20.1 C
Delhi
جنوری 24, 2025
Samaj News

نیپال میں ملازمتیں نہیں، بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں نیپالی:مولانا مشہود خاں نیپالی

زاہدآزاد جھنڈانگری

جھنڈا نگر؍نیپال، سماج نیوز سروس: یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بیرون ملک جانا برا ہے۔ لیکن کام کی تلاش میں بیرون ملک بھٹکنے کی صورت حال ملک نیپال کے لئے کبھی اچھی نہیں ہو سکتی۔ حال ہی میں نیپال میں روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر نیپالی بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں اپنے ملک میں ملازمتیں نہیں ملتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت اور ملک میں ملنے والی ملازمتوں سے اپنی روزی روٹی چلانے کے قابل نہیں ہیں۔اس کی ایک روشن مثال تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چند گھنٹے بیٹھ کر ان کی چیخ و پکار آہ و بکا کو دیکھنا اور سننا ہے۔ کچھ نیپالی جو اپنے خاندانوں کی اچھی پرورش، خوش و خرم اور اپنی زندگی بنانے کا خواب شاندار مستقبل آنکھوں میں سجا کر ہجرت کر گئے اور وہیں انتقال کر گئے انہیں اپنے ملک کی دو گز زمین بھی میسر نہ ہوئی۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کےلئے
دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوہ یار میں
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ لاشوں پر سیاست بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے کو لیکر کے مدرسہ بورڈ کے نائم صدر سےراقم الحروف زاہدآزاد جھنڈانگری نے کچھ سوالات کئے۔ان کے جواب میں مولانا مشہود خاں نیپالی نےکہا کہ جن لوگوں نے ہنر سیکھا ہے وہ کچھ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ بغیر ہنر کے بیرون ملک گئے ہیں، انہیں نوکری نہ ملنے پر وہ اپنے ملک واپس جانا بھی نہیں چاہتےبلکہ بیرون ملک ہی نوکری کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھاتے ہیں ، قرض دہندہ کے قرض کے اوپر قرض کے اضافی بوجھ کی وجہ سے، کچھ غلط کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں اور واقعات ہمارے ملک اور معاشرے میں رونما ہو چکے ہیں۔
سوال: زاہدآزاد:تو ہمارے لیڈران کیا کر رہے ہیں ؟
جواب:مشہود خاں نیپالی: افسوس لیڈران، ذمےداران، حکمران، سیاسی و سماجی شخصیات ان تلخ حقیقتوں کو کبھی قریب سے دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچ کر لوگ روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے،در حقیقت پورا ملک ان کے ساتھ رو رہا ہوتا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیادت نہ تو ملک کا درد اور ملک کا رونا سنتی ہے اور نہ ہی دیکھتی ہے۔ اور نہ ہی کبھی روتے ہوئے لوگوں کے آنسوؤں کو پوچھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی پرواہ کرتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے، آج ہوتا ہے، کل بھلا دیا جائے گا۔ اس لیے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کل کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے نہ چاہ کر بھی بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں حالانکہ وہ آج اپنے آنسو بہاتے ہیں۔ گھر والے، رشتہ دار، رشتہ، ماں باپ، عزیز و اقارب ،دوست احباب، سب کو رلا کر بیرون ملک جا رہے ہیں اور خود بھی رو رہے ہیں۔
سوال:آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کیا اس سے ان کا مستقبلِ محفوظ ہے ؟
جواب:نہیں !اس ملک کے مستقبل کو اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔لیڈر دو طرح سے بات کرتے ہیں۔ ایک طرف حکومت میں شامل وزراء ملک میں نوکریاں دینے کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہنر مند افرادی قوت کو دوسری جگہوں پر بھیجنے کے لیے لیبر کے معاہدے کر رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے کی حکومتی کارروائیاں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ ڈاکٹروں، نرسوں اور کارکنوں سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔آج ملک کا مستقبل رو رہا ہے۔ آئیے اس پس منظر میں نیوز ایجنسی نیپال کی لی گئی کچھ تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔

Related posts

بدعنوان خواجہ معین الدین :تلنگانہ وقف زمین معاملہ کے آفیسر کوکیا تلنگانہ کانگریس سرکار سبق سکھائے گی؟ مطیع الرحمٰن عزیز

www.samajnews.in

لکھیم پور کھیری تشدد: آشیش مشرا کو سپریم کورٹ سے نہیں ملی ضمانت

www.samajnews.in

شاہین پی یو کالج بیدر کے حفاظ طلباء کے پی یو سی سال دوم میں تاریخ سازنتائج

www.samajnews.in