سنت کبیر نگر، سماج نیوز سروس:71 سالہ شاعر رانا گزشتہ کئی ما سے دائمی بیماری میں مبتلا تھے لکھنو کے پی جی آئی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہیں نئی روشنی میگزین کے ایڈیٹر سلمان کبیرنگری نے کہا کہ منور رانا کواردو ادب اور شاعری خصوصا ان کی غزلوں میں ان کی خدمات کیلئے بڑے پیمانے پر پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شاعرانہ انداز اپنی سادگی کی وجہ سے نمایاں تھا۔ انہوں نے فارسی اور عربی سے اجتناب کیا اور اکثر ہندی اور اودی الفاظ استعمال کیے، جو ہندوستانی سامعین کو بند آئے۔ وہیں ارسلان انٹر نیشنل اسکول کمھریا سگرا بستی کے ڈائریکٹر محمد الیاس خان نے کہا کہ ان کی سب سے مشہور نظم ماں تھی جس نے روایتی غزل کے انداز میں ماں کی صفات کو پوار ے داعی اجل کو لبیک سامنے لایا تھا۔ منور رانا کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ چودھری جاوید احمد خان نے کہا کہ منور رانا ایک بے حد سادہ لوح اور بہت ہمدرد اور مشفق انسان تھے ، اردو اور سماج کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا، کلام کی ترجمانی کی جاتی ہے ۔ سبق آموز طرز میں ہر رباعی میں جدت پسندی کا عنصر موجود ہے۔ اردو شاعری میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے کا فن رباعی سے پہچانا جاتا ہے ۔ ان کی رباعیوں میں روحانی جذبات ، عارفانہ کیفیت اور اخلاقی اقدار کا پر خلوص اور فنکارانہ اظہار ملتا ہے۔ ان کے رباعیوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اعلی مضامین کو سادہ اور سہل زبان میں پیش کرتے ہیں۔ رانا کو ملنے والے دیگر ایوارڈ میں امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ ، قالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ اور سرسوتی ہے۔ ڈائیلاسز کے سماج ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ رانا کی ہندوستان اوربیرون ملک کے مشاعروں میں کافی شرکت کرتے رہتے تھے۔