مقام رکہٹ پوسٹر رام نگر،ضلع سدھارتھ نگر میں فلاح انسانیت ٹرست اٹوا کی جانب سے سے دینی جلسے کا انعقاد
اٹوا، سدھارتھ نگر، سماج نیوز:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور اس نے عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا دی: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو عذابِ قبر سے بچائے‘‘، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت سوال کیا (کہ کیا واقعی عذابِ قبر ہوتاہے؟) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! عذابِ قبر حق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ دیکھا کہ ہر نماز میں عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (بخاری و مسلم)اس کی تفصیل شیخ نے حدیث کی روشنی میں بیان کیا اور کہا جیساکہ براء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں شرکت کیلئے گئے تو جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ارد گرد اس طرح بیٹھ گئے ہمارے سروں پر پرندے منڈلا رہے ہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے وہ زمین کو کرید رہے تھے تو انہوں نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمانے لگے – اور دو یا تین دفعہ یہ کہا کہ :عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو پھر فرمانے لگے: جب مؤمن شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے روشن چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں تو اس کے پاس حد نظر تک بیٹھ جاتے ہیں ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے کفن اور جنت کی خوشبووں میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا اور اس سے کہتا ہے کہ اے اچھی اور نیک روح اپنے رب کی مغفرت اور بخشش اور رضا کی طرف نکل چل تو وہ اس طرح بہہ نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کی منہ سے قطرہ بہتا ہے تو جب اسے پکڑتے ہیں تو اسے لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس کفن اور خوشبو میں کر لیتے ہیں تو اس سے ایسے کستوری کی خوشبو آنی شروع ہوتی ہے جو کہ زمین پر سب سے اچھی پائی جاتی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی اچھی روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے اچھے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو کھول دیا جاتا ہے تو ہر آسمان پر اس کا استقبال کرنے والے دوسرے آسمان تک لے جاتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ تعالی فرماتے ہیں :میرے بندے کی کتاب ساتویں آسمان میں علیین کے اندر لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ وہ جو تیرے پاس مبعوث کر کے بھیجا گیا وہ کون ہے ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرے عمل کیسے ہیں ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی کتاب کو پڑھا تو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے میرے بندے نے سچ کہا ہے اس کا بستر جنت کا بچھاؤ اور اسے لباس بھی جنت کا پہناؤ اور اس کیلئے جنت کی طرف دروازہ کھول دو تو اس درواز ے سے جنت کی خوشبو اور ہوا آتی ہے اور اس کی قبر حد نظر تک وسیع کر دی جاتی اور اس کے پاس خوش باش چہرے والا اور اچھے لباس اور اچھی خوشبو میں ایک شخص آکر کہتا ہے تجھے ایسی خوشخبری ہے جو کہ تیرے لئے خوشی کا باعث ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے تو خیر اور بھلائی ہی جھلکتی ہے تو وہ اسے جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم کر دے تا کہ میں اپنے اہل وعیال میں واپس جاسکوں اور جب کافر شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اترتے ہیں اور ان کے پاس ٹاٹ ہو گا (یعنی کھردرا کپڑا) تو اس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتا اور کہتا ہے اے گندی اور خبیث روح اللہ تعالی کے غضب اور ناراضگی کی طرف چل تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جب وہ نکلتی ہے تو اس کے ساتھ رگیں اور پٹھے ٹوٹنے لگتے ہیں جس طرح کہ بھیگی ہوئی روئی سے سیخ کھینچی جاتی ہے تو وہ اسے پکڑ لیتے ہیں اور لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں تو اس سے اتنی گندی بو اٹھتی ہے جیسے زمین میں کسی مردار کی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی گندی اور خبیث روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے برے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ وہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو اسے نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:’’ ان کیلئےآسمان کے دروازے نہیں کھولیں جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں داخل نہ ہو جائے ‘‘( الاعراف :40)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرمائے گا: میرے بندے کی کتاب سجین سب سے نچلی زمین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا تو اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے اور راوی کہتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :’’ اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پر پھینک دے گی‘‘۔ >( الحج: 31) تو انہوں نے کہا کہ اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاں ہاں مجھے تو علم نہیں- پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاںہاں مجھے تو علم نہیں تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے اس کے لئے جہنم کا بستر دو اسے جہنم کا ہی لباس پہنا دو اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دو تو انہوں نے کہا کہ اس دروازے سے جہنم کی گرمی اور لو آئے گی اور اس پر قبر اتنی تنگ ہو جائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور اس کے پاس برے چہرے اور قبیح شکل اور گندے اور برے کپڑوں پہنے اور اس سے بری بدبو آرہی ہو گی آکر کہتا ہے تو ایسی خبر سن جسے تو برا محسوس کرے گا یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے برائی اور شر جھلک رہا ہے وہ اسے جواب دے گا میں تیرے برے اور خبیث اعمال ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر قیامت قائم نہ کر – ابو داؤد (4753) مسند احمد (18063) اور یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع (1676) میں صحیح قرار دیا ہے ۔تو صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں فرشتے میت سے توحید اور عقیدہ کے علاوہ کچھ نہیں پوچھتے اور یہ واضح اور ظاہر ہے ان خیالات کا اظہار شیخ عبدالغنی سلفی نے سامعین کو خطاب کر تے ہوئے کیا۔
اس موقع پر شیخ شیخ معین الدین سلفی حفظہ اللہ نے دین کے کاموں میں لوگوں کو پیش پیش رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے دینی جلسوں کو منعقد کرنے والے لوگوں کو مبارکباد پیش کیا خاص طور پر پر رکہٹ جیسے بچھڑے علاقے میں جہاں دین بہت مشکل سے سننے اور سنانے کو ملتا ہے۔ قاری حنیف صاحب وغیرہ کو کو مبارکباد پیش کیا اور آئندہ بھی اس طرح کے جلسے اور جلوس کرانے نے اور اس سے فائدہ اٹھانے پر ابھارا۔ اسی طرح سے شیخ معراج مدنی حفظہ اللہ زلزلے کے اسباب و عوامل کو کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ شام اور ترکی میں زبردست جو زلزلہ آیا اس کی وجہ سے سے بڑا جانی اور مالی نقصان ہوا ہم سب کو اس طرح کے حادثات سے عبرت پکڑنا چاہیے اس بزم سعید کا آغاز از قاری صفی الرحمن فرقانی نے قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ کیا محمد انیس گونڈوی نے حمد پاک پیش کیا وہیں پر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم فضل الرحمن گونڈوی نے پیش کیا۔ بعدہ شعیب ا نور نے نے موت کے موضوع پر پر ایک زبردست خطاب کیا ا سی طرح کلیم اللہ ریانی نے بہترین خطیبانہ انداز میں مختصر سے وقت میں جہنم کی آگ کو بیان کرتے ہوئے ہوئے ہم سب کو جہنم سے بچنے کی تلقین فرمائی بھائی اس موقع پر رکہٹ کے نوجوانوں نے بہت محنت کر کے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا کیا وہیں پر بزرگوں نے بھی اس پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا عور توں نے گھروں میں بیٹھ کر کے خطابات سنا اور علماء اسلام کے خطابات سے فائدہ اٹھا یا۔