عبدالمعین عبدالوہاب المدنی(ندوۃ السنۃ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی، اٹوا سدھارتھ نگر)
مملکت سعودی عرب ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے مختلف ممالک میں انسانی خدمات اور راحت رسانی کی بے نظیر مثالیں قائم کی ہیں، خواہ وہ آفتیں جنگوں کی شکل میں آئی ہوں یا سیلاب یا زلزلوں کی شکل میں آئی ہوں، بس سعودی عرب کا ایک ہی مقصد ہمیشہ مقدم رہا کہ پوری دنیا میں راحت رسانی کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کی جائے، اور بالفعل یہ چیز ماضی میں دیکھی گئی اور حال میں دیکھی جارہی ہے کہ تمام ترعرب اور غیر عرب ممالک میں مساجد اور علمی درسگاہوں کی تعمیر کئی ملین کی تعداد میں مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی نشرواشاعت کے ذریعہ اس ملک نے جو خدمات انجام دی ہیں انہیں اعداد وشمار میں نہیں لایا جاسکتا، مملکت سعودی عرب نے اپنے ان رفاہی کاموںکی انجام دہی کے لئے فرمان الٰہی (وتعاونوا علی البر والتقوی)کو اساس بنایا اور فرمان نبوی (المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا) کو پیش پیش رکھا، انسانی راحت رسانی کے باب میں مملکت سعود ی عرب کی ایک قدیم تاریخ رہی ہے جو خدمات انسانی سے بھری ہوئی ہے، چنانچہ ۱۹۵۰ءمیں جب پنجاب(پاکستان) میں سیلاب آیا تو اس وقت گرچہ سعود ی عرب کی آمدنی بہت محدود تھی تاہم مملکت سعودی عرب نے اپنے دست تعاون کو بڑھایا اور امداد کی بے نظیر مثال قائم کی، ۱۹۷۴ء میں سعودی فنڈ برائے ترقی کے نام سے ایک برانچ قائم کیا، جس میں صرف چار سالوں میں تقریباً ۵۵؍نمو پذیر ممالک شریک ہوئے، ۱۹۹۹ءمیں کوسوفو کی جنگ سے متاثرین کے لئے اور ۲۰۰۴ء میں سونامی کے متاثرین کے لیے بے مثال قربانیاں دیں ، ۲۰۰۸ء میں چین میں زلزلہ کے متاثرین کے لئے اپنے تعاون اور سخاوت کا دہانہ کھول دیا، چند دنوں قبل ترکی اور سوریا میں تباہ کن زلزلہ آیا، ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے ، فلک بوس عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں، لاکھوں خاندان بے گھر ہوگئے، تقریباً پچیس ہزار دو سو افراد اس زلزلہ میں لقمۂ اجل بنے اور ملبے تلے آج تک نہ جانے کتنی جانیں موت وحیات میں کراہ رہی ہیں ، ایسے وقت میں ان مصیبت ژدگان کی مدد کے لئے تقریبا ۷۰؍ ممالک نے قدم بڑھایا ہے، جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے، تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ملک نے تعاون وامدادکے باب میں جو تاریخ رقم کیاہے اسے بھلایا نہیں جاسکتاہے، اس نے بیرونی امداد کو منظم کرنے کے لئے ایک خاص ریلیف سینٹر King Salman Humanitarianقائم کیاہے جس کے ذریعہ اب تک ۶۲؍ملین ریال کا تعاون دیاجاچکاہے، اس سینٹر نے ترکی اور سوریا میں زلزلہ کی بھیانک تباہی کے بعد سعودی پبلک کو نعرہ دیا، کہ آپ کی عطیات ان کی مصیبتوں کو ہلکا کریں گی، دوسری طرف سعودی وزیر برائے اسلامی امور نے سرکلر جاری کیا کہ تمام خطباء مساجد میں ۱۰؍فروری ۲۰۲۳ء خطبہ جمعہ میں حاضرین کو ترکی اور شام کی مصیبت ژدگان کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کو یاد دلائیں اور دعا کریں نیز ’’ساہم‘‘ پلیٹ فارم اپنا مالی عطیہ ان