٹر چلا کر اس پر اور اس کے اطرف کے کھیتوں میں گیہوں بو دیے۔ جب خادم پور گاوں کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو مبینہ "چور” مرنے مارنے پر اتر آئے۔اس واقعے کے بعد گاوں اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں میں ناراضگی ہے کیونکہ انہیں نقل و حمل میں کافی پریشانی پیش آرہی ہے۔ لوگوں کو مین روڈ تک پہنچنے کے لیے پگڈنڈیوں کے راستے پیدل ہی جانا پڑ رہا ہے۔ ناراض لوگوں نے متعلقہ سرکاری حکام سے اس کی شکایت کی ہے۔ جنہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے اور قصورواروں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کیا واقعی سڑک چوری ہوگئی؟:ڈی ڈبلیو اردو نے جب حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے منیش کمار سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ "باہمی تنازع کا معاملہ ہے اور بہار میں سڑک کی’ چوری’ کا ایسا واقعہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔”منیش کمار کا کہنا تھا کہ دراصل کسانوں نے سڑک تعمیر کرنے کے لیے حکومت کو زمین دی تھی۔ لیکن انہیں حسب وعدہ اس کا معاوضہ نہیں ملا، جو کہ ایک عام بات ہے، اسی لیے ناراض کسانوں نے سڑک اکھاڑ دی اور اس پر گیہوں بو دیے۔اس طرح کی ‘چوری کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ کے اواخر میں پٹنہ کے قریب ایک موبائل ٹاور چوری ہو جانے کی خبریں میڈیا کی زینت بن گئی تھی۔ اس سے قبل مظفر پور ضلع میں ‘چوروں’ نے ریل کا ایک انجن چرا لیا تھا جب کہ اس سے پہلے روہتاس ضلع میں لوہے کا ایک پل چرا کر لے گئے تھے۔
‘یہ سب بدعنوانی کا کھیل ہے:منیش کمار بتاتے ہیں کہ پٹنہ کے نواحی علاقے گردنی باغ میں 50 میٹر اونچے موبائل ٹاور کی چوری کی حقیقت یہ ہے کہ اروند سنگھ نامی شخص نے موبائل فون سروس فراہم کرنے والی ایک کمپنی کو ٹاور لگانے کے لیے اپنی زمین کرایے پر دی تھی لیکن کمپنی نے کرایہ ادا کرنا بند کردیا تھا۔ جس کے بعد اروند سنگھ نے کمپنی سے کرایہ ادا کرنے یا ٹاور ہٹا لینے کے لیے کہا۔منیش کمار کے مطابق موبائل ٹاور کو کسی نے چرایا نہیں تھا بلکہ کمپنی کے کارکنان خود ہی اسے اکھاڑ کر لے گئے لیکن سوشل میڈیا پر اسے ‘چوری’ ہو جانے کی خبر اڑا دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی چوری ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اس طرح کے تمام معاملات تنازع یا بدعنوانی کے ہیں۔
ریل انجن کیسے چوری ہوئی؟: نومبر کے اوائل میں مظفر پور ضع میں ریلوے یارڈ میں کھڑی ایک ریل انجن کے چوری ہوجانے کی خبروں نے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے منیش کمار نے بتایا کہ دراصل ریل کا انجن برسوں سے بیکار پڑا ہوا تھا۔ ریلوے کے انجینئروں نے ایک مقامی اسکریپ ڈیلر سے ملی بھگت کرکے اس کے ایک ایک حصے کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس معاملے میں اصل ملزم اسکریپ ڈیلر نے بعد میں عدالت میں خودسپردگی کر دی۔رواں برس کے اوائل میں روہتا س ضلع میں محکمہ آبپاشی کے زیر انتظام لوہے کے ایک پل کو ہی چور اٹھا کر لے گئے۔ میڈیا میں شائع تفصیلات کے مطابق چوروں نے خود کو محکمہ کا اہلکار ظاہر کیا تھا۔ وہ لوہا کاٹنے کی مشینیں اور ٹرک بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اور پل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر پورے اطمینان کے ساتھ لے کر چلتے بنے۔منیش کمار کے مطابق مذکورہ پل بہت پرانا تھا اورٹوٹ پھوٹ گیا تھا اور لوگوں کے زیر استعمال نہیں تھا۔ محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے اس کی "چوری کرا دی گئی۔” منیش کمار کہتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ اور متعلقہ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر اس طرح کی چوری ممکن ہی نہیں۔ لیکن جب تک بدعنوانی رہے گی چوری کا یہ کھیل جاری رہے گا۔ (ڈی ڈبلیو)