پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب میں مستحقین زکوۃ کا بھی تذکرہ واضح کیا ہے اور یہ کل آٹھ قسمیں ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے سورہ توبہ کی ایک ہی آیت میں بیان کردیا ہے وہ آیت درج ذیل ہے:{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} [التوبة : 60]صدقات (یعنی زکوٰۃ وخیرات) تو مفلسوں، محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) اللہ کی طرف سے مقرر کر دئے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔ زکوۃ کو ان اقسام کے علاوہ کسی اور مد میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے مثال کے طور پر مساجد تعمیر کرنے میں، مدارس بنانے میں، میت کی تدفین میں، مصحف یعنی قرآن مجید وقف کرنے میں اور اس کے علاوہ جو بھی خیر کے جہات ہیں ان میں زکوۃ دینا درست نہیں ہے۔
اب ان مصارف زکوۃ کی جو آٹھ قسمیں ہیں ان کی تھوڑی سی تفصیل دیکھ لیتے ہیں:
نمبر ایک:
فقراء: لفظ فقراء فقیر کی جمع ہے اور فقیر ہر اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے اس کی ضرورت پوری ہوسکے اور ان تمام افراد کی ضرورت پوری ہوسکے جن کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ہے۔ جیسے: کھانا، پانی، کپڑا اور رہائش وغیرہ۔ بایں طور کہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ۔ یا اتنا ہو جو آدھے سال کفایت کرنے سے کم ہو۔ مثال کے طور پر کسی کو سال بھر میں بیس ہزار روپیوں کی ضرورت ہو اور وہ کچھ نہ پاسکے یا سال بھر کا خرچہ بیس ہزار ہے اور اس کی آمدنی محض پانچ ہزار روپے ہے۔ تو پورے سال کی کفالت کرنے کے لیے اس کو زکوۃ دی جائے گی۔
نمبر دو:
مساکین:یہ مسکین کی جمع ہے اور مسکین اس آدمی کو کہتے ہیں جس کی حالت فقیر سے اچھی ہو یعنی مسکین وہ شخص ہے جو اپنی ضروری اخراجات کا اکثر حصہ پاجاتا ہے یا آدھا پا جاتا ہے مثال کے طور پر کسی کو سال بھر میں اخراجات کے لئے بیس ہزار کی ضرورت ہے اور وہ 15 ہزار کما کر پاجاتا ہے یا 10 ہزار پاتا ہے تو سال بھر خرچ پورا کرنے کے لیے اس کو زکوۃ دی جائے گی۔اسی طرح سے زکوۃ اس آدمی کو بھی دینا جائز ہے جس کو شادی کی خواہش ہو وہ شادی میں رغبت رکھتا ہو اگر وہ شادی کے ضروری اخراجات پورا نہ کر سکے چنانچہ اس کو اتنا مال دیا جائے گا جو معروف طریقے پر بغیر اسراف کے شادی کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔ کیونکہ شادی ان بنیادی ضرورتوں میں سے ہے جن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
نمبر تین:
زکوۃ وصول کرنے والے عاملین:عاملین سے مراد حصول زکوٰۃ میں بھاگ دوڑ کرنے والے لوگ ہیں جنہیں حاکم مالداروں سے زکوۃ لینے کے لیے بھیجتا ہے اور ان کے لیے بیت المال میں سے کوئی وظیفہ مقرر نہیں ہے تو اس میں زکوٰۃ وصولنے والے۔ اس کے حساب کتاب کی لکھا پڑی کرنے والے، اس کی نگرانی کرنے والے اور اس کو تقسیم کرنے والے سبھی شامل ہیں۔ چنانچہ حاکم اجرت کے مطابق ان کو دے دے گا اگرچہ وہ مالدار ہوں کیونکہ ان سبھی عاملین نے خود کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہے۔
نمبر چار:
مؤلفۃ القلوب:یعنی جن کے دل کو مطمئن کرنا مقصود ہو انھیں تالیف قلب کے لیے دیا جائے یہ وہ کافر لوگ ہوتے ہیں جنہیں زکوۃ دی جاتی ہے تاکہ اسلام پر ان کا دل مطمئن ہو جائے یا ایمان پر وہ ثابت قدم رہیں اگر وہ کمزور ایمان والے ہوں یا ان کے رشتہ داروں کو اسلام کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے دیا جائے۔یا ان کافر لوگوں کی مدد حاصل کرنا مقصود ہو یا ان کے شر سے بچنا مقصد ہو تو انہیں بھی زکوۃ دی جائے گی جس کے ذریعہ ضرورت کے وقت ان کی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔
نمبر پانچ
رقاب یعنی گردن آزاد کرانا: اس سے مراد وہ مسلمان غلام یا مسلم باندی ہے جسے زکوۃ کے مال سے خریدا جائے گا اور اس کو آزاد کر دیا جائے گا اسی طرح سے کوئی مسلمان قیدی ہے اس کو زکوۃ کے مال سے دشمنوں سے چھڑایا جائے گا کیونکہ اس میں بھی قید سے ایک گردن آزاد کیا جا رہا ہے۔
نمبر چھ :
