18.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

خواتین ریزرویشن بل لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت کیساتھ پاس

حمایت میں 454 ووٹ اور مخالفت میں پڑے 2 ووٹ، خواتین ریزرویشن بل کے مطابق لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن نافذ کیا جائے گا۔ لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے 181 خواتین کے لیے ریزرو ہوں گی۔ یہ ریزرویشن 15 سال تک چلے گا۔

نئی دہلی، سماج نیوز: خواتین ریزرویشن بل (ناری شکتی وندن بل) بدھ کو ایک تہائی اکثریت کے ساتھ طویل بحث کے بعد لوک سبھا (لوک سبھا میں خواتین کے ریزرویشن بل پاس) نے منظور کر لیا۔ بل (خواتین ریزرویشن بل) کی حمایت میں 454 اور مخالفت میں 2 ووٹ ڈالے گئے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے پرچیوں کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) حیدرآباد کے ایم پی اسد الدین اویسی اور اورنگ آباد کے ایم پی امتیاز جلیل نے خواتین کے ریزرویشن بل کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ بل جمعرات کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ وہاں سے گزرنے کے بعد اسے صدر دروپدی مرمو کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا۔ صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ خواتین ریزرویشن بل بھی نئی پارلیمنٹ کی لوک سبھا میں منظور ہونے والا پہلا بل ہے۔ خواتین ریزرویشن بل کے مطابق لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن نافذ کیا جائے گا۔ لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے 181 خواتین کے لیے ریزرو ہوں گی۔ یہ ریزرویشن 15 سال تک چلے گا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ چاہے تو اپنی مدت بڑھا سکتی ہے۔ یہ ریزرویشن براہ راست منتخب عوامی نمائندوں پر لاگو ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اطلاق ریاستوں کی راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسلوں پر نہیں ہوگا۔20 ستمبر کو خاتون ریزرویشن بل پر لوک سبھا میں ووٹنگ سے قبل بحث کرائی گئی۔ اس بحث میں تقریباً 60 اراکین پارلیمنٹ نے حصہ لیا اور اکثریت نے اس بل کی حمایت میں اپنی بات رکھی۔ اپوزیشن کی طرف سے سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سپریا سولے، ڈمپل یادو، کنی موژی، مہوا موئترا وغیرہ نے اپنی باتیں رکھیں، جبکہ برسراقتدار طبقہ کی طرف سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، ارجن میگھوال، اسمرتی ایرانی وغیرہ نے خاتون ریزرویشن بل کے فائدے بتائے۔ آئیے یہاں جانتے ہیں کس لیڈر نے خاتون ریزرویشن بل پر کیسا رد عمل ظاہر کیا۔
امت شاہ (مرکزی وزیر داخلہ)
سوشل میڈیا پر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس بل کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس میں او بی سی، مسلموں کا ریزرویشن نہیں ہے۔ اگر آپ بل کی حمایت نہیں کریں گے تو کیا ریزرویشن جلدی ہوگا؟ اگر آپ اس بل کی حمایت کرتے ہیں تو کم از کم گارنٹی تو دیں گے۔
ارجن رام میگھوال (وزیر قانون)
حد بندی کو لے کر سوال کھڑا کیا جا رہا ہے۔ حد بندی کے سیکشن 8 اور 9 میں یہ کہا گیا ہے کہ تعداد دے کر ہی تعین ہوتا ہے۔ ان تکنیکی چیزوں میں ہم جائیں گے تو آپ چاہتے ہیں کہ یہ بل پھنس جائے۔ لیکن ہم اس بل کو پھنسنے نہیں دیں گے۔ سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ خاتون ریزرویشن کا موضوع افقی بھی ہے اور عمودی بھی۔ اب فوراً تو حد بندی یا مردم شماری نہیں ہو سکتی، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ فوراً ریزرویشن دے دیجیے۔
سونیا گاندھی (کانگریس)
یہ میری زندگی کا جذباتی لمحہ ہے۔ پہلی بار مقامی بلدیہ میں خواتین کی شراکت داری طے کرنے والی آئین ترمیم میرے شریک حیات راجیو گاندھی ہی لے کر آئے تھے، لیکن یہ سات ووٹوں سے راجیہ سبھا میں گر گیا تھا۔ بعد میں اسے پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت نے پاس کرایا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مقامی بلدیہ کے ریزلٹ کے ذریعہ 15 لاکھ منتخب خاتون لیڈران ہیں۔ راجیو گاندھی کا خواب ابھی تک نصف ہی پورا ہوا ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے ساتھ ہی وہ پورا ہوگا۔ کانگریس پارٹی اس بل کی حمایت کرتی ہے۔میرا سوال ہے کہ ہندوستانی خواتین گزشتہ 13 سالوں سے اپنی سیاسی ذمہ داری کا انتظار کر رہی ہیں، لیکن انھیں اب مزید انتظار کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ کتنے سال؟ دو سال، چار سال، چھ سال یا پھر آٹھ سال؟ کیا (خواتین کے ساتھ) یہ سلوک مناسب ہوگا؟ اسے فوراً عمل میں لایا جائے۔ ساتھ ہی ذات پر مبنی مردم شماری کرا کے درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور انتہائی پسماندہ طبقہ (او بی سی) کی خواتین کے لیے ریزرویشن کا انتظام کیا جائے۔

