ذاکر حسین ( 8368463763)
وطن عزیز کے مسلمان نہایت نازک دور سے گزر رہے ہیں،ملک میں مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی میدان میں مختلف قسم کے چیلینجیز کا سامنا ہے۔آزادی کے بعد سے لگاتار ملک کے مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں حصہ داری گھٹتی جا رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ جہاں مسلمانوں کی تعلیم کے تئیں عدم دلچسپی ہے تو وہیں دفعہ 341 پر عائد مذہبی پابندی مسلمانوں کیلئے مزید مسائل کھڑے کر رہی ہے۔اعداد شمار بتاتے ہیں کہ اگر 1950 میں دفعہ 341 پر مذہبی پابندی عائد نہیں ہوئ ہوتی تو آج سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی کچھ اور تعداد ہوتی۔یہ حقیقت ہیکہ 341 پر عائد مذہبی پابندی کی وجہ سے ملک کے مسلمان بالخصوص شیڈول کاسٹس کا سرکاری نوکریوں میں تناسب مزید گھٹتا گیا۔قارئین کرام:آیئے جانتے ہیں کہ آرٹیکل 341 کیا ہے؟ دراصل آرٹیکل 341 کے تحت ملک کے شیڈول کاسٹ(انصاری مسلمان،قریشی،دھوبی،دھنیہ،حلال خور وغیرہ) مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت حاصل تھی، لیکن 10 اگست 1950کو ملک کے پہلے وزیر آعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد سے ایک حکم نامہ پاس کرواکر ملک کے شیڈول کاسٹ مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا۔اس کے بعد 28جولائ 1959 میں نہرو نے مزید ایک شرط رکھی کہ جو مسلمان کبھی ہندو تھے،اگر دربارہ ہندو یعنی مرتد ہو جائیں تو انہیں ریزرویشن ملے گا۔،اگر وہ اپنے مذہب یعنی اسلام پر ہی قائم رہتے ہیں تو انہیں ریزرویشن سے محروم رہنا پڑے گا۔قارئین کرام:ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کا آئین ملک کے تمام شہریوں کیلئے برابر ہے،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب،ذات،رنگ و نسل سے ہو۔آئین کی دفعہ 14,15,16 اور 25 میں برابری کی بات کہی گئ ہے۔اس کے علاوہ دفعہ 341 پر لگی مذہبی پابندی آئین کے اوراق میں درج مختلف الفاظ مختلف دفعات سے متصادم ہیں۔اس حساس اور سنجیدہ مسئلے کا جب ذکر ہو اور راشٹریہ علماء کونسل(مولانا عامر رشادی صاحب)،یونائیٹڈ مسلم مورچہ اور سابق ایم پی ڈاکٹر ایم اعجاز علی صاحب کا ذکر نہ ہو تو تحریر کے ساتھ بے ایمانی ہو جائے گی۔مولانا عامر رشادی اور ڈاکٹر ایم اعجاز علی صاحب نے لگاتار اس ظلم و انصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔اس مسئلے پر دیگر سیاسی اور مذہبی تنظیموں ایم آئی ایم ،سماجوادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی،آذاد سماج پارٹی،کانگریس،جمعیۃ علماء ہند،جماعت اسلامی ہند وغیرہ کو بھی آواز اٹھانی چاہئے۔آج 10 اگست ہے،اور ہمیشہ کی طرح کچھ علاقائی سیاسی پارٹیوں اور چند تنظیموں کے ذریعہ اس آئینی نا انصافی کے خلاف آواز بلند ہوگی ،لیکن وہ ہمارے سسٹم پر کتنا اثر انداز ہوگی،یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔(مضمون نگار،الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ کے بانی و صدر ہیں)