ریاض: سعودی فرمانروا شاہ محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب آئے دن کچھ نہ کچھ کارنامہ انجام دے کر تاریخ رقم کررہا ہے۔ بات کریں ڈیجیٹل کرنسیوں کی تو سعودی عرب میں جولائی 2021 اور جون 2022 کے درمیان ڈیجیٹل کرنسیوں میں لین دین کی شرح میں قریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔چین اینالیسس کی ایک حالیہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اس عرصے کے دوران میں مملکت میں کرپٹو کرنسی پانچ کروڑ ڈالرسے زیادہ کی ادائی کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے محققین میں سے ایک کم گراؤئر نے العربیہ کو بتایا کہ ’’سعودی عرب ایک اہم کرپٹو کاؤنٹر پارٹی ہے، جو متحدہ عرب امارات کے ساتھ کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے بارے میں حوصلہ افزائی کے لحاظ سے ایک فریق ہے‘‘۔اسی عرصے میں متحدہ عرب امارات کو کرپٹوکرنسی میں قریباً چار کروڑ ڈالر وصول ہوئے ہیں۔حال ہی میں یوے ای میں منظورکردہ قانون لوگوں کے لیے دبئی میں ڈیجیٹل کرنسیوں کے ساتھ کام کرنے اور ڈیجیٹل کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کے تحفظ کوآسان اور زیادہ پرکشش بنا رہا ہے۔رواں سال مارچ میں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد نے یواے ای کو ورچوئل اثاثوں کا استعمال کرنے والے افراد کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کے لیے ریگولیشن ادارہ قائم کیا تھا۔شیخ محمد نے یہ بھی اعلان کیا کہ دبئی ایک ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرے گا جو یواے ای کے مرکزی بینک کے ساتھ مل کر کام کرے گا ، جس سے کرپٹو کرنسیوں میں ادائی کو آسان اور محفوظ بنایا جاسکے گا۔متحدہ عرب امارات میں ریگولیٹری نظام متعلق وضاحت کی وجہ سے بین الاقوامی کاروباری اداروں کی توجہ مرکوز ہوئی ہے اور اس وجہ سے لوگ یواے ای میں سرمایہ منتقل اور کاروبار قائم کر رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جولائی 2021 اور جون 2022 کے درمیان سب سے بڑی کرپٹو کرنسی مارکیٹ ترکی تھی ، لیکن یہ بنیادی طور پر ملک کے حجم کے وجہ سے ہے اور اس لحاظ سے اس کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک پر مسابقتی برتری حاصل ہے۔’’یواے ای جیسے ممالک میں بہت بڑی (کرپٹو کرنسی)مارکیٹیں ہیں لیکن ان کی آبادی بہت کم ہے‘‘۔مسٹر گروئر نے کہا۔عالمی بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ترکی میں آٹھ کروڑ 43 لاکھ افراد مقیم ہیں جبکہ سعودی عرب میں یہ تعداد تین کروڑ 48 لاکھ ہے اور متحدہ عرب امارات میں شہریوں اور مکینوں کی کل تعداد ایک کروڑ نفوس سے بھی کم ہے۔