(تحریر:عبدالمبین محمد جمیل سلفی -ایم اے)
نئی دہلی: خود نو شت کو انگریزی میں آٹو بائیوگرافی کہتے ہیں لیکن جب کوءدوسرا کسی کی حالات زندگی کے بارے میں لکھتا ہے تو اسے سوانح حیات کہتے ہیں سوانح نگاری کا اولین سہرا مورخین نے مولانا حالی کے سر باندھا ہے انہوں نے حیات سعدی،حیات جاوید،اور یادگار غالب لکھ کر سوانح نگاری کے فن کو نئی جہت بخشی حالی کے بعد سوانح نگاری کے فن کو عظمت بخشنے والوں میں شبلی کا نام آتا ہے انہوں نے الفاروق، الغزالی، اور سیرۃالنبی جیسی بلند پایہ کتابیں لکھ کر فن سوانح نگاری میں چار چاند لگایایہی چیز جب کوئی شخص اپنے بارے میں بذات خود لکھے تو اسے *خود نوشت سوانح حیات* کہتے ہیں خود نوشت سوانح حیات میں مصنف اپنی تصویر سازی خود کرتا ہے انسانی فطرت کے مطمح نظر صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگ اسے پہچانیں اور یاد کریں خود نوشت میں خواہ عجز وانکساری کے کتنے ہی پردے ڈال دئیے جایئں لیکن ہر شخص کا سب سے بڑاہیرو خود نوشت سوانح نگار ہی ہوتا ہے۔خود نوشت سوانح حیات کو ادبی زبان میں آپ بیتی بھی کہتے ہیں جس کے لئے صفحات کی تعداد اور کسی اسلوب کی پابندی لازمی نہیں یہ چند سطروں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے اور سیکڑوں صفحات پر محیط بھی تاہم تین شرطوں (سچائی،شخصیت ، فن)کی احتیاط لازم ہوتی ہے۔آپ بیتی ایک ایسی صنف ہے جس میں لکھنے والا اپنی زندگی کے بعض اہم اور قابل ذکر واقعات وتجربات کو دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے چونکہ ہر شخص اپنے سماج اور فرقے کے سامنے جوابدہ ہے اسی لئے بعض عقاید ونظریات ،اقدار اور قوانین اسے سچ لکھنے اور کہنے سے باز رکھتے ہیں لیکن بعض حضرات کو ایسی بہت سی باتوں کا اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا جسے عرف عام میں جرم یا گناہ سے تعبیر کیاجاتا ہے جسکے نمونے ہمیں یادوں کی بارات (جوش ملیح آبادی)میں جابجا ملتے ہیں۔اردو میں بہت سی خود نوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں جس میں شاد کی کہانی شاد کی زبانی( شاد عظیم آبادی)سحر ہونے تک (آغا حشر کاشمیری )یادوں کی بارات (جوش ملیح آبادی )بطور خاص ہیں۔اسکے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں نے اپنی اپنی آپ بیتیاں تحریر کرکے اردوادب کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے اسی سلسلے کی ایک ذریں کڑی استاد محترم شیخ عزیزالرحمن السلفی حفظہ اللہ عن نوائب الدھر کی آپ بیتی (رشحات قلم)بھی ہے۔میرے ناقص علم کی حد تک جامعہ سلفیہ بنارس کے اساتذہ میں آپ غالباً پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس جانب پیش رفت کرکے ایک اچھا پیغام علماء، طلباءکودیا ہے جامعہ سلفیہ میں جتنی عبقری شخصیات مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے ہیں شاید کہ برصغیر کے کسی جامعہ کو یہ افتخار واختصاص حاصل ہو لیکن ان سب کے حالات پردہ خفا میں ہیں۔
بہر کیف! استاد مکرم نے اس اس طرح اس فرض کو حتیٰ المقدور نبھانے کی جدوجہد کی ہے جس میں وہ یقینا کامیاب وکامران ہیں یہ باتیں میں شاگرد و مداح کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناقد کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں جسے مدلل مداحی کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا میری اس بات کی گواہی ہر وہ شخص ان شاءاللہ دے گا جو اس خود نوشت سوانح (رشحات قلم ) کا مطالعہ کرے گا کیونکہ خود نوشت سوانح کے لئے ویسے تو کچھ بندھے ٹکے اصول نہیں ہیں لیکن سچائی، شخصیت اور فن تینوں چیزیں عموما لازم مانی جاتی ہیں اور کتاب ھذا میں ان تینوں اصولوں کو مکمل برتا گیا ہے خود نوشت کی ہرایک سطر اس بات کی گواہ ہے کہ اس آپ بیتی میں خون جگر صرف کیا گیا ہے اس سے قبل میں نے ڈاکٹر ملک زاد منظور احمد کی خودنوشت (رقص شرر )پڑھی جو واقعی قابل داد وقابل تحسین ہے ابھی رقص شرر کا خمار ذھن ودماغ سے اترا نہیں تھا کہ استاد محترم کی رشحات قلم ہاتھ آگئی جو اپنے ہئیت اور اسلوب کے اعتبار سے خوب سے خوب تر ہے۔