سہارنپور،سماج نیوز:(احمد رضا) مسلم وکلاء نے لگاتار ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری نظام میں جان بوجھ کر مسلم طبقہ کے خلاف زہر گھولنے والی زبان کا استعمال اور انکے خلاف مذہبی جنون پیدا کر نے والی تمام حرکات قابل مذمت عمل کے زمرے میں آتی ہیں مسلم اور دلت افراد کے ساتھ نفرت کسی بھی صورت قابل قبول عمل نہی کہا جا سکتا ہے! دیش کی قابل احترام صدر مملکت نے بھی یوم آئین کے موقع پر خد فرمادیا کہ جیلوں میں 65 فیصد سے زیادہ دلت ایس سی اور او بی سی قیدیوں کی بھرمار ہے جبکہ وہ رہائی کے حقدار ہیں پھر بھی جیلوں میں قیدیوں کی ذندگی گزارنے پر مجبور ہیں آخر ایسا جبر کیوں ، عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ مہارشی لکشمن داس اُداسی آشرم کے بجرنگ منی داس پر پلاننگ کے تحت مسلم خواتین کو گالی گلوچ دینے کا صاف الزام ہے اس نے گذشتہ ماہ اپریل میں اعلانیہ طور سے یوپی کے سیتا پور میں مسلم خواتین کو ’ریپ کی دھمکیاں‘ دی تھیں ڈسٹرکٹ جج سنجے کمار نے اس سادھو کو اس الزام میں آسانی سے ضمانت دے دی بجرنگ منی کو اگلے ہی دن صبح صبح ڈسٹرکٹ جیل سے رہا کیا گیا تھا مہنت بجرنگ منی داس کو 13 اپریل کے دن اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب رام نریش نامی ایک مہذب شخص نے اس سادھو کے خلاف شکایت درج کرائی تھی عدالت سے اپنی رہائی کے بعد سادھو بجرنگ منی نے پریس کے سامنے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ہزار بار جیل جانے اور متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ اپنے دھرم کا دفاع جاری رکھیں گے مہنت داس نے کہا کہ میں نے جو کہا اس پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے سیتا پور کے خیر آباد قصب میں مہارشی شری لکشمن داس اُداسی آشرم کے مہنت داس نے 2 اپریل کو مبینہ طور پر مسلمانوں اور مسلم خواتین کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی تھی اور کوئی بھی سخت کارروائی اسکے خلاف عمل میں نہی لائی جا نے کے نتیجہ میں وہ دس مرتبہ وہی عصمت دری اور مسلم افراد کا بائیکاٹ کر نے کی دھمکیاں لگاتار ابھی بھی دیتا آرہا ہے مگر سرکاری مشینری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جابر سادھو کی ایک ویڈیو بعد میں سوشل میڈیا پر سامنے آئی جس میں وہ سیتاپور کے گاؤں کی ایک مسجد کے باہر اپنی دو منٹ کی ویڈیو میں کھلے عام عصمت دری کر نے کی دھمکیاں دے رہا ہے اسے دھمکیاں دیتے ہوئے بہ آسانی سنا جا سکتا ہے اور ایک کمیونٹی کا حوالہ دینے کے لیے لفظ ’جہادی‘ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا بھی جا سکتا ہے۔
سادھو کہہ رہا ہے کہ اگر کسی ہندو لڑکی کو مسلم کمیونٹی کا کوئی فرد ہراساں کرے گا تو وہ خود ان کی عورتوں کی عصمت دری کرے گاپولس کی جانب سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ان کی معافی مانگنے کی ایک اور ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ دوسرا ایسا سادھو ہے جسے اس سنگین معاملے میں ضمانت ملی ہے اس سے پہلے یتی نرسنگھ آ نند کو بھی اسی طرح عدالت سے ضمانت دیجا چکی ہے تھی اس نے بھی گذشتہ دنوں ہریدوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی اعلانیہ طور سے دھمکی دی تھی ضمانت پر باہر آنے کے بعد بھی اسنے پہلے کی طرح ہی دوبارہ گالی گلوج مسلم آبادی اور خواتینکے خلاف بڑی بیہودگی سے کرنا شروع کردیا ہے مگر سرکار اور سرکاری مشینری تماشائی بنی ہوئی ہے اس شرمناک حرکت سے مسلم طبقہ میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے یہ ایک خاص قسم کی کار کر دگی دیکھنے لائق