غارمین یعنی مقروض لوگ: لفظ غارمین غارم کی جمع ہے اور یہ وہ شخص ہوتا ہے جس پر قرض واجب ہو اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: وہ قرضدار جو کسی جائز کام میں اپنے ضروری ذاتی و شخصی مسئلہ حل کے کرنے لیے قرض لے۔ مثال کے طور پر جو شخص اپنے کھانے پینے کے لیے یا گھریلو اخراجات کے لیے یا شادی کے لیے قرض لے یا کوئی ایسی چیز خریدنے کے لیے قرض لے جس کا محتاج ہو مثال کے طور پر رہائش یا معروف طریقے سے بغیر فضول خرچی کے گاڑی خریدنا یا پھر اس کے اوپر بجلی پانی وغیرہ کا بل واجب ہوتا ہے یا اس نے کوئی چیز غلطی سے نقصان کر دیا ہو یا پھر تجارت میں گھاٹا ہو گیا ہو جس کی بنا پر اس کو قرض لینا پڑا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو اس کو بھی زکوۃ میں سے رقم دی جائے گی تاکہ اس کے ذریعے اپنا قرض ادا کر سکے اگر وہ قرض ادا کرنے سے عاجز ہو۔
دوسری قسم آپسی صلح صفائی اور سمجھوتہ کے لیے قرض لینا: مثال کے طور پر دو قبیلوں کے درمیان یا دو گاؤں والوں کے درمیان مال یا خون وغیرہ کے سلسلے میں جھگڑا ہو جائے اور اس کی بنا پر کینہ و بغض آپس میں ابھر آئے تو جو شخص ان دونوں کے درمیان صلح کے لیے کوشش کرے گا اور صلح کرانے کے لیے اپنے ذمے میں کسی مال کی ضمانت لیتا ہے تو اس کو بھی زکوۃ سے اتنا دیا جائے گا جتنا اس نے قرض لیا ہے.
نمبر سات فی سبیل اللہ:اس سے مراد اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے افراد ہیں جو رضاکارانہ طور پر اس کے لیے جائیں اور جن کے لیے بیت المال سے کوئی وظیفہ متعین نہ ہو تو انھیں بھی زکوۃ دی جائے گی جو آلات حرب تیار کرنے کے لیے انھیں کافی ہو۔فی سبیل اللہ کے عموم میں کئی چیزیں داخل ہوتی ہیں مثلاََ اس فقیر کے لئے حج کے اخراجات میں زکوۃ خرچ کرنا جس نے اپنا فریضہ حج ادا نہ کیا ہو۔ ام معقل رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے کہا: ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً، وَإِنَّ لِأَبِي مَعْقِلٍ بَكْرًا . قَالَ أَبُو مَعْقِلٍ : صَدَقَتْ، جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ ؛ فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ-اے اللہ کے رسول میرے اوپر حج فرض ہے اور ابومعقل کے پاس ایک اونٹ ہے تو ابومعقل نے کہا کہ یہ سچ کہتی ہیں میں نے اسے جہاد کے لئے رکھ چھوڑا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے انھیں دے دو تاکہ اللہ کے راستے میں حج کر لیں کیوں کہ حج بھی اللہ کے راستے میں ہےاسی طرح جناب عبداللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہے اور صحابہ کرام میں ان دونوں کا کوئی مخالف موجود نہیں ہے۔البتہ نیکی کے دیگر کام اور دیگر راستے مثلا مسجدوں کی تعمیر علم دین کی نشر و اشاعت، اللہ کی طرف دعوت تبلیغ اور اس کے علاوہ اور دوسری چیزیں تو اکثر اہل علم کے نزدیک فی سبیل اللہ کے عموم میں یہ سب داخل نہیں ہیں۔
آٹھویں اور آخری چیز
ابن السبیل یعنی مسافر :جو مسافر اپنے شہر سے دور ہو اور اپنے شہر تک سفر جاری رکھنے کے لئے مال کا محتاج ہو یا کسی جگہ جانے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہاں پہنچنے سے پہلے ہی محتاج ہو جائے تو اس کو اتنا مال دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے مطلوبہ شہر تک پہنچ سکے جہاں تک اس نے جانے کا ارادہ کیا ہے یا جس سے وہ اپنے گھر واپس پہنچ سکے۔
جن لوگوں کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے: ان لوگوں کی کئی قسمیں ہیں نمبر ایک مالدار وغنی اور وہ طاقتور قوی لوگ جو نوکری یا ہنر وغیرہ کے ذریعے اتنا مال کمانے پر قادر ہوتے ہیں جو ان کے لیے کفایت کر جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ” ( رواہ ابوداؤد ) اس میں کسی مالدار کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ کسی ایسے تندرست قوی کے لیے حصہ ہے جو کمانے والا ہو۔ لیکن اس سلسلے میں مالدار ہونے کے باوجود جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا عامل جو زکوۃ وصول کرتا ہے اس کو دیا جائے گا اور ایسے قرضدار کو بھی زکوۃ کا مال دیا جائے گا جو صلح کی کوشش کررہا ہو اسی طرح سے جو رضاکارانہ طور پر جہاد کررہا ہو اگرچہ یہ لوگ مالدار ہوں۔
