ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک کے معماروں نے جن امیدوں کے ساتھ آزاد بھارت کی تعمیر کی تھی وہ آزادی کے 75 سال بعد بھی پوری نہیں ہو سکی ہیں ۔اناج اور خوردنی اشیاء کی دستیابی میں مسلسل اضافے کے باوجود، عالمی بھوک انڈیکس میں بھارت 116 ممالک میں سے 101 ویں نمبر پر ہے ۔ اے سی ایف کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں عدم غذائیت کا مسئلہ جتنا بڑا ہے ویسا جنوبی ایشیاء میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ یہاں ہر سال دس لاکھ بچے عدم غذائیت کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کمیونٹیز کی بنیاد پر دیکھیں تو درج فہرست قبائل کے 28 فیصد، شیڈول کاسٹ کے 21 فیصد، پسماندہ طبقات کے 20 فیصد اور دیہی بھارت کے 21 فیصد طبقات کے بچے عدم غذائیت کے شکار ہیں ۔ ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں کم یا زیادہ عدم غذائیت کا مسئلہ نہ ہو ۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد پر نظر ڈالیں تو اس فہرست میں جہاں بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، راجستھان، اترپردیش جیسی غریب ریاستیں ہیں ۔ وہیں گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، دہلی جیسے صوبے بھی شامل ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ٹائمز آف انڈیا کے پہلے صفحہ پر غذائیت کے شکار ایک بچے کی تصویر چھپی تھی ۔ اسے دیکھ کر افریقہ کے کسی بھک مری کے شکار بچے کا احساس ہوتا تھا لیکن یہ تصویر گجرات کی تھی ۔ وہاں 15-2016 کے درمیان اسٹنٹنگ (عدم غذائیت) 38.5 فیصد تھی جو 19-2021 میں 39 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے ۔ اس وقت کھانے پینے کی عادتوں میں تبدیلی کو عدم غذائیت کی وجہ بتایا گیا تھا ۔ اس وقت تو ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا تعلق گجرات سے ہے پھر وہاں اسٹنٹنگ کی شرح میں اضافہ کیوں ہوا ۔ جبکہ دوسری ریاستوں میں حالات بہتر ہو رہے ہیں ۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ کے مطابق بہار 15-2016 میں عدم غذائیت کی شرح 48.3 فیصد تھی جو 19-2021 میں گھٹ کر 42.9 فیصد پر آگئی ۔ جھارکھنڈ 45.3 سے 39.6 پر، چھتیس گڑھ 37.6 سے 34.6 پر، راجستھان 39.1 سے 31.8 پر، مدھیہ پردیش 42 سے 35.7، اتراکھنڈ 33.5 سے 27 اور اترپردیش 46.3 سے 39.9 پر آگیا ہے ۔ جبکہ ہماچل پردیش میں عدم غذائیت میں اضافہ ہوا ہے 19-2021 میں 26.3 سے بڑھ کر 30.8 ہو گئی ہے ۔ ویسے پورے ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں ۔ لیکن اس کی رفتار کم سست ہے اکثر ریاستوں میں تین سال کے لمبے عرصے میں صرف ایک سے ڈیڑھ فیصد کی کمی آئی ہے ۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ جو ریاستیں وسائل سے مالا مال ہیں وہ بھی ریاست کے تمام لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہیں ۔ مثلاً جھارکھنڈ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق، غذائیت اور غربت کے لحاظ سے ملک کی سب سے پسماندہ ریاستوں میں سے ایک ہے ۔ جبکہ جھارکھنڈ نہ صرف ملک کی تقریباً 40 فیصد معدنی دولت کا ذریعہ ہے بلکہ ملک کے لیے انسانی وسائل کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی ہے ۔ ہماری ریاست کو اپنے بنیادی ترقیاتی اشاریوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس صلاحیت کو قوم کی تعمیر میں حقیقی حصہ داری میں تبدیل کیا جا سکے ۔ بچوں کی صحت اور غذائیت کسی بھی ریاست کی ترقی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں ۔ جھارکھنڈ کے غذائیت کے اشارے پچھلے کچھ سالوں میں بہتر ہوئے ہیں، لیکن وہ مطلوبہ ہدف کے مطابق نہیں ہیں ۔