کے لئے پیش کریں ، اللہ کی توفیق سے ان کوششوں کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اسی طرح اس مملکت نے متاثرین کی راحت رسانی کے لئے فضائی پل تشکیل دیا، اور بری راستوں سے بھی امداد بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا، غذائی اجناس، بستر، لباس، خیمے، دوائیاں اور انسانی ضروریات کی دیگر چیزیں انہیںفراہم کررہاہے، خدمت انسانی کے باب میں سعودی عرب ایساواحد ملک ہے جو بلاختلاف مذہب ومسلک صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر تعاون دینے میں پیش پیش رہتاہے، یہ ملک اور وہاں کے باشندے اس خیراتی ذہنیت اور خدمات انسانی کے جذبات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے خیر کثیر سے نوازے گئے ہیں، جس میں سب سے بڑی دولت توحید کی دولت ہے، یہ توحید ہی کی برکتیں ہیں کہ آج ساری دنیا ان سے مستفید ہورہی ہیں، مرکز الملک سلمان للاغاثہ سعودی عرب کا ایسا رفاہی سنٹر ہے جہاں کروڑوں نہیں عربوں کی تعداد میں مختلف ممالک کے لوگ مختلف پروجکٹوں سے مستفید ہورہے ہیں ، اس کے علاوہ بھی اس ملک میں متعدد خیراتی ادارے ہیں جہاں سے پوری دنیا کو یہ ملک مسلسل فائدہ پہنچا رہاہے، یہ اللہ کا بڑا فضل اور احسان رہاہے کہ اس نے اس مبارک ملک کو دنیا بھر کے ضرورت مندوں کو اور متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ایک پیشوا بنایا، یہ ملک جہاں بھی کسی بھی صورت میں عام مسلمانوں اور انسانوں کو مصائب وآلام میں پاتی ہے ان کی مدد میں پہنچ جاتی ہے یہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے کہ سعودی مملکت باہمی ہمدردی ،شفقت ومحبت، اور دوستی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوموں کی مدد کرتی ہے۔
دراصل ترکیہ اور شام میں تباہی اور مصائب کا پیمانہ ناقابل تصور ہے، زلزلے کی شدت پانچ سو بم سے زیادہ بتائی جارہی ہے، اب تک کی اطلاع کے مطابق ۲۶ ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوچکی ہے، مشکل کی اس گھڑی میں تمام عالمی برادری کا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہر قسم کی مذہبی سیاسی، اور جغرافیائی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر زلزلہ ژدگان کی امداد کے لئے سامنے آئیں یقینا بہت سے ممالک اور خیراتی اداروں نے اپنی حیثیت کے مطابق تعاون بھی پیش کیاہے، تاہم عرب ریاستوں خصوصا سعودی عرب کی انسانیت نوازی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیاہے، وہیں مغرب کا اصل چہرہ بھی دنیا کے سامنے آچکاہے، جو خود کو انسانیت نوازی کا علمبردار تو بتاتاہے مگر برے وقت میں انسانوں کے کام نہیں آتا، اس زلزلے نے ثابت کردیا کہ مغرب تعمیر سے زیادہ تباہی اور جنگ میں دلچسپی رکھتاہے، یورپ سمیت درجنوں ایسے ممالک ہیں جنہوںنے اس آفت کے وقوع پذیر ہونے کے تین دن بعد سرچ اینڈ ریسکیو کیمپ بھیجی ہیں جب کہ تلاش اور بچاؤ کا عمل سست پڑ چکاہے اور لاشوں کی بازیابی کی امید ختم ہورہی ہے، انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ جس کام میں فوری امداد کی ضرورت تھی اس میں تاخیر انسانیت کو شرمسار کررہی ہے۔ اے اللہ تو ان مصیبت ژدگان کی مدد فرما، اور ان پر اپنی رحمت خاص کی بارش فرما۔