اس خود نوشت میں شیخ نے اپنی زندگی کے حالات کو جس انداز وپیرائے میں قلم بند کیا ہے اس سے قاری کے ذہن ودماغ میں جو خاکہ ابھر کے سامنے آتا ہے وہ یہ کہ کچھ حاصل کرنے کے لئے اپنا بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے جیسا کہ متعدد شعراءنے اس مفہوم کو اپنے اپنے الفاظ میں ادا کیا چنانچہ اقبال کہتے ہیں۔
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے پیدا تو کرے ویسا کوئی قلب سلیم
بقول دیگر
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
مذکورہ آپ بیتی کے ہیرو نے بھی اپنی زندگی میں بہت نشیب فراز دیکھے بے شمار مصائب ومشکلات کا مواجہہ کرتے ہوے شیخ الحدیث کے مسند جلیلہ پر فایض ہوئے اور اس راہ میں انمٹ نقوش چھوڑ دیا،اس آپ بیتی کی خصوصیات لکھنے کے لئے الگ سے کتاب درکار ہوگی لیکن کچھ باتیں جو راقم کو اچھی لگیں اسکی جانب اشارتا کچھ لکھ رہا ہوں پہلی بات یہ اس کتاب میں خود نوشت سوانح نگار نے منتظمین مدارس وجامعات کی ان چیرہ دستیوں کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے جس کا شکار اساطین علم وفن گاہے بگاہے ہوتے رہے ہیں اسی طرح یہ آپ بیتی بہت سارے ان شیخ الحدیثوں کی قلعی بھی کھولنے والی ہے جو ظاہراً کچھ اور باطناً کچھ اور ہوتے ہیں۔
تفصیل بعنوان :چندا کے لئے تیسرا اور چوتھا سفر صفحہ 288،نیز شیخ الجامعہ کے ساتھ ایک سفر ص 257 ملاحظہ کریں۔اسی طرح یہ آپ بیتی اس بات کی دعوت فکر وعمل بھی دیتی ہے کہ انسان کے دل میں اگر خوف الہٰی ہو وہ سچائی کا علمبردار اور ایفائے عہد کا پاسدار تو اللہ اس دنیا میں بھی اس کو اجر جزیل سے نوازاتا ہے اور اسکی مشکلات کو آسان کرکے دوسروں کے لئے مشعل راہ اور نمونہ بنادیتا ہے جیسا کہ اعلان الٰہی ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا،چنانچہ اسکی جیتی جاگتی مثال آپ بیتی کے کردار شیخ کے دادا کی زندگی کو ملاحظہ کرسکتے ہیں جو خاندان اور گاو ¿ں والوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئے نقصان وخسران برداشت کئے لیکن اپنے عہد وپیمان سے قطعی راہ فرار اختیار نہیں کیا اور نہ پاے استقامت میں جنبش آئی۔تفصیل بعنوان :دادا کی سچائی اور عہد کی پابندی ص 146 پر ملاحظہ فرمائیں،خود نوشت میں شامل ایک عنوان “موتمر الدعوة والتعلیم منعقدہ 22،23،24فروری 1988نہایت دلچسپ ہے جسے خود نوشت کا قاری نہ ختم ہونے والی توجہ اور مکمل انہماک سے پڑھے نہیں رہ سکتا اس موضوع میں کانفرنس کی روداد، طبقہ امراءکا طنطنہ اور شیخ نے اپنی جانفشانیوں کا ذکر بڑے ہی لطیف اور پرخلوص اسلوب وپیراے میں کرنے کے ساتھ ساتھ اہالیان شہر بنارس کی اس عصبیت کا برملا اظہار بھی کیا ہے جس میں کیا عامی کیا عالم سب مبتلا ہیں مذکورہ عنوان کے ایک ضمنی عنوان( تجاویز وسفارشات ص:351)سے ایک اقتباس پڑھیں جس سے یہ حقیقت بھی آشکارہ ہوجائے گی کی شیخ بھی اس عصبیت کے بھینٹ ایک نہیں متعددبار چڑھے ہونگے“یہ ایک حقیقت ہے کہ شہری لوگ عربی پڑھنے والے باہری طلبہ اور اساتذہ کو بڑی گری اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یہ اگر سلام بھی کریں تو حقارت کی وجہ سے جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے اورمصافحہ کی بات تو دورکوئی مدرس اگر کہیں خطبہ دینے جاے تو اسے پانی تک نہیں پوچھتے بالائی محلوں کے لوگ تو پوچھ بھی لیتے ہیں مگر رئیسان بنارس اور ان کے محلہ میں رہنے والوں کا یہی طرز ہے انکے یہاں ہم تم میں بڑا فرق ہے ان کی ادنیٰ سی چیز اعلیٰ اور دوسرے کی اعلیٰ چیز ادنیٰ کی جگہ پانے کے قابل نہیں ہوتی اگر خدانخواستہ کسی ادنی شہری کا کسی اہم استاد سے معاملہ پڑجائے اور شہری آدمی اس معاملہ میں سو نہیں ایک سو دس فیصد غلطی پر ہو تو اس شہری کو سارے لوگ پاک سمجھیں گے اور اسکی پشت پناہی کریں گے اور باہر کے عظیم سے عظیم عالم کی بات ایک سو نہیں ایک بیس فیصد صحیح ہو تو سارے لوگ اس کو غلط قرار دیں گے ایک آدمی بھی اسکی ہمنوائی یا داد رسی نہیں کرسکتا یہ تجربہ ایک دو سال کا نہیں چالیس سال کا ہے۔