18.1 C
Delhi
فروری 11, 2025
Samaj News

غیب پر ایمان

پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

ایمان کے کل چھ ارکان ہیں ان میں سے کچھ کو بعض اہل ایمان نے کسی حد تک دیکھا اور سمجھا اور ایمان لے آئے۔ جب کہ اکثر کا تعلق امور غیب سے ہے۔ ہر مرد مومن ان ارکان پر غیبی ایمان رکھتا ہے کیوں کہ زبان سے لاالہ الا اللہ ادا کردینا ناکافی ہے؛ بلکہ اس کے معانی و مفاہیم سمیت ایمان لانے، ارکان و شروط کو تسلیم کرنے اور ان کے تمام مقتضیات پر عمل کرنے سے ہی ایک صاحب ایمان حقیقی مومن بنتا ہے۔
غیب کی لغوی تعریف : غیب کا معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ۔(المنجد، 892)
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غیب مصدر ہے سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا۔ کل غائب عن الحاسة وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب.یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یؤمنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ ﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے، ﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یؤمنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جاسکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں۔ (مفردات راغب : 367)
ذات باری تعالیٰ اس کی الوہیت، ربوبیت اور اس کے تمام بہترین ناموں اور اوصاف پر ایمان لانا ایک مومن کی مومنانہ شان اور اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان کی پختہ دلیل اور کلید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم سب سے بالاتر ہے ہر چیز کا علم اللہ رب العالمین کو ہے وہ سمیع، بصیر، علیم، خبیر نيز علیم بذات الصدور، علام الغیوب، عالم الغیب والشہادہ ہے، یعنی وه ايسي ذات ہے جو دور و نزدیک کی باتوں کو سنتا ہے، ظاہر وباطن کو دیکھتا ہے، کم اور زیادہ کو جانتا ہے، انسانوں کے دلوں کے احوال و کیفیات سے باخبر ہے، کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہے، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، کائنات کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں ہے یہی اس کے کائنات کی تمام چیزوں کے خالق اور مالک، حاکم اور معبود حقیقی ہونے کی واضح اور صریح دلیل ہے فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِي السَّمَآءِ۔(یونس: 61)ترجمہ: آسمان وزمین کا کوئی ذرہ تمھارے رب کے علم سے باہر نہیں۔
باری تعالیٰ کے علم کا احاطہ انسانی عقل کی دسترس اور وسعت میں بالکل نہیں ہے، اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں کئی سو مقامات پر مختلف صیغوں کے ذریعے اپنے غیبی علم کی حقیقت اور حیثیت کا اعتراف کیا ہے جس سے ایک سنجیدہ اور انصاف پسند انسان بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالی کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔اس ذات پر ایمان کو باری تعالیٰ نے خود مومنین کا نمایاں وصف بتلایا ہے فرمان باری ہے۔
ٱلَّذِینَ یُؤۡمِنُونَ بِٱلۡغَیۡبِ وَیُقِیمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَـٰهُمۡ یُنفِقُونَ﴾ [البقرة ٣)ترجمہ: یہ متقیوں پرہیزگاروں کی صفت ہے کہ وہ غیب کی بات پر ایمان لاتے ہیں نمازیں قائم کرتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی روزیوں میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔گویا ایمان کہتے ہیں دل سے اقرار کے ساتھ بندہ اعمال و حرکات سے اس کی تصدیق کرے دل سے جس بات کو سچ اور برحق مانے۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے کہا اولیٰ یہ ہے کہ وہ لوگ ایمان بالغیب کے ساتھ قول، اعتقاد اور عمل سے متصف ہیں۔ کبھی اللہ کا ڈر بھی ایمان کے معنیٰ میں داخل وشامل ہوتا ہے۔یعنی اس ایمان میں جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ قول کی تصدیق عمل سے کرے۔ایمان ایک ایسا جامع حکم ہے کہ اس میں اللہ رب العالمین کی ذات سمیت تمام آسمانی کتابیں، اللہ کے فرشتوں پر ایمان، تمام انبیاء کرام اور رسولوں کی تصدیق اور بالفعل اقرار واعتراف اور ایمان نیز اچھی اور بری تقدیر پر ایمان بھی شامل ہے۔قرآن مجید میں وارد مختلف آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ غیب کا علم نہ کسی نبی اور رسول کو ہے اور نہ ہی کسی مقرب فرشتے کو بلکہ اللہ رب العالمین ہی غیب کے علم سے متصف ہے جیسا کہ فرمان باری ہے ۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّـٰهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (65)ترجمہ : (اے نبی)کہہ دیجئے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمینوں میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا، اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔نیز نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ فرمائیے:
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِىْ خَزَآئِنُ اللّـٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّـىْ مَلَكٌ ۖ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَىَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْـرُ ۚ اَفَلَا تَتَفَكَّـرُوْنَ (50)ترجمہ: (اے نبی) کہہ دو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے، کہہ دو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں، کیا تم غور نہیں کرتے؟
غیب کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ لَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي غَدٍ وَلَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي الْأَرْحَامِ وَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ وَمَا يَدْرِي أَحَدٌ مَتَى يَجِيءُ الْمَطَرُ.(صحیح بخاری: 1039)ترجمہ: صحابی رسول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے کل کیا کرنا ہوگا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔قرآنی آیات اور حدیث مذکور سے واضح ہے کہ علم غیب اللہ رب العالمین کے پاس ہے، اس کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں ہے، پھر جو شخص ایمان لانے کے بعد باری تعالیٰ کی ذات سے علم غیب کی نفی کرتا ہے یا اس کے علم غیب کو کسی نبی، ولی، پیر یا بزرگ کی ذات سے جوڑتا ہے؛ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دائرہ ایمان سے خارج اور مذہب اسلام سے دور یعنی کافر ہے۔ مزید جو لوگ نجومیوں اور پنڈتوں سے غیب کی خبریں معلوم کرتے ہیں اور ان کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ان کے پاس غیب کی خبریں ہیں ان کا ایمان بھی متزلزل ہے اور ایسے لوگوں کے اس اعتقاد کی وجہ سے وہ کفر کے شکار ہوں گے۔ آیت شریفہ ہے ’’اِنَّ اللّٰہَ عِندَہُ عِلمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الغَیثَ وَیَعلَمُ مَا فِی الاَرحَامِ وَمَاتَدرِی نَفس مَّاذَا تَکسِبُ غَدًا وَمَا تَدرِی نَفس بِاَیٍِ اَرضٍ تَمُوتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم خَبِیر‘‘ (لقمان:34 )آیت شریفہ میں جہاں قیامت کے قائم ہونے کی خبر ہے وہیں اس چیز کی وضاحت بھی موجود ہے کہ قیامت قائم ہونے کا علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے ( کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرور فلاں وقت بارش ہو جائے گی) صرف وہی جانتا ہے کہ عورت کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی، نیک بخت ہے یا بدبخت، صاحب ایمان ہے یا کافر اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔” قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔ اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن، نجومی، پنڈت، ڈھونگی بابا کو۔ اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔ اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔
قول حق:غیب پر ایمان کے متعلق بعض مسالک کے عقیدہ میں خلل ہے وہ اللہ اور رسول دونوں کو غیب کے علم سے متصف تسلیم کرتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقی اور کل کائنات اور اس میں موجود اشیاء کے متعلق سارا علم صرف باری تعالیٰ کو ہے البتہ بعض مسائل کے متعلق اللہ رب العالمین اپنے رسولوں اور نبیوں یا مقرب بندوں کو باخبر کر دیتا ہے جس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب جانتے تھے۔
غیب کے متعلق بعض علماء کے اقوال:
(1)علامہ قاضی عیاض رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں: (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا ﷲ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول._
ترجمہ: رسول الله صلی الله تعالی عليہ وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر اللہ کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسول کے۔(نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب ۳ ؍۱۵۰)
سعودی دائمی فتویٰ کميٹی:
علم غیب اللہ کا خاصہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ } (النمل۲۷-۶۵)’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔
رسول کو حاصل ہونے والے اس علم میں وہ وحی بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور قرآن بھی اس وحی کا حصہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا سابقہ انبیاء ورسل علیہ السلام سے بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ لیکن ان کا علم ذاتی نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں خبر دیتا ہے۔نصوص سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر غیب کاعلم دے دیا ہے۔ بلکہ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اللہ نے چاہا اس قدر غیبی معلومات انہیں بتادیں۔ (دائمی فتوی کمیٹی سعودی عرب۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۷۴۴۳)
علم غیب کے متعلق صحیح منہج و عقیدہ:کائنات میں موجود اشیاء کے متعلق حقیقی علم اللہ رب العالمین کو ہے۔ البتہ بعض اوقات اگر اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کو باخبر کردیا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ نعوذ باللہ آپ علم غیب جانتے تھے بلکہ آپ کے علم غیب کو عطائی تسلیم کرنا چاہئے اور یہ درست ہے. اور الله رب العالمین اور رسول الله کے علم میں کوئی برابری نہیں، سارے جہان کا علم الله کے علم کے آگے ہے ایک قطرہ برابر بھی نہیں ہے۔ نیز نبی صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب کہنا منع ہے۔ آپ کو عالم الغیب کہنے والا شخص کافر ہے۔
آخری بات:سطور بالا سے یہ معلوم اور واضح ہوا کہ غیب کا علم اللہ رب العالمین کو ہے اس میں کوئی ساتھی اور شریک نہیں ہے۔ اللہ اور رسول کے مقام میں فرق ہے ہمیں ہر ایک کو اس کا جائز مقام عطاء کرنے ان کے حقوق جاننے اور سمجھنے کے ساتھ ان پر عمل کرنا چاہئے۔ باری تعالیٰ توفیق ارزانی نصیب کرے۔ آمین

Related posts

قومی سیاست میں اترے چندر شیکھر راؤ

www.samajnews.in

یوم جمہوریہ: یوم تشکر بھی، یوم احتساب بھی

www.samajnews.in

ملک بھر میں عیدمیلادالنبیﷺ کی رونق

www.samajnews.in