Samaj News

دہلی کی سیاست میں بھونچال، کجریوال کے دو وزراء مستعفی

منیش سسودیا کو سپریم کورٹ سے نہیں ملی راحت، ہائی کورٹ جانے کی دی ہدایت

نئی دہلی،سماج نیوز: اروند کجریوال حکومت کے دو اہم وزراء منیش سسودیا اور ستیندر جین نے منگل کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے استعفیٰ کے بعد کیلاش گہلوت اور راج کمار آنند کو ان دونوں وزراء کے محکموں کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ کیلاش گہلوت کو فینانس، پی ڈبلیو ڈی، ہوم اینڈ واٹر، منیش سسودیا کے چیف ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ گہلوت کے پاس پہلے ہی ٹرانسپورٹ کی وزارت کی ذمہ داری ہے، جبکہ راجکمار آنند کو تعلیم اور صحت کی وزارت کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان دونوں کا ہی استعفیٰ نامہ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے منظور بھی کر لیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ منیش سسودیا کے پاس کئی محکموں کی ذمہ داری تھی۔ ستیندر جین کے جیل جانے کے بعد ان کے محکمہ کا کام منیش سسودیا ہی دیکھ رہے تھے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دہلی حکومت کے 33 محکموں میں سے 18 محکموں کی ذمہ داری منیش سسودیا کے پاس تھی۔ستیندر جین گزشتہ تقریباً 9 ماہ سے جیل میں بند ہیں اور اب منیش سسودیا کی گرفتاری کے سبب اپوزیشن پارٹیاں کجریوال حکومت پر پوری طرح حملہ آور دکھائی دے رہی ہیں۔ اب جبکہ سسودیا کے ساتھ ساتھ ستیندر جین نے بھی اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، تو دہلی کی سیاست میں ایک ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ حالانکہ دونوں کے استعفیٰ پر دہلی کے وزیر ماحولیات گوپال رائے نے کہا کہ اس سے دہلی کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور بی جے پی کے منصوبے کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔اس درمیان بی جے پی رکن پارلیمنٹ منوج تیواری نے وزیر اعلیٰ کجریوال کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سسودیا اور ستیندر جین کے استعفیٰ کے بعد منوج تیواری نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے ’’سپریم کورٹ کی زبردست پھٹکار سے عآپ کی نیند ٹوٹی… آخر کار منیش سسودیا اور ستیندر جین کو دینا ہی پڑا استعفیٰ۔ کجریوال جی اخلاقیات کی بنیاد پر استعفیٰ تو آپ کا بھی بنتا ہے‘۔دوسری جانب دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو راحت دینے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا ہے۔ اس وقت عآپ لیڈر سسودیا سی بی آئی کی حراست میں ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے انھیں کچھ راتیں حراست میں ہی گزارنی ہوں گی۔ آبکاری معاملے میں زیر حراست سسودیا نے ضمانت کے لیے 28 فروری کو سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا، لیکن چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے اس معاملے کو سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انھیں ہائی کورٹ جانا چاہیے۔چیف جسٹس نے منیش سسودیا کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آپ براہ راست سپریم کورٹ سے ضمانت اور دیگر راحت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ نے ارنب گوسوامی اور ونود دُوا کیس کا حوالہ دیا، لیکن وہ اس سے بالکل مختلف معاملے تھے۔ آپ کو ذیلی عدالت سے ضمانت لینی چاہیے، ایف آئی آر رد کروانے کے لیے ہائی کورٹ جانا چاہیے۔سسودیا کی طرف سے پیش وکیل ایڈووکیٹ اے ایم سنگھوی نے اپنی بات بنچ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے صرف تین منٹ بولنے دیجیے۔‘‘ پھر انھوں نے کہا کہ ’’مجھے (سسودیا کو) صرف دو بار پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا۔ گرفتاری سے پہلے ارنیش کمار معاملے میں آئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔ نہ مجھ پر ثبوت سے چھیڑ چھاڑ کا الزام ہے، نہ میرے بھاگنے کا اندیشہ تھا۔‘‘ ان باتوں کو سننے کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’’یہ باتیں درست ہو سکتی ہیں، لیکن سیدھے سپریم کورٹ اسے نہیں سن سکتا۔‘‘جسٹس پی ایس نرسمہا نے عرضی دہندہ کے وکیل سے کہا کہ یہ معاملہ دہلی کا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سیدھے سپریم کورٹ آ جائیں۔ سنگھوی نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کا محافظ ہے۔ اس پر سی جے آئی نے پوچھا کہ کیس کس دفعہ سے جڑا ہوا ہے۔ جواب میں سنگھوی نے بتایا کہ انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 7 سے جڑا ہے۔ پھر سی جے آئی نے کہا کہ ’’آپ جو بھی کہہ رہے ہیں، وہ ہائی کورٹ کو کہیے۔ ہم نہیں سنیں گے۔‘‘ جب سنگھوی نے بنچ کو یہ خبر دی کہ روسٹر کے حساب سے ہائی کورٹ میں جس جج کے پاس معاملہ جانا ہے، وہ ایک ٹریبونل کا بھی کام دیکھ رہے ہیں اور مصروف ہیں، تو بنچ نے واضح لفظوں میں کہا کہ اس کی فکر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے، انھیں اپنی پریشانی بتائیے۔

Related posts

عمران خان کی گرفتاری سے جل اٹھا پاکستان

www.samajnews.in

چین میں کورونا کا قہر، بھارت میں الرٹ

www.samajnews.in

نصیر الحسن جھنجھانوی MEPسیاست کے شہسوار، پرانی دہلی میں آپ کا پرزور استقبال وپذیرائی

www.samajnews.in