راہل گاندھی (کانگریس):

میری نظر میں ایک چیز (او بی سی کوٹہ نہیں ہونا) اس بل کو نامکمل بناتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بل میں او بی سی ریزرویشن کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے، خواتین کے بڑے حصے کی ریزرویشن تک رسائی ہونی چاہیے۔ اس بل میں یہ موجود نہیں ہے۔اس بل میں دو ایسی چیزیں ہیں جو مجھے عجیب و غریب لگتی ہیں۔ ایک یہ کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے تازہ مردم شماری کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ دوسری یہ کہ بل کو نافذ کرنے کے لیے نئی حد بندی کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بل آج ہی نافذ ہو سکتا ہے۔

سپریا سولے (این سی پی):

نشی کانت دوبے کہہ رہے ہیں کہ ہم یعنی اپوزیشن اتحاد انڈیا اس طرف ہے جو کہ خواتین کو نیچا دکھاتے ہیں۔ مجھے مہاراشٹر بی جے پی کے سابق چیف نے ٹی وی میں کہا کہ گھر جا اور کھانا بنا۔ ملک کوئی اور چلا لے گا۔ کابینہ وزیر نے میرے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کیا۔ یہ ہے بی جے پی کی ذہنیت۔ ہمارا کوئی کچھ کہتا ہے تو ’انڈیا‘ خراب ہے، لیکن اپنی باری میں نہیں دیکھتے۔ میں ایسے تبصرہ پر رد عمل نہیں دیتی لیکن انھوں نے (نشی کانت دوبے) بولا تو میں نے جواب دیا ہے۔

ہرسمرت کور (شرومنی اکالی دل):

حکومت خواتین کو لڈو دکھا رہی ہے، لیکن کہہ رہی ہے کہ وہ اسے کھا نہیں سکتیں۔ کچھ ہی گھنٹوں میں نوٹ بندی اور لاک ڈاؤن کرنے والی حکومت کو یہ بل لانے میں ساڑھے نو سال کا وقت کیوں لگا؟ جب آپ نے (بی جے پی نے) انتخابی منشور میں خاتون ریزرویشن کا وعدہ کیا، ساڑھے نو سال کیوں لگ گئے؟ لاک ڈاؤن گھنٹوں میں کر سکتے ہیں، نوٹ بندی گھنٹوں میں کر سکتے ہیں تو یہ بل لانے میں آخر ساڑھے نو سال کیوں لگ گئے؟ اب لائے ہیں تو اسے آئندہ لوک سبھا انتخاب سے کیوں نافذ نہیں کر رہے؟

 

ڈمپل یادو (سماجوادی پارٹی):

لوک سبھا اور اسمبلیوں میں تو یہ بل نافذ ہوگا، کیا راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل میں بھی نافذ ہوگا؟ یہ بل 13 سال سے لٹکا ہوا تھا، لیکن ان کی حکومت (بی جے پی حکومت) کو بھی 10 سال بعد اس کی یاد آئی۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ آنے والے لوک سبھا انتخاب اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں یہ نافذ ہو پائے گا کہ نہیں؟

 

Related posts

امریکی ڈرون کو روس نے مار گرایا، دونوں ممالک میں مزید بڑھ سکتی ہے کشیدگی

www.samajnews.in

2024 میں زیادہ سے زیادہ مراقبہ کی مشق کریں

www.samajnews.in

لیونیل میسی کیا اب فٹبال کے سب سے عظیم کھلاڑی ہیں؟

www.samajnews.in