18.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

کتاب ’’مضامین ڈاکٹر محمد حمید اللہ ‘‘

مصنف: ڈاکٹر احتشام الدین خرم
صفحات: 238
تبصرہ نگار: پروفیسر مجید بیدار ( سابق صدرشعبہ اردوجامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد)
کتاب ملنے کا پتہ: 11-3-855،نیوملے پلی500001،حیدرآباد
موبائل: 7893573855

دکن کی سرزمین میں حیدرآباد کو نوائط خاندان کی سرگرمیوں سے وابستہ کرنے والے اہم افراد میں جامعہ عثمانیہ سے ’’ بین الاقوامی قانون ‘‘ یعنی International Law پرتحقیقی کارنامہ ’’قانون بین الممالک ‘‘پیش کرکے عالمی سطح کو اپنی جانب متوجہ کرنے والی عظیم ہستی ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی قرار پاتی ہے جنہیں نہ صرف علوم وفنون کا انسائیکلوپیڈیا کا موقف حاصل رہا بلکہ انہوں نے اپنی تحریروں کے توسط سے اسلامی شعار اور تاریخ وثقافت کی نمائندگی کے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ جس کی مثال عالمی سطح پرحاصل ہونی مشکل ہے ۔ بلاشبہ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے کارنامے تاریخ ‘ تہذیب ‘ثقافت اور مذہب ہی نہیں بلکہ معلومات کی فراوانی کی پیشکش کا فریضہ انجام دیتے رہے ان کی ساری زندگی اسلام کی تبلیغ اوراشاعت میںصرف ہوئی اور مجرد زندگی گزارتے ہوئے اس دنیا سے سفرآخرت اختیارکیا ۔انہیں مذہب اسلام کے علاوہ مشرقی ثقافت اور اردو زبان سے والہانہ وابستگی تھی ۔ اگرچہ وہ نواب آف ارکاٹ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے علمی وادبی خدمات سے وابستہ انتظامی امورکے فرض شناس افراد میں شامل رہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنے تحقیقی کارناموں اورتہذیبی شاہکاروںکے ذریعہ جامعہ عثمانیہ کا نام روشن کیا۔ بلاشبہ مذہب و شریعت کے نمائندہ موضوعات کا احاطہ کرکے تقریباً پون صدی تک علم وتحقیق کی دنیا میں انقلابی رجحانات کو عام شہرت دلانے پر توجہ دی۔ ڈاکٹر محمد احتشام الدین خرم مبارکباد کے مستحق ہیںکہ انہوں نے 2002ء میں تلنگانہ اسٹیٹ اردواکیڈیمی کی جزوی مالی امداد حاصل کرکے ڈاکٹرمحمد حمید اللہ کی تحریروںکویکجا کیا اور ’’ مضامین ڈاکٹر محمدحمیداللہ‘‘ کے زیرعنوان شائع کردیا ۔مدراس کے نوائط خاندان سے وابستہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی ولادت 1908ء میں ہوئی‘ جبکہ 2002ء میںتحقیق وتنقید اور زہد و تقویٰ کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان کے والد مرحوم حضرت ابومحمدخلیل اللہ کوفن تعلیم سے بڑی دلچسپی تھی جنہیں ارکاٹ کے نامور عالم قاضی بدرالدین کی فرزندی حاصل تھی ۔جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اورایل ایل بی کا امتحان کامیاب کرنے کے بعداسلامی قانون پرتوجہ مرکوزکی اورعلم کی تشنگی کے خاتمہ کے لیے حجاز‘ لبنان ‘ شام ‘ فلسطین ‘مصراورترکی کادورہ کیا ۔ 1932ء میں بون یونیورسٹی جرمنی پہنچے اور جامعہ عثمانیہ میں پی ایچ ڈی کامقالہ داخل کیا ۔1933ء میں ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔سوربون یونیورسٹی پیرس سے 1934ء میں’’ عہدنبویؐ اورخلافت راشدہؓ میں اسلامی سفارتکاری ‘‘ کے عنوان پرفرانسیسی زبان میں مقالہ پیش کیا جس پرڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی گی ۔ 1935ء میں حیدرآباد واپس ہوئے اورجامعہ عثمانیہ میں ملازمت کا آغاز کیا۔1948ء تک شعبہ دینیات اورشعبہ قانون میں دیرینہ خدمات انجام دیں اس طرح بیش بہاعلمی اور مذہبی موضوعات کے دوران تحقیقی وسائل کو استعمال کرکے مذہب ‘ شریعت اور اسلامی تاریخ کی خدمت کافریضہ انجام دیا ۔ ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔1947ء میں تقسیم ہندکے بعدحیدرآباد کے الحاق کوپاکستان سے مربوط کرنے کے لیے روانہ کردہ وفدکے نمائندہ رہے ۔ 1948ء میں ریاست کی خودمختاری کے لیے فرانس کے وفد میں شامل رہے ۔ ابھی وہ پیرس میںہی تھے کہ ہندوستان نے حیدرآباد دکن پر قبضہ کرلیا ۔غرض پیرس میںپناہ گزین کی حیثیت سے سکونت اختیارکرلی۔ نیشنل سنٹرل آف سائنٹفک ریسرچ پیرس کے سربراہ مقرر کیے گئے ۔ پیرس‘ جرمنی اور ترکی کی جامعات میں درس و تدریس کاسلسلہ جاری رکھا ۔فرانسیسی زبان اورکلچر کی حفاظت کے سلسلہ میںیوروپ کو اہم مرکزکا درجہ حاصل رہاہے‘ جہاں کے کتب خانوں سے استفادہ اوراسلامی تعلیمات کے سلسلہ میںتحقیقات کو جدید تقاضوں سے وابستہ رکھا ۔ چنانچہ ساری زندگی یوروپ ‘ایشیاء اور افریقہ میںاسلام کی نشرواشاعت کے لیے وقف کردی ۔ 1985ء میں انہیں’’ ہلالِ پاکستان ‘‘ کا اعزازاور10لاکھ روپئے کا اعزازیہ دیاگیا‘ اس رقم کوانہوںنے اسلام آبادکے ادارہ ’’ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی ‘‘ کو بطورعطیہ دے دیا۔ 1994ء میں عالمی سطح کے شاہ فیصل ایوارڈ کے لیے ان کاانتخاب عمل میںآیا‘ لیکن انہوں نے یہ ایوارڈ لینے سے انکارکردیا ۔ڈاکٹر حمیداللہ کی شخصیت بین الاقوامی شہرت کی حامل رہی ہے اورجامعہ عثمانیہ کے مایہ نازسپوتوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت قانون کے پروفیسراورشعبہ دینیات کے سربراہ ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیڈیزکے ناموراساتذہ میں شمار کیے جاتے رہے ۔ ان کی بے شمار قابلیتوں کی وجہ سے انقرہ یونیورسٹی ‘ا ستنبول یونیورسٹی اور دیگر کئی یونیورسٹیوں میںوزیٹنگ پروفیسرکی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اہم کارناموں کے ذریعہ انہوںنے یونیورسٹیوں میں میں تحقیق کا کام انجام دینے والوں کے لیے بڑے ہال تعمیر کروائے ۔ ان کے قطعات کی سماعت کرنے وائس چانسلر‘رکن پارلیمان ‘پروفیسرس اورجرنلسٹس کے علاوہ کئی وزراء بھی شریک ہوتے تھے ۔ اہم ملک روم کی یونیورسٹی میں بھی لکچرس کی شہرت رہی ۔ غرض اتنی اہم اورقابل فخرشخصیت کے کارناموںکومنظر عام پرلانے کے لیے پیش کردہ کتاب ’’ مضامین ڈاکٹر محمد حمیداللہ ‘‘ کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ وہ نہ صرف اپنے دورکے محقق رہے بلکہ سیرت نبویؐ پرعمل کرنے والے سچے وحدانیت پسند مسلمان تھے جنہوں نے سنت نبویؐ کی تکمیل کا حق ادا کیا۔1996ء میں جب بینک سے پینشن اورساری رقم نکال لی گئی توبھوک اورپیاس میں زندگی گزاری‘ کیونکہ وہ سنت نبویؐ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کوفریضہ سمجھتے تھے‘غرض17دسمبر2002کوحالت نیند میں آخری سانس لی اورامریکہ کے مشہورقبرستان فلوریڈا میں سپرد لحد کیے گئے ۔ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب قلم اورسابق علماء کی یادگاروں کو حیات بخشنے والے محقق اور علمی ومذہبی کارناموں کی عصری توضیحات کی کارفرمائی اور اہل مغرب کواسلام کی حقیقی تعلیمات کے علاوہ پیغمبراسلامؐ کی سیرت سے متعارف کرانے کے لیے مختلف زبانوںمیں ایک ہزار سے زیادہ مقالے لکھے اور175 کتابوںکا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے۔ ان کی کتابوں کے ترجمے روسی ‘چینی ‘جاپانی اور انگریزی ہی نہیں اس کے علاوہ زبانوں فارسی ‘عربی ‘ترکی کے علاوہ جرمنی ‘اطالوی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ انہیں اردو ‘عربی ‘فارسی اورترکی کے علاوہ فرانسیسی ‘ جرمنی ‘انگریزی ‘اطالوی اورروسی زبانوں پرخلاقانہ عبور حاصل تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے کارناموںکواردو داں طبقہ میں متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹراحتشام الدین خرم کی جدوجہدکومبارکباددی جاتی ہے ‘کیونکہ انہوں نے اس کتاب سے قبل 3مزید کتابیں پیش کرکے ڈاکٹر حمیداللہ کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں اہم موضوعات اورسلگتے ہوئے مسائل پر ان کے 10مضامین شامل کیے گئے ہیں ‘ہرمضمون میں موجود تحقیقی انداز سے ثبوت ملتا ہے کہ ایک محقق اوردیانتدار اسلام کے پابند فردکی حیثیت سے ڈاکٹرمحمد حمیداللہ نے موضوع کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تحقیقی نوادر کوبھی حقائق کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔ یہ مضامین سطحی اور عام موضوعات کا احاطہ نہیں کرتے بلکہ عصرحاضر کے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں‘ جن میں تحقیقی نوادرات کااستعمال سنت اور شریعت کے حدود کی نمائندگی کرتا ہے ۔ ان کے بے شمارمضامین میں جہاں’’ عہدرسالتؐ کی رسومات ‘‘ (ولادت سے وفات تک )کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘بلکہ انہوںنے اپنے تحقیقی مضمون ’’ مسلمانوں نے کولمبس سے پہلے امریکہ کودریافت کیا‘‘کے مطالعہ سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم طبقہ کی بیداری اوران کی شعوری خصوصیت کو واضح کرنا ہی ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کافرض عین رہا جس کی تکمیل کرتے ہوئے نادرونایاب حوالوں کے ساتھ مضامین تحریر کیے ۔ ان کا ہرمضمون اپنی جگہ معلومات کا ذخیرہ اورحق پرستی کا نمائندہ ہی نہیں بلکہ ان کی اسلامی فکرکی دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے ایسی نادرونایاب کتابوںکا استقبال ضروری ہے ۔ کتاب کے پہلے صفحہ پرڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی تحریرکا عکس شامل کیاگیا ہے۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ڈاکٹر حمید اللہ کے خاندان کے افراد کی مزارات کی تصاویرمعہ لوح مزار پیش کی گئی ہیں۔ خوبصورت سرورق اورعمدہ طباعت سے آراستہ ہے ۔ کتاب کا انتساب احتشام الدین خرم نے اپنے والد مرحوم پروفیسر محمدافضل الدین اقبال اور والدہ محترمہ بلقیس اقبال کے نام معنون کرکے اسلاف کے کارناموں کو یادگار بنانے کا حق ادا کیا ہے ۔ غرض اس کتاب میں شامل مضامین نہ صرف ذہنی بیداری کاثبوت دیتے ہیں‘ بلکہ قاری کے شعورکو بھی عصری آگہی میںاسلامی شعار سے وابستہ کرنے کے علمبردارقرارپائے ہیں۔ اس لیے توقع ہے کہ ’’ مضامین ڈاکٹر محمدحمیداللہ ‘‘ کی پیشکش کوقبول کرتے ہوئے اردو داں طبقہ ضرور اس کارنامہ کودوسروں تک پہنچانے کافریضہ انجام دے گا۔ اس اہم کتاب کی اشاعت پرڈاکٹر احتشام الدین خرم کو مبارکباد دی جاتی ہے کیونکہ انہوںنے اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے اہم فرد اورجامعہ عثمانیہ کے نامورسپوت کی خدمات کونمائندگی دے کرتحقیق کے میدان کے توازن کوفکری اورفطری سطح پرپیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ جس کے لیے دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش ہے ۔

Related posts

بھارت کو متحد کرنا ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا مقصد:راہل گاندھی

www.samajnews.in

جامعہ اسلامیہ خیر العلوم ڈومریا گنج میں سالانہ اجلاس کا انعقاد

www.samajnews.in

جامعہ سلفیہ بنارس میں 75 واں جشن یوم جمہوریہ کا انعقاد

www.samajnews.in