بقول شاعر”بہت دیکھے ہیں ہم نے مشرق ومغرب کے میخانے“اور ایک آدمی کا نہیں سارے لوگوں کا ہے جاہل ہو یا عالم متقی ہو یا پارسا سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ”(ص :352؍53)اسی طرح یہ خود نوشت ان مخفی حقائق کی بھی نقاب کشائی کرتی ہے (جامعہ سلفیہ کے پس منظر میں جس میں سوانح نگار نے عمر کا بیشتر حصہ گزارا)جس پر مرور ایام نے پردہ ڈال دیا تھایہ خود نوشت جہاں ایک طرف نظمائ، جامعات ومنتظمین مدارس کی چیرہ دستیوں اور انکے ہاتھوں اساتذہ کے استحصال کی خونچکاں داستان بیان کررہی ہے تو دوسری جانب اس بات کا اشارہ بھی بین السطور سے کررہی ہے کہ تمام مدارس وجامعات میں کچھ مخصوص فطرت کے اساتذہ خود غرضی، بے ضمیری اور نظمائے مدارس کی تملق وچاپلوسی کے توئے پر اپنے مفاد کی روٹیاں سینکتے ہیں یہ اپنے عیوب ونقائص کو تملق کے ریشمی رومال میں چھپاتے ہیں اور دوسروںکے ھنر کو عیب بناکر پیش کرنے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں یہ لوگ نظماءکی آنکھوں میں صرف دھول ہی نہیں بلکہ پتھر بھی جھونکتے ہیں اور منتظمین مدارس ان کی ہر صحیح وغلط راے کو تسلیم بھی کرتے ہیں جس سے بے شمار صلاحیت مند اور مخلص اساتذہ کا بہر صورت نقصان لازمی ہوتا ہے اور یہی تمام لوگ دراصل مدارس وجامعات کی تنزلی وپستی کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں۔زیر نظر خود نوشت کو پڑھتے ہوے متعدد بار یہ احساس ہوا کہ واقعی سوانح نگار نے از ابتداءتا انتہاءخود داری کی زندگی بسر کی غربت اور عسر میں زندگی گزار دی لیکن دوسروں کے مانند ضمیر وظرف کی سوداگری تو دور کبھی اپنے اصول وشرائط سے سمجھوتا گوارہ نہیں کیا (تفصیل صفحہ: 360؍61،62،63پر دیکھیں)خود نوشت کا ورق ورق بالفاظ صادق بستوی اس بات کا گواہ ہے کہ
سراپا درد میری داستان زندگانی ہے
بڑی ناگفتنی میرے غم دل کی کہانی ہے
فریب زندگانی میں نے ساری عمر کھایا ہے
حصول علم کی خاطر بہت ہی دکھ اٹھایا ہے
بہر صورت خود نوشت سوانح (رشحات قلم )سوانح نگار (استاد محترم)کا قابل تحسین عمل ہے جس پر آپ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں یہ کتاب 389 صفحات پر مشتمل ہے سرورق نہایت عمدہ اور دیدہ زیب ہے خود نوشت اپنے موضوع ،اسلوب اور ہیئت تمام پہلوؤں سے اردو زبان وادب کا بہترین اثاثہ ہے میں شکر گزار ہوں برادر مطیع الرحمن عزیز کا جنہوں نے راقم کو ہدیتاً کتاب ارسال کیا ۔اس سے قبل بھی آپ اپنی ایک تصنیف( جذبہ ¿ شاہین)راقم کے پتہ پر بھیج کر عنداللہ ماجور ہیں ان شاءاللہ۔راقم الحروف یہ کتاب قیمتاً لینا چاہتا تھا اور اس کیلئے برادرم شعیب الرحمن عزیز سے بات بھی ہوئی تھی لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی اقدام کروں گھر سے فون آیا کہ آپ کے نام کوئی کتاب دلی سے آئی ہے میں سمجھ نہ سکا پھر دو چار روز بعد میرے برادر کلاں کتاب لیکر خود میرے پاس آئے تو خوشی دوچند ہوگئی اور دل سے نکل کر بھائی مطیع الرحمٰن کیلئے دعا لبوں پر خود بخود آگئی۔اللہ سے دعا ہے مولا! تو سوانح نگار ،مصنف اور اسکی اشاعت میں دامے درمے قدمے سخنے تعاون کرنے والے تمام لوگوں کو اجر جزیل عطا فرما اور سوانح نگار (استاد محترم)کی غیر مطبوع کتابوں کی طباعت کا کوئی راستہ نکال دے آمین۔