ان کے کلام میں برجستگی بھی تھی اور زود گوئی بھی: مولانا عبدالعظیم مدنی جھنڈانگری
شاعری کے ساتھ ساتھ محترم سالک بستوی ایک ماہر ادیب اور بیباک خطیب بھی تھے: ڈاکٹر عبد الغنی القوفی
زاہد آزاد جھنڈانگری
جھنڈا نگر؍نیپال، سماج نیوز سروس: مشہورومعروف شاعر محترم سالک بستوی ایک سڑک حادثے میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ جامعہ عالیہ عربیہ مئو ناتھ بھنجن سے آپ نے عالمیت وفضیلت کی ڈگری حاصل کی اور درس وتدریس کی خدمات کے ساتھ میدان شعرو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ نے حمدیہ ونعتیہ اشعار کے ساتھ نظموں و غزلوں میں بھی شاعرانہ جلوے بکھیرے ہیں۔ جلسوں میں نظم استقبالیہ پیش کرنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا اور کسی عالم دین یا معروف سماجی شخصیت پر تعزیتی نظمیں لکھنے میں آپ کو ید طولی حاصل تھا۔ ان زریں خیالات کا اظہار جامعہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر نیپال کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد العظیم مدنی نے کیا۔آپ نے آگے کہا کہ’آپ کے کلام میں برجستگی بھی تھی اور قادرالکلامی بھی‘۔
جامعہ سراج العلوم، جھنڈانگر، نیپال کے موقر استاذ ڈاکٹر عبدالغنی القوفی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’شاعری کے ساتھ ساتھ محترم سالک بستوی ایک ماہر ادیب اور بیباک خطیب بھی تھے، جامع مسجد اہل حدیث لوہار شیری، سگرام پورہ سورت میں سالہا سال تک امامت وخطابت کی اہم ذمہ داری نبھاتے رہے، عوام میں جن موضوعات کا احتیاج ہوتا، جو وقت کا سلگتا موضوع رہا کرتا تھا عام طور پر خطاب کے لئے ان کا انتخاب کرتے تھے، موضوع کی تیاری پوری توجہ اور انہماک سے کیا کرتے تھے۔تعلقات اس قدر مشفقانہ رکھتے تھے کہ کبھی سورت میں جہاں پہلے سے کوئی اور شناسائی نہ تھی کبھی بیگانگی کا احساس نہیں ہوا، سارے اہل خانہ مجھے گھر کا ہی ایک فرد سمجھتے تھے، رمضان کی رونقیں ہوں یا عید کی چہل پہل، کسی موقعہ سے اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے‘۔
معروف صاحب قلم ملک عبد النور نے اپنے دلی غم کا اظہار کچھ یوں کیا؎
رات دن مستقل کوششیں زندگی کیسے بہتر بنے
اتنے دکھ زندگی کے لئے اور اسی کا بھروسہ نہیں
واقعی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب کہاں اور کس وقت سانس بند ہوجائے کسی کو خبر نہیں ۔ جماعت کے مشہور شاعر سالک بستوی کے موت کی خبر سے ہر کوئی صدمے میں ہے ۔ کسے خبر تھی کہ وہ گھر سے نکلے ہیں اور اب واپس نہیں آئیں گے ۔
’’کل من عليہا فان‘‘ کے تحت ہر شخص کو موت آنی ہے کب آئے گی ؟ یہ کسی کو پتا نہیں لیکن موت تو اٹل ہے یہ سب کو خبر ہے۔ آج شیخ سالک گئے کل کوئی اور جائے گا ایک دن ہم بھی اس فہرست میں ہوں گے افسوس اس بات کا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم سب کو رب ذوالجلال کے روبرو پیش ہونا ہے اس کے باوجود ہم غفلت میں ہیں دنیا کے لئے تو ہم سب کچھ تیاگ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن آخرت کے لئے کوئی فکر نہیں۔شیخ سالک رحمہ الله کا انتقال جمعیت وجماعت کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے اور ایسا خلل ہے جسے پر کرنا مشکل ہے۔اللہ رب العزت شیخ کی مغفرت فرمائے ان کی لغزشوں کو درگرز فرمائے ان کی قبر کو نور سے منور کرے اور نیک لوگوں کے ساتھ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ رب العزت شیخ کے پسماندگان کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے انتقال پر ہند ونیپال کے بے شمار ادباء شعراء اورعلماء کرام ڈاکٹر سعید احمد اثری ،مہتمم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر، مولانا مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی استاد جامعہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگر ،مولانا محمد اکرم عالیاوی ،مولانا مشہود خاں نیپالی نائب صدر مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش،مولانا وصی اللہ مدنی،مولانا عبد الرشید مدنی شیخ الجامعہ، مولانا عبد القیوم مدنی استاد جامعہ خدیجۃ الکبریٰ، مولانا قمر الدین ریاضی،مولانا زبیر سراجی وغیرہ نے دلی غم کا اظہار فرمایا ہے ۔اللہ ان کی قبر کو نور سے منور کر دے۔ آمین
مونس فیضی سدھارتھ نگر نے اپنے غم کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
