زیر اہتمام فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا موضع پرسیا اٹوا میں اصلاحی پروگرام کا انعقاد
سدھارتھ نگر، سماج نیوز:فرمان الٰہی ہے ’’ کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے۔‘‘(سورۃالبلد) اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں سے زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے۔زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے۔ جیسی انسان کی سوچ ہوگی ،ویسا ہی زبان بولے گی ۔زبان کا صحیح استعمال، ذریعہ حصول ِثواب ہے ،اور غلط استعمال وعیدِعذاب ہے۔یہ انسانی جسم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، لیکن اس کے کرشمے بہت بڑے بڑے ہیں،اس کی خوبیاں بھی بہت ہیں اور خامیاں بھی بہت، اس کے ذریعے انسان چاہے تو اپنی آخرت کے لئے نیکیاں بھی جمع کر سکتا ہے،اور چاہے تو اپنی آخرت برباد کرسکتا ہے ۔اسی وجہ سے کثرتِ کلام سے بھی منع کیا گیاہے۔زبان ہی سے آدمی کےعقل وشعور اور اس کی صلاحیتوں کاپتا چلتا ہے، لیکن اس نعمت کا استعمال اگر غلط طریقے سے ہو تو یہ نعمت اللہ کی ناراضی کا باعث بن جاتی ہے اور لوگوں کے دل بھی اس سے زخمی ہوتے ہیں۔یاد رکھیے، زبان کا زخم تیروسنان کے زخم سے زیادہ کاری ہوتا ہے۔ اسی لیے زبان کے خوف سے بڑے بڑے بہادر لرزتے ہیں۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے ؎’’تیرکے زخم بھر جاتے ہیں، لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے‘‘۔سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے ہی کرتا ہے۔لہٰذا عقل مند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں زبان کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک شخص اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی والے کلمات ادا کرتا ہے، حالانکہ اس کے نزدیک ان کلمات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ،لیکن اللہ تعالیٰ اس کی بے خبری میں ہی اس شخص کے درجات بلند فرما دیتا ہے،اور ایک شخص اللہ کو ناراض کرنے والے کلمات ادا کرتا ہے، حالانکہ اس کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ،لیکن اللہ تعالیٰ اس کی بے خبری میں ہی اسے جہنم میں گرا دیتا ہے۔(صحیح بخاری)
انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے ۔ایسے ہی بلا وجہ فضول بولتے رہنے سے ایک انسان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔عقل مند انسان کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ سوچ کر بولتا ہے،جب کہ بےوقوف بول کر سوچتا ہے،جہاں اسے معلوم ہو کہ اس جگہ میری بات کی قدر نہیں ہے تو وہاں خاموشی اختیا ر کئے رکھے ،کیونکہ زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آ سکتے ۔لہٰذا احتیاط افسوس سے بہتر ہے کے اصول کو ہر جگہ مدنظر رکھا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے (اسے چاہئے یا تو) وہ بھلائی کی بات کہے ،ورنہ خاموش رہے۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اہل ایمان کی گفتگو بہترین اور پرُ تاثیر ہوتی ہے، اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:فضول باتوں کو چھوڑدینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔(مؤطا امام مالک)
سیدنا ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! مسلمانوں میں سے کون افضل ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔(صحیح بخاری)
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا “ اے معاذ، روزِ قیامت لوگ اپنی زبان سے کاٹی ہوئی فصلوں کی بدولت ہی منہ کے بل یا ناک کے بل جہنم میں جائیں گے۔“ (مسنداحمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
فرمانِ نبویﷺ ہے ’’ جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دے تو میں محمدﷺ اسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں،ایک زبان اور دوسری شرمگاہ‘‘۔(صحیح بخاری ) ایک طرف یہ پیارے رسول ﷺکی ضمانت و خوشخبری ہے، لیکن دوسری طرف جب ہم اپنے گردو پیش نظر ڈالتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ہماری محفلیں،اجتماعات،گلی محلوں میں دوستوں کی بیٹھک،بازاروں میں لوگ اور بالخصوص خواتین باہمی گفتگو کیسے کرتے ہیں۔کیا ہماری باتوں کا اکثر حصہ ایک دوسرے کی غیبت،جھوٹ،چغلی،فضول گوئی اور گالم گلوچ پر مشتمل نہیں ہوتا؟ ہماری نئی نسل کی زبانوں پر موجود گالیاں ہمیں نظر نہیں آتیں؟ماں باپ اپنے بچوں کے منہ سے گالیاں سن کر بدمزا نہیں ہوتے؟اس حوالے سے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوزبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین )
ان خیالات کا اظہار پرسیا میں منعقد ہونے والے پروگرام میں معین الدین سلفی نے کیا۔ اس موقع پر ارمان سراجی نے بھی عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ خواتین نے ہر دور میں دنیا کے کارخانے کو چلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔عرب کے جاہلیت بھرے دور میں مشہور تاجرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، زر عالمہ و فقہیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،میدان جنگ کی سپہ سالار ام عمارہ رضی اللہ عنہا ، عرب کی ممتاز اور صف اول کی شاعرہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا، بعد کے دور میں اندلس کی مشہور محدثہ ام سعد، دُنیا کی پہلی یونیورسٹی القرون کی بنیاد رکھنے والی فاطمہ الفہیری، علم ہندسہ کی ماہرقرطبہ کی لبنی اور دیگر ہزاروں خواتین ایسی ہیں کہ جنھوں نے تاریخ رقم کی۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عورت کے وجود کا سب سے بڑا شاہکار یہ ہے کہ اس نے ایسی ہستیوں کو جنم دیا جن پر آج بھی تاریخ فخر کرتی ہے۔ اس کی گود میں امام، خطیب، مفسرین، صاحب کتاب، شہداء، حاکم اور شہنشاؤں نے پرورش پائی جو اس کی محبت، جذبۂ خدمت اور قربانی کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ بقول اقبال:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ودروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اسکی
کہ ہر شرف ہے اسی در کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اس کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
لیکن افسوس دور حاضر کی خواتین ملت نہ تو اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانتی ہیں، نہ اپنے فرائض بخوبی ادا کر پا رہی ہیں۔ وہ اپنے بھی حقوق حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔اس کی اہم وجہ اسلامی تعلیمات کا پوری طرح سے نہ جاننا اور اسلام کے صحیح نظام زندگی کےتصورات کو نہ سمجھنا ہے۔ مذہب اسلام نے عورتوں کوجو مقام و مرتبہ دیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتا۔ دور حاضر میں اسلام کے تئیں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ اسلام نے عورت کو چہار دیواری میں قید کر دیا ہے اور (مسلم) عورتوں کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عورت کو میدان عمل میں اترنے سے ہرگز نہیں روکتا، البتہ کچھ حدود اور پابندیاں ضرور عائد کرتا ہے تاکہ اس کی عزت نفس، شرم حیا اور پاکدامنی پر آنچ نہ آنے پائے، نہ اس کا گھر ٹوٹے اور نہ ہی اس کی اولاد بےراہروی کا شکار ہو۔ مختصراً یہ کہ اسلام خواتین کو وہ سارے امور انجام دینے کی اجازت دیتا ہے جو اس کی فطرت کے خلاف نہ ہوں اور اس کی نسوانیت برقرار رہے۔
اسلام میں عورت کا مقام: اسلام نے عورت اور مرد کو ایک ہی جنس بتا کر مساوات کا درس دیا تاکہ عوت کا استحصال نہ ہو۔مال،جائیداد اور وراثت کا حق دے کر اسے خود کفیل بنایا، عورت کو تعلیم کا حق دیا، درس وتدریس اور تقریر و تحریر کی آزادی دی، اپنی پسند کی شادی کی اجازت دی ، نباہ نہ ہونے کی صورت میں خلع کا اختیار دیا،بیوہ یا مطلقہ ہونے کی صورت میں نکاح ثانی کا حق دیا اور اسلامی حدود میں رہ کر بوقت ضرورت معاشی جہدوجہد کی بھی آزادی دی۔ اسلام نے ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی، نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا اوربیٹی کی اچھی پرورش پر جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔
پیغام حرم: دور جدید خواتین کے لئے بڑے چیلنج کا دور ہے۔ اس دور میں عورت بظاہر آزاد و خودمختار نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ آج بھی مردوں کا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ کہیں عورت جہیز کے لئے جلائی جاتی ہے توکہیں بیٹی کی پیدائش پر لعن طعن کی جاتی ہے، کہیں اسے والدین پر بوجھ سمجھا جاتا ہے تو کہیں اس کی عصمت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ کبھی آزادیٔ نسواں کے کھوکھلے نعروں، آرٹ اور آزادی کے نام پر بازاروں کی زینت بنائی جاتی ہے، کہیں اشتہاری کمپنیوں میں مارکیٹنگ کے لئے عورت کو پروڈکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کہیں فحش رسائل و میگزین میں عورت کی ہیجان انگیز عریاں و نیم عریاں تصاویر شائع کی جاتی ہیں۔ افسوس کہ عورت اس بات پر خوش ہے کہ اسے خوب عزت و شہرت مل رہی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ عورت کو عزت مرد بنا کر دی جا رہی ہے، عورت کے روپ میں نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جس پر عورت سوچے، غور کرے۔ ہمیں عورت کے روپ میں عزت کیوں نہیں ملتی؟ کیا ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے؟مکان کو گھر بنانے میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے والی ذات کی قربانیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟
قصور وار کون؟: اس معاملے میں مرد جتنے ذمہ دار ہیں خود عورت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔ آج بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد خود اپنی ہی اہمیت کو نہیں سمجھ سکی ہے۔ جبکہ گھر میں بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، اہل خانہ کی دیکھ بھال، سب کا پیٹ بھرنا، گھر کا بجٹ، گھر کی آرائش و زیبائش وغیرہ تک کئی قلمدان سنبھالتی ہے۔ گویا وہ پورا ایک ادارہ چلاتی ہے۔
شیخ عبد الرقیب سلفی نے جنازے کے اہم احکام ومسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ مردوں کی تجہیز وتکفین کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے حقوق اچھی طرح سے ادا کریں نیز مردوں کے حق میں دعا کریں ان کی نماز جنازہ ادا کریں اور ان کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کی قبرستان میں دفن کر دیں۔اس پروگرام کا آغاز حافظ صفی الرحمن فرقانی کی مسحور کن تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا بعدہ مہتاب عالم سلمہ نے حمد باری تعالیٰ پیش کیا اور نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نذرانہ کلیم اللہ ریانی نے پیش کیا اس موقع پر باشندگان پرسیا و قرب وجوار کے معزز سامعین وسامعات اچھی تعدادمیں موجود رہے، جن میں محمد سلیم، حاجی محمد شفیق، اصغر علی، عبد المجید، حاجی عبدالوکیل، رواب علی مہتو، مولانا یعقوب، سمیع الله، زہیراحمد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