ہیکہ بے قصور مسلم جیلوں میں قیدی بنا کر رکھے جا رہے ہیں اور ظالم شاطر شدت پسند افراد کو ظلم اور جبر کرنے کی کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے! ابھی تک سیکڑوں بے قصور افراد کی جانب سے مفت میں فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے ہمارے سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے صاف صاف کہا ہے کہ جب سے بھاجپا قیادت کی جانب سے کھلے عام مسلم طبقہ کے خلاف نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اعظم خان سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا گیا ہے دیگر مسلم افراد پر فرضی فوجداری مقدمات کی بھرمار ہے جبکہ بھاجپا ئی قیادت کے اشارے پر شدت پسند ہندو تنظیم کے افراد کو دہشت پھیلانے اور مسلم افراد پر شکنجہ کسنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ایک اندازہ کے مطابق پچھلے 8 سالوں سے نر سنگھ آنند، پرگیہ ٹھاکر، سادھوی پراچی اور مہنت بجرنگ منی داس جیسے جنونی افراد نے ملک کے امن پسند عوام بلخصوص مسلم طبقہ کے خلاف کھلے طور پر زہر گھولنے اور اشتعال انگیز تقاریر اور عزت آبرو زیر زیر کر نے کی دھمکیاں دینے کی تمام حدود پار کر رکھی ہیں پچھلے 8 سالوں سے ملک میں جگہ جگہ مسلم افراد پر شدت پسند گروپ کے حملہ لگاتار بڑھتے جا رہے ہیں فرضی مقدمات میں ضمانت نہیں دی جا رہی ہے ہندو افراد کی ضمانت فوری طور سے منظور کر لی جاتی ہے پولس اور سرکار ی وکیل بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں جبکہ بے قصور مسلم افراد کے ضمانت سے جڑے تمام تر معاملات میں پولس اہلکار اور سرکاری وکیل کی جانب سے ذبردست مخالفت کی جاتی ہے آخر یہ دوہرا معیار کیلئے؟
سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے جاری بیان میں کہا کہ آج کل کبھی اندو ر ، کبھی بھوپال کبھی ممبئی کبھی بنگلورو کبھی، دہلی ادے پور کبھی جے پور اور احمد آباد شہر میں بلاوجہ مسلم افراد پر زبانی اور جسمانی حملہ کئے جاتے ہیں مگر سرکاری مشینری خاموشی اختیار کئے رہتی ہے اور مسلم افراد کے خلاف معاملات میں اکثر ہماری پولس اور سرکاری مشینری کی خاموشی ماحول کو خوفناک بنانے میں سود مند ثابت ہو تی ہےجس سے ظالم شدت پسند افراد کے حوصلہ بلند ی پر پہنچ جا تے ہیں جابر افراد من مانی کرتے رہتے ہیں سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے کہا کہ آج سیکڑوں شدت پسند افراد شہر در شہر نفرت کو بڑھاوا دینے اور آپس بھائی چارہ کو نیست ونابود کر نے کی نیت سے مست ہاتھی کی مانند گھوم پھر رہے ہیں مگر سرکار سب کچھہ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی ان ظالموں پر نکیل کسنیے کو کسی بہی صورت راضی نہیں ہے یہ ظالم کتنی ہی مرتبہ کھلے عام مسلم افراد پر جابرانہ حملہ کر چکے ہیں اور شکایت کئے جانے کے بعد بہی پولس ان ظالموں کے خلاف سخت کارروائی کر نے سے کترا تی آرہی ہے جگہ جگہ مسلم افراد پر شکنجہ کسنے کو پولس تیار رہتی ہے مگر مسلم طبقہ پر ہونے والے جبر کی شکایت پر پولس اور سرکار تماشائی بنی ہوئی ہے! قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پچھلے دنوں ایک شاطر سنت نے سیتاپور کے ایک گاؤں میں خواتین کی عصمت دری کر نے کی اعلانیہ دھمکیا ں دی اور شکایت پر پولس نے اس کو عزت کے ساتھ گرفتار کیا اگلے ہی دن اسکو عدالت نے باعزت رہائی دے دی ہے نہ بیحد مزے دار با ت کہ مسلم طبقہ کی خواتین کو عصمت دری کی دھمکی دے نے والے سادھو کو بہ آسانی ضمانت مل گئی جبکہ بے قصور مسلم افراد سالوں سے جیل کی اذیتیں برداشت کرنے کو مجبور ہیں یہ دوہرا معیار کیوں؟
previous post