ہوئی بزم سونی سونی غم کی گھٹا ہے چھائی
آنکھیں برس رہی ہیں سالک سے ہے جدائی
سعودی عرب کے ریاض میں مقیم سلام ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر مولانا منصوراحمد مدنی نے سالک بستوی کے انتقال پرتعزیت پیش کیا ہے۔ ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے مولانا منصوراحمدمدنی نے کہا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ مذہب اسلام کے فروغ میں جوکارنامہ انجام دیا ہے، اس کا ہرکوئی اعتراف کرتا ہے۔ ان کی رحلت سے ہم سب کو گہرا دکھ ہوا ہے اوریہ ملت کے لئے ایک بڑا خسارہ بھی ہے۔ اللہ تعالی ان کی طاعات وعبادات اورعلمی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اوربشری لغزشوں کو درگزرکرتے ہوئے جنت الفردوس کا مکین بنائے اورتمام لواحقین وپسماندگان اوراہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی عطا کرے۔ آمین
اخیر میں ناچیز زاہدآزاد جھنڈانگری انہیں ان الفاظ میں یاد کررہا ہے کہ ’’محترم سالک بستوی جنہیں رحمہ اللہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا وہ حساس طبیعت کے مالک تھےاور حساس دل انسان ہی اچھی شاعری کر سکتا ہے،یہ حساسیت محترم سالک بستوی کی نظموں اور غزلوں میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے،ان کی اچانک رحلت نے اہل علم اور ادباء حضرات کوغم زدہ کردیا ہے،بے شمار مشاعروں نشستوں،جلسوں و نجی مجالس میں 40سالوں سے ساتھ رہا ہے ہمارا پورا خانوادہ ذکریا آپ کے غم میں برابر کا شریک ہے، ہم ان کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں۔
آپ کی نماز جنازہ 4فروری بعد نماز ظہر آبائی گاؤں غوری بجہا سدھارتھ نگرمیں ادا کی جائے گی۔
واضح رہے کہ مشہور ومعروف کہنہ مشق شاعر،ادیب اورعالم دین سالک بستوی کا ایک سڑک حادثے میں انتقال ہوگیا ہے۔ وہ کسی پروگرام کے تحت نیپال گئے تھے۔ جس دوران سڑک حادثہ پیش آیا اوراس سالک بستوی اس حادثے میں اللہ ک کو پیارے ہوگئے۔ سالک بستوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دین اسلام کے فروغ کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس سے کسی بھی صورت انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کی اصلاحی نظمیں، غزلیں اوران کا تاریخی کلام آج ہر کسی کے پاس موبائل فون ،اختبارات یا مجلات کے ذریعے پہنچ چکا ہے ۔ پڑھنے والے پڑھنے کے بعد ان کو داد وتحسین دیتے رہے ہیں تو سننے والے سننے کے بعد ان کو مبارکباد پیش کرتے رہے ہیں ۔ جمعیت وجماعت کے بہی خواہ ،ملت اسلامیہ کے ہمدرد سالک بستوی کا اس طرح سے چلے جانا نہ صرف سماجی وملی خسارہ ہے بلکہ ایک بڑا ادبی خسارہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر جمعیت وجماعت اور مہذب معاشرہ غمگین ہے۔قابل ذکرہے کہ ان کا اصل نام مختاراحمد ہے اورسالک بستوی کی حیثیت سے ادبی حلقہ میں ایک محترم مقام رکھتے ہیں۔ والد ما جد کا اسم گرامی محمد علی ہے جنہوں نے 50 سال تک تد ریسی فرا ئض بحسن و خوبی انجام دیئے۔ اس لئے معاشرے میں انہیں ایک ذی وقارمقام حاصل ہے۔ سالک بستوی کی ولادت غوری (یو پی) میں 2اپریل1960 کو ہو ئی۔ زمانہ طالب علمی سے شعروادب اورتصنیف و تا لیف سے دلچسپی رہی ہے۔ 30 سالہ ادبی سفر کے دوران شعر و ادب اور دینی و تعلیمی مو ضو عات پر ان کی در جن بھر کتا بیں منظر عام پر آکر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔’’جرم تبسم‘‘ان کی غزلیہ شا عری کا مجموعہ ہے۔ ادبی مشغلہ کے علا وہ رفا ہی کا موں سے بھی دلچسپی رہی ہے۔نو نہالانِ ملت کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کر نے کی خاطر اپنے بھا ئی را شد سرا جی کے اشتراک سے جا معتہ الا صلاح نام کا ادارہ قائم کیا تھا جو آج بھی بڑی کا میا بی سے چل رہا ہے۔ واضح رہے کہ سالک بستوی کی شاعری نے انہیں فکر اسلامی کے ایک نما ئندہ شا عر کے طور پر پہچان دلائی ہے ۔ان کی شاعری سے ان کے دینی شعور،طہا رت فکر اور تعمیری سو چ کا پتہ بھی چلتا ہے ۔چونکہ انہوں نے شا عری کو تفریح طبع کی بجا ئے اصلاح نفس اور اخلا قیات کی تر ویج و اشا عت کا ایک وسیلہ بنایا ۔ان کے کلام میں سلا ست و سادگی کے ساتھ وہ سبھی لوازمات مو جود ہیں جن سے ان کی شا عری کو نئی شا عری کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