غذائیت مہم نے جھارکھنڈ کے حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سال 2018 میں اپنے آغاز کے بعد سے، پوشن ابھیان نے ریاست میں بچوں کی صحت اور غذائیت کے مختلف اجزاء کو بہتر بنایا ہے ۔ اس کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی صحت میں بہتری آئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی وزن اور لمبائی کا تناسب 29 فیصد سے کم ہو کر 22.4 فیصد پر آ گیا ہے ۔ عمر کے تناسب کے لحاظ سے کم وزن کی شرح 47.8 فیصد سے کم ہو کر 39.4 فیصد پر آگئی ہے ۔ پوشن ابھیان بچوں کی غذائی حالت کو بہتر بنانے کا ایک اہم جزو ہے ۔ اس کا مقصد پوشن ماہ کے ذریعے نچلی سطح پر لوگوں کو غذائیت کی مہم سے جوڑنا ہے ۔ اس سال ستمبر قومی غذائیت مہینے کا تھیم ‘مضبوط/خود انحصار خواتین، پڑھے لکھے بچے، صحت مند بھارت تھی ۔
روندرناتھ مہتو کے مطابق اس مہم کے تحت بچوں، حاملہ خواتین اور نوعمر لڑکیوں میں غذائیت کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک مربوط اور قابل عمل زمینی نقطہ نظر اپنایا گیا ہے، جس میں گرام پنچایت، سرکاری افسران اور مقامی لوگوں کی شرکت کو یقینی بنا کر اسے عوامی تحریک سے عوام کی حصہ داری میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ غذائیت ماہ میں، خواتین اور صحت، بچے اور تعلیم، غذائیت اور پڑھائی، پانی کا تحفظ اور نظم، صنفی حساسیت کے ساتھ قبائلی علاقوں میں خواتین اور بچوں کے لئے دستیاب روایتی خوراک پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ پرعزم اپنی مدد آپ گروپ کی خواتین کو ڈیجیٹل میڈیا سے جوڑا گیا ہے، جو کہ ایک اہم تبدیلی ہے ۔ جھارکھنڈ جیسی ریاست میں غذائیت اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے قبائلی برادریوں کو اس مہم سے جوڑنا ضروری ہے ۔ پوشن کا مہینہ ایسا ہی ایک موقع ہے، جس کے ذریعے بچوں میں غذائیت کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے عوامی تقسیم کی خدمات کے استعمال میں قبائلی برادری کے کردار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ غذائیت پارک کا تصور جھارکھنڈ میں گھر پر مبنی کھیتی باڑی کی ثقافت کو فروغ دے رہا ہے، جس کے تحت دیدی باڑی اسکیم (من نریگا کے تحت) ریاست میں نافذ کی گئی ہے ۔ اس کے ذریعے مقامی کھانوں خصوصاً موٹے اناج جوار، باجرہ اور راگی اور مختلف قسم کے ساگوں چولائی، پالک سہجن، سرسوں، چنا، عربی اور میتھی کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا ۔ صفائی ستھرائی اور صاف پانی کی دستیابی پر بھی خصوصی زور دیا جا رہا ہے ۔ اگر بچوں کو کم عمری میں ہی صحت مند زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں تو ہمارے بچوں میں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حاملہ خواتین اور بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں میں مناسب غذائیت اور صحت کی سہولیات میسر ہوں ۔
اگر ہر سال پوشن مہینے کو منظم طریقے سے لاگو کیا جائے تو اس میں ملک کو عدم غذائیت سے نجات دلانے کی صلاحیت موجود ہے ۔ دوسری ریاستیں جھارکھنڈ کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کو بھوک سے نجات دلا سکتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے پی یو سی ایل بنام بھارت سرکار معاملہ میں کہا ہے کہ خوراک کا حق زندگی کے حق کا ایک لازم ملزوم حصہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک مہذب معاشرے میں رہنے کے حق میں خوراک، صاف پانی، صاف ماحول، تعلیم، صحت اور رہائش کا حق شامل ہے ۔ سپریم کورٹ کی بات پر عمل کرتے ہوئے تمام ریاستی حکومتیں غذائیت اور خوراک کے حق کو حقیقت بنانے کی کوشش کریں ۔ تو ایک دن ہم ملک و قوم کے معماروں کے خوابوں کو حقیقی معنوں میں پورا کر سکیں گے ۔