23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

زکوٰۃ کا حکم اور وجوب زکوٰۃ کے شرائط

پرویز یعقوب مدنی

خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

زکوۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے شہادتین کے اقرار اور نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ} [البقرة : 43]اور نماز ادا کیا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو۔دوسری جگہ فرماتا ہے: {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا} [التوبة : 103] ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کرلو کہ اس سے تم ان کو پاک اور پاکیزہ کرتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ "(متفق علیہ )اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اسی طرح سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجا تو انھیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ‘‘(متفق علیہ) تم انہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ اس کی اطاعت کریں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان کے اوپر ہر دن رات میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے اگر وہ بھی مان لیں تو تم انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان کے اوپر ان کے مال میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر لوٹا دیا جائے گا۔ زکوۃ کے وجوب پر پورے مسلمانوں کا اجماع ہے، جو شخص وجوب زکوۃ کا انکار کرے اور بلد اسلام میں پیدا ہوا ہو تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے کتاب اللہ، سنت نبوی اور اجماع امت کا انکار کیا و جھٹلایا ہے۔ اور جو شخص جہالت و نادانی کی بنا پر اس کے وجود کا انکار کرے اور ایسے لوگوں میں سے ہو جو نئے نئے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے یا پھر دور دراز کے دیہات میں بسنے کی وجہ سے اتنی بڑی بات سے ناواقف رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اس کے وجوب کے بارے میں بتلایا جائے گا اور تعلیم دی جائے گی اس کے کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا کیونکہ جہالت کی بنا پر وہ معذور ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: {وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا} [الإسراء : 15]اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔ پھر اگر وہ اس کے انکار پر بتلائے جانے اور جان لینے کے بعد بھی اصرار کرے تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔
البتہ ایسا شخص جو وجوب کا تو اعتقاد رکھتا ہو مگر بخیلی اور کنجوسی کی وجہ سے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کرے تو وہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑے گناہ کا مرتکب ہوگا اور ایسے شخص کے بارے میں بڑی شدید وعید آئی ہے جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ، وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا ؛ إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ، وَجَبِينُهُ، وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ ؛ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ‘‘ (رواہ مسلم) ہر وہ شخص جس کے پاس سونا اور چاندی ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو جب قیامت کے دن آئے گا تو اس کے لیے آگ کے برتن تیار کیے جائیں گے اور اس کو جہنم کی آگ سے گرمایا جائے گا پھر اسی سے اس کا پہلو اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی جب جب وہ ٹھنڈا ہو جائے گا اسے دوبارہ داغا جائے گا دوبارہ گرم کیا جائے گا ایسے دن جس کی مقدار اور جس کی طوالت 50 ہزار سال ہوگی یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے اور وہ یا تو جنت میں یا جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے۔یعنی کنجوسی و بخیلی کی بنا پر عدم ادائیگی اسے اسلام سے خارج نہیں کرتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا کہ وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا یا تو جنت یا تو جہنم میں، مطلب اگر وہ کافر ہو گیا ہوتا تو پھر جنت جانے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ایسی صورت میں حاکم وقت ایسے شخص سے زبردستی زکوۃ وصول لے گا اور زکوۃ نہ دینے پر اس کو تعزیری طور پر ایسی سزا دے گا جس سے اس کے اندر خوف پیدا ہو۔
یہ زکوۃ بڑے عظیم مصلحتوں اور بڑے اچھے ہداف کی خاطر مشروع کی گئی ہے جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
نمبر ایک :جب اللہ تعالی اپنے بندے کو مال کی نعمت سے نوازتا ہے تو ایک بندۂ مومن زکوۃ ادا کرکے اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرتا ہے، زکوٰۃ کے ذریعہ اللہ تعالی کی اطاعت ہوتی ہے اور اس کے احکام کی بجاآوری ہوتی ہے۔
نمبر دو :اس زکوۃ کے ذریعہ مال کو پاک کیا جاتا ہے اور اس میں بڑھوتری کی جاتی ہے زکوۃ کے ذریعہ برکت نازل ہوتی ہے اور آفات و فساد سے مال محفوظ رہتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما نقصت صدقۃ من مال رواہ مسلم صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا۔
نمبر تین :زکوۃ کے ذریعے زکوۃ دینے والا شخص بخیلی اور لالچ سے پاک کردیا جاتا ہے اور اسے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا تجربہ اور ٹریننگ حاصل ہوتی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا} [التوبة : 103]ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو پاک اور پاکیزہ کرتے ہو۔
نمبر چار: اس زکوۃ میں فقراء کی خاطرداری اور ہمدردی ہے اسی طرح سے محتاجوں ضرورت مندوں اور نہ مانگ پانے والوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔
نمبر پانچ:اس میں معاشرے کے افراد کے درمیان محبت، تعاون اور اجتماعی کفالت جیسے بڑے اہداف متحقق ہوتے ہیں ایک مالدار شخص جب اپنے فقیر بھائی کو اپنے مال کی زکوۃ دیتا ہے تو وہ اس کے ذریعہ اس ممکنہ عداوت و حسد کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے جس کی تمنا اس محتاج کے دل میں پیدا ہوسکتی تھی۔ محتاج آدمی کے دل میں دوسرے مالدار بھائی کی مالداری کی نعمت ختم ہونے کی تمنا نہیں رہ جاتی اور اس طرح سے معاشرہ کینہ و حسد سے پاک ہو جاتا ہے اور امن و امان قائم ہوتا ہے۔
نمبر چھ: اس سے زکوۃ دینے والے کے ایمان کی سچائی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ نفس کو محبوب مال وہی شخص نکال سکتا اور ایسے ہی راستے میں خرچ کر سکتا ہے جس راہ سے اس کی محبت مال سے بھی زیادہ ہو اسی لیے صدقہ کو صدقہ کہا جاتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا شخص اللہ تعالی کی محبت اور اس کی رضا کی طلب میں سچا ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصدقۃ برھان رواہ مسلم صدقہ حجت اور برہان و دلیل ہے۔معنی یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کے ایمان پر یہ صدقہ دلیل ہوتا ہے چنانچہ جو شخص صدقہ کرتا ہے اس کے صدقے کے ذریعے اس کے ایمان کی سچائی پر دلیل پکڑی جائے گی.
نمبر سات: یہ صدقہ رب کی رضا کا حصول اور بھلائیوں کے نزول کا سبب ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا (رواہ ابن ماجہ)یہ لوگ جب اپنے مال میں سے زکوۃ دینا منع کردیں گے تو آسمان سے بارش کے قطرے روک دیے جائیں گے اور اگر یہ چوپائے نہ ہوں تو سرے سے بارش ہی نہ کی جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب انسان اپنے مال میں زکوۃ نکالے گا تو آسمان سے بارش کے قطرات نہیں روکے جائیں گے۔
نمبر آٹھ :یہ زکوۃ گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کی مشہور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ (رواہ الترمذی) صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے جیسے کہ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے فوائد اور بہت ساری حکمتیں ہیں جو زکوۃ کی ادائیگی سے حاصل ہوتے ہیں۔یہ زکوۃ ایسے شخص پر واجب ہوتی ہے جس میں درج ذیل شرائط پائے جائیں:
نمبر ایک:اسلام چنانچہ یہ زکوۃ کسی کافر پر واجب نہیں ہوتی کیونکہ یہ مالی عبادت ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ تعالی سے قریب ہوتا ہے اور کافر شخص سے عبادت قبول نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ} [التوبة : 54]اور ان کے خرچ (اموال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوا اس کے انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا۔ ظاہر ہے کہ جب انسان ایسا ہو کہ اس کی زکوۃ اور اس کا صدقہ قبول نہ کیا جائے تو پھر زکوۃ لازم کرنے سے کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔
نمبر دو: آزادی یہ زکوۃ کسی غلام پر واجب نہیں ہوتی کیونکہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اور اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے آقا کی ملکیت ہوتی ہے۔
نمبر تین: نصاب زکوۃ کا مستقل مالک ہونا ملکیت نصاب کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ ‘‘ (متفق علیہ) پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اسی طرح سے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوۃ واجب نہیں ہے۔چونکہ یہ زکوۃ فقراء کی ہمدردی اور مواسات کے لیے واجب ہوتی ہے اس لیے ایسے نصاب کی ملکیت کا اعتبار کیا جانا ضروری ہے جسے معاشرہ میں مالداری کے لیے معتبر تسلیم کیا جاتا ہو۔ چنانچہ زکوۃ ایسے مال میں واجب نہیں ہوگی جو مال خیر کے راستوں میں وصیت کر دیا گیا ہو یا جسے مسجد وغیرہ بنانے کے لیے چندہ دے دیا گیا ہو کیونکہ یہ مال کسی ایک کی ملکیت نہیں ہوتا۔ مستقل ملکیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت کامل اور مکمل ہو کیونکہ ناقص ملکیت نعمت کاملہ میں شمار نہیں ہوتی جب کہ زکوۃ نعمت کاملہ کے مقابلے میں واجب ہوتی ہے۔ اور ملکیت تامہ اس چیز پر بولی جاتی ہے جو مکمل طور انسان کے اپنے ہاتھ اور اختیار میں ہو اس میں کسی غیر کا حق متعلق نہ ہو۔ اس میں تصرف کا اسے کلی اختیار ہو اور اس کے فوائد اسی کو حاصل ہوتے ہوں۔
نمبر چار:حولان حول یعنی مال پر ایک سال کا گزر جانا اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک کی ملکیت میں جو نصاب کو پہنچا ہوا مال ہے اس پر پورے 12 قمری مہینے گزر جائیں. جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ(رواہ ابوداؤد)کسی بھی مال میں زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر ایک سال گزر جائے۔ حولان حول یعنی سال گزرنے کی یہ شرط چوپایوں، اشیاء تجارت اور نقدی یعنی سونے چاندی اور کرنسی کے لئے خاص ہے۔ البتہ زرعی پیداوار اناج اور پھل وغیرہ کے لیے سال کا گزرنا شرط نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {و آتوا حقه يوم حصاده} (سورہ انعام: 141) تم اس کا حق اس کے کاٹنے کے دن ہی ادا کر دو۔چرنے والے جانوروں کی اولاد اور تجارت کا منافع اگر یہ دونوں نصاب تک نہ پہنچیں تو ان دونوں کا سال ان دونوں کے اصل کے سال کے مطابق ہوگا کیونکہ اصل نصاب ہے۔

Related posts

صفہ ماڈل اسکول ششہنیاں کے زیر اہتمام پہلا دعوتی وتاریخی اجلاس عام بحسن وخوبی اختتام پذیر

www.samajnews.in

راجدھانی دہلی کو نہیں ملا میئر، پھر سوک سینٹر بنا اکھاڑا

www.samajnews.in

راہل گاندھی نے لال چوک پر لہرایا ترنگا

www.samajnews.in