نسلاً اصول اور فروع (یعنی باپ دادا اور بیٹے پوتے وغیرہ) جن کا نفقہ اس پر واجب ہے چنانچہ ایسے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے جس کا نام نفقہ انسان کے اپنے اوپر واجب ہے مثال کے طور پر باپ اور ماں، دادا دادی وغیرہ اسی دن مذکر و مؤنث اولاد اور ان کی مذکر و مؤنث اولاداپنی بیوی کو بھی یہ زکوۃ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ ان لوگوں کو زکوۃ دینے سے اس نفقہ سے انسان بے نیاز ہو جائے گا جو اس کے اوپر واجب ہوتی ہے اور نفقہ اس سے ساقط ہو جائے گا چنانچہ زکوۃ کا مال اسی کے اوپر لوٹ کے آجائے گا گویا اس نے اپنے اپ کو خود ہی زکوۃ دے رکھی ہے۔البتہ جو شخص اصول و فروع کے نفقہ سے عاجز ہو اور وہ فقیر ہوں تو انہیں زکوۃ کا مال دینا جائز ہے کیونکہ ایسی صورت میں زکوۃ دینے والا انہیں زکوۃ دے کر اپنے مال میں اضافہ نہیں کرسکے گا کیونکہ ان کا نفقہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے تو اس کے پاس مال باقی نہیں بچے گا۔بیوی کے لیے اپنی زکوۃ اپنے شوہر کو دینا جائز ہے اگر شوہر مستحقین زکوۃ میں سے ہو تاکہ اس مال سے ان لوگوں کی کفالت کر سکے جن کا نفقہ اس کے اوپر واجب ہے کیونکہ شوہر کے اوپر خرچ کرنا بیوی کے اوپر واجب نہیں ہے۔
زکوۃ کا مال ان مستحقین زکوۃ کو دینا زیادہ بہتر ہے جو زکوۃ دینے والے کے رشتہ دار اور قرابت والے ہوں اور جن کا نان و نفقہ دینا اس کے اوپر واجب نہیں ہے چنانچہ سلمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ : صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ (رواہ النسائی) مسکین پر صدقہ کرنے سے ایک صدقہ کا اجر ہے اور رشتہ دار پر صدقہ کرنے سے دوہرا اجر ہے صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔
نمبر تین :ایسے کفار جن کی تالیف قلب مقصود نہ ہو چنانچہ زکوۃ کا مال ایسے کافروں کو دینا درست نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”- یہ زکوۃ مسلمانوں کے مالداروں سے لی جائے گے اور مسلمانوں کے فقیروں پر لوٹا دیا جائے گا اور اس بنا پر بھی کہ زکوۃ کے مقاصد میں سے ایک مقصد مسلم فقیروں کو مالدار بنانا، اور مسلم معاشرے کے افراد میں محبت و بھائی چارے کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔ہاں ایک کافر شخص کو عام صدقہ دیا جا سکتا ہے اور جائز ہے جب وہ حربی و محارب نہ ہو اور اس کی جانب سے مسلمانوں پر زیادتی نہ ہورہی ہو اللہ تعالی فرماتا ہے: {لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الممتحنة : 8]جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
نمبر چار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی اولاد اور ان کے غلام: ان کو زکوۃ دینا یا ان کے لئے زکوۃ کھانا جائز نہیں ہے۔ اس سے ان کا اکرام اور ان کی عزت مقصود ہے۔آل نبی میں بنوہاشم اور بنومطلب داخل ہیں اسی طرح سے یہ زکوۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اولاد کے غلاموں کے لیے بھی جائز نہیں ہے ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا، وَإِنَّ مَوَالِيَ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ صدقہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے اور انسان کے موالی (غلام) بھی انسان کے حکم میں داخل ہیں۔
موالی سے مراد وہ غلام ہیں جنہیں آزاد کر دیا گیا ہو۔من أنفسہم کا معنی ہوتا ہے کہ ان کا بھی حکم انہیں جیسا ہے۔چنانچہ جس شخص پر زکوۃ واجب ہو اس کے اوپر لازم ہے کہ احتیاط رکھے اور محتاط رہے مستحقین زکوۃ کو زکوۃ دیتے وقت ہوشیاری سے کام لے اس کو دینے میں سستی کاہلی نہ کرے اور ایسے لوگوں زکوٰۃ نہ دے دے جو اس کے مستحق نہ ہوں۔ غیرمستحق کو زکوٰۃ دینے کی صورت میں وہ اس کے لیے کافی نہیں ہو گی اور نہ ہی زکوۃ دینے کا فریضہ ادا ہوگا۔اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہمیں اپنے مالوں میں اس طریقہ کے مطابق زکوۃ دینے پر ہماری مدد کرے جس میں اس کی رضا ہو اور اللہ تعالی ہماری زکوۃ کو قبول کر لے اور ہمیں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین