نئی دہلی، سماج نیوز: آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدر سونیا گاندھی نے جمعرات کے روز کرناٹک کے منڈیا میں راہل گاندھی کی زیر قیادت ‘بھارت جوڑو یاترا’ میں شامل ہوئیں۔کانگریس صدر سونیا گاندھی پیر کی دوپہر کرناٹک کے تاریخی شہر میسور پہنچی تھیں۔ دو دنوں کے وقفے کے بعد بھارت جوڑو یاترا دوبارہ شروع ہوئی ہے ۔ محترمہ سونیا گاندھی کی شرکت پر کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ انہیں اس سفر میں اپنے سپریم لیڈر کے ہمراہ ہونے پر فخر ہے ۔ ان کی پارٹی ریاست میں اقتدار میں واپس آ رہی ہے ۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ’وجئے دشمی، ہم کرناٹک میں جیتیں گے ۔ ہمیں فخر ہے کہ سونیا گاندھی کرناٹک آئی ہیں۔ ہم ریاست میں اقتدار میں واپس آ رہے ہیں اور بی جے پی کی دکان بند ہونے والی ہے‘۔کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے پارٹی صدر سونیا گاندھی کے کرناٹک میں بھارت جوڑا یاترا میں شامل ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یاترا کو مزید تقویت ملے گی اور کارکنوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوگا۔مسٹر گاندھی نے ٹویٹ کیا’کانگریس صدر، سونیا گاندھی جی نے ہمیشہ جمہوریت اور ہم آہنگی کو ہی کانگریس پارٹی کی بنیاد کے طور پر بااختیار بنایا ہے ۔ آج وہ ملک میں انہی اقدار کے تحفظ کے لیے چل رہی ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ چلنے پر فخر ہے‘۔ محترمہ واڈرا نے کہا’کانگریس صدر سونیا گاندھی جی آج بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوئیں۔ پورا ملک ایک دھاگے سے جڑے گا، مضبوطی سے آگے بڑھے گا‘۔ صحت کی وجوہات کی بناء پر سونیا گاندھی پچھلے کچھ سالوں سے اتنے فعال کردار میں نظر نہیں آئیں۔ اس سال کے شروع میں 5 ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی انہوں نے انتخابی مہم کے لئے کہیں نہیںکوئی سیاسی حصہ نہیں لیا۔ بھارت جوڑو یاترا ستمبر کو تمل ناڈو کے رامیشورم سے شروع ہوئی تھی، جب سونیا گاندھی علاج کیلئے امریکہ گئی تھیں۔ اس کے بعد ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انہیں اٹلی جانا پڑا۔سونیا گاندھی اور کانگریس کا کرناٹک سے گہرا رشتہ ہے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی اس جنوبی بھارتی ریاست کی سیٹ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑ چکی ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد جب اندرا گاندھی کی حکومت چلی گئی تھی، 1980 میں جب وہ محفوظ لوک سبھا سیٹ کی تلاش میں تھیں، ایسے میں انہوں نے کرناٹک کے چکمگلور سے الیکشن لڑاتھا۔ انہوں نے آندھرا پردیش کے مینڈک اور اتر پردیش کے رائے بریلی سے بھی اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے رائے بریلی کی سیٹ چھوڑ دی۔ سونیا گاندھی بھی کرناٹک کی بیلاری لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑ چکی ہیں۔ 1999 کے لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے یوپی کی امیٹھی سیٹ کے ساتھ ساتھ بیلاری سے بھی پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا۔ بی جے پی نے سونیا گاندھی کے خلاف سشما سوراج کو میدان میں اتارا تھا۔ تاہم سشما سوراج کو 56000 ووٹوں سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھارت جوڑو یاترا سے کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ایک طرف بی جے پی یاترا کی شبیہ خراب کرنے کیلئے طرح طرح کے الزامات عائد کررہی ہے وہیں آج کرناٹک میں بی جے پی کے وزیراعلی بسوراج بومئی نے کہا کہ سونیا گاندھی کے شامل ہونے سے کرناٹک میں یاترا کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔یاترا کے اثرات پر ایک سوال کے جواب میںوزیراعلی بومئی نے کہاکہ تمام پارٹیوں کے لیڈروں کا اپنی پارٹی کیلئے کام کرنا فطری بات ہے۔ وہ (سونیا گاندھی) آدھا کلومیٹر پیدل چلیں اور اس کے بعد چلی گئیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعلی کے ذریعہ اس بات کاذکر کرنااس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ یاترا میں لگاتار بڑھنے والی بھیڑ سے پریشان ہے۔ قبل ازیں کانگریس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے انچارج جے رام رمیش نے کہا کہ محترمہ گاندھی کرناٹک کے ضلع مانڈیا میں یاترا میں شامل ہوں گی اور کارکنوں سے بھی ملاقات کریں گی۔اس سے قبل سونیا گاندھی نے بدھ کے روز میسور کے قریب بھیمانا کولی مندر کا درشن کیا اور وجے دشمی کے موقع پر پوجا کی۔کانگریس کی عوام کو جوڑنے کی یاترا 7ستمبر کو تمل ناڈو کے کنیا کماری سے شروع ہوئی ہے اور 511کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 21دن بعد کرناٹک سے گزرے گی۔ یہ یاترا 30ستمبر کو تمل ناڈو کے گڈالور سے کرناٹک کے گنڈلوپیٹ میں داخل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے یہ کیرالہ سے بھی گزری۔ یاترا میں شامل افراد روزانہ 25کلومیٹر پیدل چل رہے ہیں اور 21دن کے بعد وہ تلنگانہ میں داخل ہوں گے ۔ یاترا کا مقصد مرکز اور ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی حکومتوں کی تقسیم کاری سیاست کے خلاف لڑنا اور عوام کو معاشی عدم مساوات، سماجی پولرائزیشن اور سیاسی مرکزیت کے خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