Samaj News

تلاوت قرآن کے احکام

پرویز یعقوب مدنی

خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

 قران کریم سب سے باعزت کلام اور سب سے عظیم کلام ہے اسی لیے اللہ رب العالمین نے اس کے بارے میں کچھ خاص احکام نازل فرمائے ہیں جن سے اس کا شرف اور اس کا مقام ظاہر ہوتا ہے۔ یہ احکام درج ذیل ہیں:
نمبر ایک :حدث والے شخص کیلئے خواہ اصغر ہو یا اکبر بغیر کسی آڑ کے مصحف چھونا حرام ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو ابن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جو خط لکھا تھا اس خط میں یہ فرمان تھا: أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ . قرآن مجید کو صرف پاک شخص ہی چھوئے۔ مصحف قرآن مجید کے پورے مجموعہ کو کہا جاتا ہے جس میں اس کی جلد اور حاشیہ وغیرہ سب اس میں شامل ہے۔ اسی طرح سے حدث والے شخص کے لیے مصحف کا کوئی حصہ چھونا جائز نہیں ہے اگرچہ ایک الگ علیحدہ ورقہ ہی ہو البتہ حدث والے شخص کے لئے کسی آڑ کے ذریعہ قرآن مجید کو چھونا جائز ہے جیسے کہ دستانے وغیرہ۔وہ شخص جو مصحف چھوئے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ بھی طاہر یعنی  با وضو ہو۔ کیونکہ مہاجر بن قنفذ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں سلام کیا کہ آپ پیشاب کر رہے تھے تو آپ نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آپ نے وضو کر لیا پھر آپ نے جواب دیا اور کہا:  إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا عَلَى طَهَارَةٍ ۔(رواہ ابوداؤد)سلام کا جواب دینے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالی کا ذکر طہارت کے بغیر کروں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر وضو کے سلام کا جواب دینا ناپسند کیا تو پھر تلاوت کرنے کا حکم کیا ہوگا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
نمبر دو: تلاوت قرآن کے وقت مسواک کرنا افضل ہے۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ العبدَ إذا تَسَوَّكَ ثُمَّ قامَ يصلِّي ، قامَ المَلَكُ خلفَهُ ، فيستمعَ لقراءَتِه ، فَيَدْنُو مِنْهُ حتى يَضَعَ فَاهُ على فيهِ ، فما يخرجُ من فيهِ شيءٌ مِنَ القرآنِ إلَّا صارَ في جَوْفِ المَلَكِ ، فَطَهِّرُوا أَفْوَاهَكُمْ لِلْقُرْآنِ (رواہ البزار )’’بندہ جب مسواک کر کے نماز پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی قرأت سنتا رہتا ہے، پھر وہ فرشتہ اس کے بالکل قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس پڑھنے والے کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتا ہے اور وہ نمازی قرآن کا جو حرف بھی پڑھتا ہے وہ فرشتہ کے پیٹ میں چلا جاتا ہے، پس تم قرآن پڑھنے کے لیے اپنے منہ کو صاف رکھا کرو‘‘۔
نمبر تین:مصحف یا اس کا کچھ حصہ جیسے کہ اس کا ایک پارہ یا اس کا ایک ورق بیت الخلاء میں داخل کرنا حرام ہے کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور یہ سب سے افضل کلام ہے اور بیت الخلاء میں اس کا داخل کرنا یہ اس کے اکرام اور تکریم کے منافی ہے سوائے اس کے کہ کسی ایسی خرابی کا اندیشہ ہو جو اس کے بیت الخلاء میں لے جانے کی خرابی سے بڑھ کر ہو جیسے کہ مصحف کا کسی ایسے کافر کے ہاتھ میں چلا جانا جو اس کی توہین کرے یا اس کی چوری اور غائب ہو جانے کا خوف وغیرہ۔موبائل میں موجود قرآن کے ساتھ یا اس کے علاوہ دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز یا سافٹ ویئر میں موجود قرآن مجید کے ساتھ بیت الخلاء میں داخل ہونا درست اور جائز ہے بشرطیکہ مصحف بند ہو کھلا نہ ہو۔ اگر قرآن مجید ڈیوائس میں کھلا رہے تو اس کا بھی حکم وہی ہوگا جو بیت الخلاء میں قرآن مجید لے جانے کا حکم ہے۔
نمبر چار:قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کا ارادہ کرے تو وہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ} [النحل : 98] جب تم قرآن مجید پڑھو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ طلب کر لیا کرو۔رہی بات بسم اللہ کی تو اگر شروع سورۃ سے تلاوت کا آغاز ہو رہا ہے تو اس کے لیے استعاذہ یعنی اعوذباللہ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا مستحب ہے البتہ اس حکم سے سورہ توبہ جسے سورہ براءۃ بھی کہتے ہیں مستثنی ہے کیونکہ اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے اور اگر درمیان سورت سے پڑھ رہا ہے تو محض استعاذہ یعنی اعوذ باللہ پڑھنا کافی رہے گا بسم اللہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نمبر پانچ :تلاوت قرآن کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت کے وقت سجدہ بھی کرے جن میں سجدہ تلاوت موجود ہے خواہ وہ نماز کے دوران ہو یا نماز کے باہر ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ’’صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ فَقَرَأَ : { إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ } فَسَجَدَ فَقُلْتُ : مَا هَذِهِ ؟ قَالَ سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا أَزَالُ أَسْجُدُ فِيهَا حَتَّى أَلْقَاهُ‘‘۔  میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو آپ نے سورہ اذا انشقت تلاوت کی پھر سجدہ کیا تو میں نے کہا یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس آیت پر سجدہ کیا ہے تو میں برابر اس پہ سجدہ کرتا رہتا ہوں یہاں تک کہ میں آخرت میں آپ سے ملاقات کروں۔
جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، فَنَزْدَحِمُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا لِجَبْهَتِهِ مَوْضِعًا يَسْجُدُ عَلَيْهِ.  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تلاوت والی آیت پڑھتے تھے اس حال میں کہ ہم آپ کے پاس ہوتے تو آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ازدحام کی صورت ہوجاتی اور ہم میں سے کوئی اپنا سر رکھنے کے لیے جگہ نہیں پاتا جہاں پر وہ سجدہ کر سکے۔تلاوت سننے والے کے حق میں بھی سجدۂ تلاوت کرنا سنت ہے اس سے مراد وہ آدمی ہے جو قاری کے سامنے خاموش رہتا ہے جب قرآن مجید کا قاری سجدہ کرے اور سننے والا اس سے قریب ہو تو اس کے لیے مسنون ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ سجدہ کرے کیونکہ صحابہ کرام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا کرتے تھے جیسے کہ ابھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت گزری اور اس میں اس کا تذکرہ موجود ہے کہ آپ سجدہ کرتے تھے اور ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔اگر قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا سجدہ نہ کرے تو سننے والا بھی سجدہ نہیں کرے گا کیونکہ سننے والا سجدۂ تلاوت میں قاری کے تابع ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر جب انسان ریڈیو وغیرہ پر تلاوت سنے اور سجدۂ تلاوت سے گزرے تو سننے والا سجدہ نہیں کرے گا کیونکہ سننے والا شخص اسی وقت اسے ادا کرے گا جب قاری سجدہ کرے اور اس سے قریب ہو اور ریڈیو ٹیلی ویژن وغیرہ پر سننے کی صورت میں قاری موجود نہیں ہوتا ہے۔
سجدۂ تلاوت کی فضیلت میں کئی روایات موجود ہیں جن میں سے ایک روایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ، فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي يَقُولُ : يَا وَيْلَهُ "، أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ، فَسَجَدَ، فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ، فَأَبَيْتُ، فَلِي النَّارُ ‘‘(رواہ مسلم)جب ابن ادم سجدہ تلاوت والی آیت پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے ہائے بربادی ہائے تباہی ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کرلیا اور اس کو جنت ملے گی اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا میں نے انکار کردیا تو مجھے دوزخ ملے گی۔
سجدۂ تلاوت کا طریقۂ کار یہ ہے کہ انسان ایک سجدہ کرے گا اور سجدے میں جاتے وقت اللہ اکبر کہے گا البتہ سجدے سے اٹھتے وقت اللہ اکبر نہیں کرے گا سوائے اس کے کہ سجدۂ تلاوت نماز کے دوران ہو ایسی صورت میں سجدہ میں جاتے وقت بھی اللہ اکبر کہے گا اور سجدے سے اٹھتے وقت بھی اللہ اکبر کہے گا کیونکہ کیفیت نماز کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیثیں عام ہیں کہ آپ نماز کے دوران جب بھی جھکتے یا اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے تھے اور سجدۂ تلاوت میں بھی انسان سبحان ربی الاعلی کہے گا جیسے کہ نمازوں کے سجدے میں کہتا تھا اسی طرح سے وہ یہ دعا بھی پڑھ سکتا ہے: ’’ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ ‘‘( رواہ الترمذی )ایک دعا یہ بھی ہے: ” اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ‘‘(رواہ الترمذی)سجدۂ تلاوت نماز نہیں ہے چنانچہ اس کے لیے نماز کے شرائط پوری کرنا ضروری نہیں ہے مثلاً وضو کرنا استقبال قبلہ اور ستر پوشی وغیرہ گرچہ نماز کے شروط کی رعایت کرنا بہتر ہے۔لوگو! اللہ تعالی تمہیں توفیق دے تلاوت قرآن کے احکام کی رعایت کرنے کی حریص بنو آداب تلاوت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کا یہ وہ کلام ہے جس کے سامنے سے یا پیچھے سے باطل کا گزر نہیں ہوتا اور یہ حکیم و حمید کی جانب سے نازل شدہ ہے ۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین

Related posts

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

www.samajnews.in

اعظم خان کو 3 سال کی سزا

www.samajnews.in

ازدواجی، صحت اور تعلیمی شعبوں میں ضرورتمندوں کو غیر متزلزل مدد فراہم کرنے کا عہد کرتی ہیں عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ

www.samajnews.in