عبدالمبین ندوی، دہلی
9فروری کی شام میرے لئے انتہائی غمناک ثابت ہوئی، شریک حیات کا طویل رفاقت اور طویل علالت کے بعد آج ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا ، اور رب حقیقی نے اپنے پاس بلا لیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون
1980میں موضع دھنہوراسدھارتھ نگر کے چچا حشم اللہ کی دوسری صاحبزادی (طلب النساء ) سے اس وقت شادی ہوئی جب میں ندوۃ العلماء میں پڑھ رہا تھا، اس کے بعد دارالمصنفین اعظم گڈھ میں سات سال ملازمت کی تو چندماہ ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا، اس کے بعد زیادہ حصہ بیتنار گاؤں میں رہیں، پورے ۱۰ بچے گاؤں میں پیدا ہونے چار بیٹے اور چار بیٹیاں بحیات ہیں اور دو بیٹے پیٹ میں فوت ہوگئے، کافی صحت مند خاتون تھیں ،۲۰۰۱ء میں جب ریاض العلوم دہلی سے وابستہ ہوا تو اہلیہ کی صحت خراب رہنے لگی، چک اپ کے لئے 2006 میں دہلی لایا تو پتہ چلا کہ شوگر ہے، اور وال لکیج ہے، اس وقت سے لے کر اب تک لوک نائک اسپتال سے علاج چلتا رہا، پابندی سے دوا کھاتیں اور پرہیزی کااہتمام کرتیں، کئی بار ایڈمٹ ہوئیں اور شفایاب ہوکر گھر آئیں، لیکن اس بار جنوری میں کھانسی آئی جو موت کا بہانہ بن گئی، 26جنوری کی سرد رات تین بجے لڑکے( مظہر اورمحسن) مذکورہ اسپتال لے کر بھاگے ایک ہفتہ کے اندر ڈاکٹروں نے تھوڑا افاقہ دیکھ کر اور بیڈ خالی کرنے کے چکر میں 29یا 30 کوڈسچارج کردیا۔
کھانسی دوبارہ عود کر آئی تو پھر۲فروری کو رات کے تین بجے ایمرجنسی میں لے گئے وہاں سے 32 نمبر وارڈ میں شفٹ کردیا، ڈاکٹروں نے پوری نگہداشت رکھی لیکن اس بار سانس لینے میں کافی دقت پیش آئی، ولٹینیٹر لگاکر آکسیجن کے ذریعے سانس لینے پر مجبور ہو گئیں ، سانس اکھڑ اکھڑ کر آنے لگی تو کہنے لگیں اب اس با رنہیں بچوں گی، ہمیں بھی مشکل آثار کا اندا زہ ہوچکا تھا لیکن محسن و مظہر اور بچیاں جو رات بھر ڈیوٹی دیتیں تھیں دل بستگی کے لئے تسلی دیتیں کہ امی ٹھیک ہوجاؤگی، اس بار کی شدت دیکھ کرانتقال سے چند یوم قبل بڑا لڑکا کوثر گھر سے دہلی آگیا ، اسی دن بڑی بیٹی سعدیہ ممبئی سے فلائٹ کرکے سید ھے اسپتال اگئی، اور 8فروری کو عائشہ خاتون جس کی شادی فرانس میں 8دسمبر 2022کو ہوئی تھی ابھی وہاں پہونچے کل تین ماہ ہوئے تھے وہ بھی مان کی محبت میں تڑپ رہی تھی طویل سفر کرکے کل سیدھے اسپتال پہونچی رات بھر اسپتال میں ماں کے ساتھ رہی اور 9فروری 2024 کو بعد مغرب سوا سات بجے آخری سانس لی، اور ایک طویل مشقت واذیت جھیل کر اپنی جان جان آفریں کو سپرد کردی، یا ایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربك راضیية مرضية، یہ اتفاق ہے کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے منجن وبرش منگا کر اپنے ہاتھ سے منجن کیا ، چھوٹی بیٹی بشری اور چھوٹے لڑکے محسن نے منھ دھلایا میں نے پانی گرایا، گویا باوضو ہوکر اللہ کے حضور حاضر ہوئیں، نماز روزہ کی پابند تھیں، سادگی اور قناعت پسندی سے زندگی گذاری، کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا، کم گفتار، و بلند کردار، سلیقہ شعار خاتون تھیں، اپنی تکلیف کا کبھی اظہار نہیں کرتیں کہ میں پریشان ہوجاؤں گا، نہ کبھی کسی چیز کی اس طویل رفاقت میں فرمائش کی، یہ بہت بڑی بات ہے۔
چاروں بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادی ان کی زندگی ہو چکی تھی، پوتے پوتیاں کھلا کر گئیں، دو آخری بیٹیوں کی شادی رہ گئی جس کی فکر دامن گیر رہتی، برابر کہتیں کہ ان کوبھی مناسب رشتہ دیکھ کر نبٹا دو، غرض مرنے والی میں بڑی خوبیاں تھیں، الله ان کے مغفرت فرمائے اور اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، دنیا میں صحت کے تعلق سے بہت مصیبت اور تکلیف جھیلی، بار الٰہا آخرت میں ان کو مکمل آرام وسکون بخش دے اور جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آمین یارب العالمین
تدفین ان کی خواہش کے مطابق گھر بیتنارکے قبرستان میں 10فروری بعد نماز عصر تدفین عمل میں آئی،میت کو دہلی سے ایمبولینس کے ذریعے گھر لائے، نمازجنازہ میری فرمائش پر ان کے چچازادبڑے بھائی مولانا عبدالرشید مدنی،شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نے پڑھائی، جسں میں گاؤں و خاندان کے علاوہ سسرال (دھنہورا) اوردور دراز سےاعزہ واقرباء اور ضلع کے بڑے علماء مثلا جھنڈا نگر کے شیخ الجامعہ شیخ عبدالرشید مدنی، مولانا وصی الله مدنی ناظم ضلعی، مولانا ابراہیم مدنی،حافظ خالد سراجی استاد سراج العلوم جھنڈانگر، مولانا عبد التواب مدنی دہلی، شیخ عبدالرحمن مدنی استاد سراج العلوم بونڈھیار، مولانا طیب مکی، ڈاکٹر عبدالقدوس نمائندہ انقلاب مولانا عبدالرحیم فیضی (برادر نسبتی) وغیرہ شریک تدفین رہے، اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے اور جنت الفردوس کا مکین بنانے۔ آمین