سید مجاہد حسین
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کیلئے، موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس۔ یہ ایک حقیقت ہے دنیا میں بے شمار ہستیاں ایسی ہیں جن کے دنیا سے چلے جانے کا لوگوں کو ساری عمر قلق رہتا ہے۔ مرحوم عامر سلیم بھی ان میں سے ایک ہیں جن کے جانے کا ہم کو سخت افسوس ہے۔ شایدخدا وند کریم کو یہی منظور تھا ،بلا شبہ اس کی مرضی و مشیت کے آگے کسی کا بس نہیں۔آج ہمارا سماج بھی اپنے نیوز ایڈیٹر عام سلیم خان کی اچانک موت پر آنسو بہا رہاہے سبھی سخت صدمے میں ہے، وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہے گی۔ ہم میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی یہ سب ہوجائے گا اور ہم ان سے محروم ہوجائیں گے۔ عامر بھائی کو جب ہم اپنے احباب، صادق شروانی صاحب، اقبال صاحب ، منہاج صاحب اور عبدالحسیب، زاہداختر صاحب کے ساتھ اسٹریچر پر اسپتا ل کے وارڈ سے لیکر باہر آرہے تھے تو کسی کے آنسو تھم نہیں رہے تھے ۔مرحوم عامر صاحب ’’ہمارا سماج‘‘ میں برسوں سے بحیثیت نیوز ایڈیٹر کام کررہے تھے ،اور اپنی بے باک صحافتی صلاحیتوں کی وجہ سے علمی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں بے حدمعروف مقبول تھے اور سماجی حلقوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔میں اکثران سے قربت ظاہر کرتے ہوئے عامر صاحب کے بجائے عامر بھائی ہی کہہ کر مخاطب ہو تا تھا اور وہ بھی مجھے مجاہد بھائی کہتے تھے ۔ان کے ساتھ بتائے ہوئے میرے بہت سے قیمتی لمحات ہیں ،کیا کیا لکھوں اور کیسے لکھوں کہاں سے شروع کروں ، سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔آج سے بارہ سال قبل ایک پریس کانفرنس میں جب میری ان سے سب سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بے حد پرتپاک انداز میںمجھ سے ملے تھے۔ میں نے ان کو اپنا تعارف کرایا ،جس پر وہ مجھ سے ملک کر بے حد خوش ہوئے اور بے حد محبت اور انکساری سے کہا کہ مجاہد بھائی آپ کی اسٹوریز میں پڑھتا رہتا ہوں اور آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔لیکن میں نے ان سے کہا کہ آپ کے سامنے میں بہت چھوٹا ہوں اور معمولی صحافی ہوں، صرف صفحات کالے کرتا ہوں !۔اس پر وہ ہنس پڑے،گفتگو کرنے کے بعد ہم نے ایک ریستوراں میں چائے پی اور جدا ہوگئے۔وہ مختصر اور پہلی ملاقات تھی۔لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے ڈاکٹر خالد انور اورعامر سلیم صاحب جیسے عظیم و قدرداں صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا ۔سال2012 میں میں نے ہمارا سماج جوائن کیا تو عامر بھائی مل کر کافی خوش ہوئے ، تب سے میں نے دیکھا کہ انہوںنے مجھے سینئررہتے جو عزت بخشی وہ میرے لئے اعزاز سے کم نہیں تھی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ میں دیکھ کر دنگ رہ جاتا تھا کہ ان بارہ سالوں میں ان کا قلم کبھی بڑی سے بڑی اسٹوری کرنے سے نہیں ہچکچایا۔مرحوم سیاسی اور سماجی اور ملی حالات پر گہری گرفت رکھتے تھے ، صحافتی دیانت داری کے پاسدار تھے اور اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ بہ نفس نفیس پریس کانفرنسوں میں موجود رہتے یا پھر کسی گرم موضوع پر فون سے اہم شخصیات سے رابطہ کر کے اپنی اسٹوری مکمل کرلیتے ۔اسٹورری مکمل کر کے اکثر مجھے دیا کرتے کہ مجاہد بھائی ذرا ایک نظر ڈال لیں اور اس کی ہیڈنگ بھی دیکھ لیں ،جو بہتر لگے وہ بدل دیں، جب میں کوئی ہیڈ لائین اپنی مرضی سے ان کی اسٹوری پر فٹ کرتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور کہتے ،یہ زیادہ بہتر اور مزیدار ہے ، پھر بھی میں ان سے ہنس کر کہتا، عامر بھائی اگر آپ کو اطمینان نہیں ہو تو آپ میری ہیڈ لائین کو ہٹاسکتے ہیں ،آپ مجھ ناچیز سے بہتر ہی لکھتے ہیں۔لیکن وہ انکساری اور عاجزی کا پیکر تھے کہ میری بات کو ترجیح دیتے اور ہیڈلائین وہی رہنے دیتے۔ ایک بار سیلم پور کی ایک خبر پر جب صادق صاحب نے ایک ہیڈنگ مجھ سے لگوائی تو وہ عامر بھائی کو بہت پسند آئی اور خوب تعریف کی،اس سے وہ مجھے ’ہیڈلائین ماسٹر‘ کہنے لگے تھے ! ۔ انہوںنے کبھی اس کا اظہار نہیں ہونے دیا کہ وہ ہم سب سے سینئر ہیں۔دفتر میں میری خبروں اور سرخیوں کی سب کے سامنے تعریف کرتے یہاں تک کہ میں ان سے ہنس کر کہتا کہ عامر بھائی یہ آپ کی محبت ہے ۔حقیقت میں یہ ان کا بڑکپن اور وسیع القلبی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان کی موجودگی سے اطمینان رہتا تھااور فرنٹ پیج ان کو ہی دکھا کر فائنل کیاکرتا،میں بھی جب اپنی ہیڈ لائین میں پھنس جاتا تھا تو پھر عامر صاحب سے فائنل کراتا تھا۔ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے اسے تمام کر کے ہی چھوڑتے تھے ۔ ملی مسائل ہو ں یا سیاسی بحثیں ،عائلی تنازعات ہوں ،سبھی پر مرحوم عامر سلیم بھائی گہرائی سے اور سنجیدگی سے لکھتے تھے اور خوب لکھتے ۔ شریفانا عادات اوراپنی منکسر مزاج خصوصیت کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوںسے نہایت محبت،خوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آتے ۔ان کے ساتھ دفتر کا جو ماحول رہا وہ قابل رشک تھا ۔کام کرنے کے دوران احباب کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام کررہے ہیں ۔شاید یہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر ڈاکٹر خالد انور کی خوبیوں میں سے ایک ہے کہ انہوںنے ورکرس کو ہمیشہ دوستانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور ان کی پسند اور سہولتوں کا خیال رکھا ۔یہی وجہ تھی کہ عامر بھائی بھی اپنے مشفقانہ سلوک سے ماحول کو خوشگوار رکھا کرتے ۔اکثر کام سے قبل ہنسی مذاق کا ماحول رہتااور پھر سب اپنے کام میں محو ہوجاتے، لیکن کام شروع کرنے سے قبل وہ سگریٹ کا کش لگانا نہ بھولتے ۔ کبھی ان کو کچھ کھانے کی خواہش ہوتی تو سبھی کا خیال کرتے ، احباب کی فرمائش پر وہ گرما گرم پکوڑے اور چائے کا ناشتہ منگواتے جس سے سب محظوظ ہوتے ۔ وہ گھر سے لائے میرے لنچ کے ایک دو نوالہ ضرور چکھتے ، مجھے یاد ہے کہ آخری دن دفتر میں وہ میری چیئر کے پاس آئے اور پوچھا آج آپ کے پاس لنچ میں کھانے کیلئے کیا کچھ ہے ،میںنے مذاق میںکہا ،عامر بھائی منہاج صاحب نے کھا کر ختم کردیاہے ۔۔۔پھر میں نے انہیں بیگ سے نکال کر رکھے ہوئے کچھ میوے اور انجیر دی ،انہوںنے تکلفاایک انجیر لی اور اسے لے کر اپنی چیئر کے پاس جا کر کھڑے ہوکر کھانے لگے،میرے دوست منہاج صاحب جب مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپنے کونسی اسپیشل چیز عامر بھائی کو دی ہے ہمیں بھی کھلائیں !۔میں اس پر ہنس پڑا، تو عامر بھائی اپنی سیٹ کے پاس سے والتین والزیتون آیت پڑھ کر منہاج صاحب کو سنا نے لگے اورخوب لطف اندوزہوئے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔میں اکثر عامر بھائی سے کہتاتھا کہ آپ اپنا خیال رکھیں اور سگریٹ نوشی چھوڑ دیں،لیکن وہ مسکرا کرنظر انداز کر دیتے۔ یہ مختصر سے تاثرات تھے جو میں شیئر کر سکا ،ان کی کمی دفتر کو کافی کھلے گی ،آج ان کی سیٹ خالی ہے اور نظریں انہیں ڈھونڈ رہی ہیں ،بلاشبہ ان کی صحافتی خدمات سنہرے الفاظ میں لکھنے کے لائق ہیں۔ ان کے چلے جانے سے بچوں کی کفالت کا بڑا سوال کھڑا ہوگیا ہے ۔لیکن ہمارا سماج نے اس پر غور خوض کیا اورچیف ایڈیٹر ڈاکٹر خالد انور نے عامر سلیم صاحب کے بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھایا ہے ،ایک قابل تحسین قدم ہے ۔ اللہ رب العزت عامر صاحب کو غریق رحمت کرے ،ان کے اہل وعیال کو صبر جمیل دے۔آمین یا رب العالمین