نئی دہلی، سماج نیوز: (مطیع الرحمٰن عزیز) عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ درجنوں اداروں کی روح رواں اور قومی پیمانے کی سیاسی پارٹی، اور عالمی پیمانے کی تاجرہ و ایشیا سطح کے تعلیمی ادارے بھارت کی سرزمین پر لے کر آنے والی خاتون نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ مجھے روکنے اور اور باز رکھنے والے ، تجارت سے مجھ کو دور کرنے والے سازشیوں کا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ وہ مجھے نقصان پہنچائیں۔ کیونکہ میں نے کبھی پوری زندگی میں کسی ایک پتنگے کو بھی چوٹ نہیں پہنچایا تو انسان اور دیگر مخلوقات کو کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہوں۔ لوگوں کا مجھے روکنے کا مقصد میری خطا جو ان کی نظر وںمیں کھٹکتی تھی وہ میری فلاح و بہبود اور غریبوں، یتیموں ، مفلسوں اور مفلوک الحال لوگوں کی داد رسی میرے رقیبوں کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا تھا۔ وہ میرے ذریعہ کئے گئے غریبوں کے لئے کام کو روکنا چاہتے تھے۔ جس کے لئے ہزاروں دھمکیاں، سیکڑوں فون کالز، طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ میرے عزم صمیم کو یہ ہرگز گوارہ نہ تھا کہ میں ان بزرگوں کی دواؤں کے اخراجات کو روک دوں۔ نابیناؤں کے وظیفہ کو ترک کردیاجائے۔ یا بچوں کی غذا اور تعلیم کے وسائل کو قفل بندی کا شکار کر دیا جائے ۔ مجھے روکنے والے سازشیوں کا مقصد مجھے روکنا نہیں تھا بلکہ میرے ذریعہ سے وقوع پذیر ہونے والے ان تمام کاموں کو درگور کرنا تھا جو لاکھوں کروڑو ں کی تعداد میں غریب اور خصوصا خواتین اور بچے وبزرگ ، مریض اور نادار لوگ میرے ذریعہ فلاح پا رہے تھے۔
عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے بتایا کہ جب میں نے زندگی میں پہلی بار اس آواز کو اٹھایا کہ تعلیم مرد اور خواتین کے لئے برابر ضروری ہے۔ بغیر تعلیم کے انسان مرد ہو یا عورت حیوانوں جیسا ہے۔ اور ایک جامعۃ النسواں السلفیہ کا قیام عمل میں لایاگیا تو اس جامعہ کے چہار جانب شر پسندعناصر گھومنے لگے ، اور ہر طرح کے حربے استعمال کئے گئے کہ میں خواتین کے لئے جامعۃ النسواں السلفیہ کے قیام سے باز آجاؤں۔ یہ لوگ اللہ اور رسول کے دین کی خالص تعلیم سے مجھ کو کیوں روک رہے تھے مجھے اب تک نہیں معلوم۔ حالانکہ جہاں میں نے ادارے کا قیام عمل میں لایا وہاں سے سو سو کلو میٹر دور دراز ریاستوں میں کوئی دیگر ادارہ نہیں تھا جو کسی کو نقصان پہنچتا۔ مگر پھر بھی اپنی کوششیں کی گئیں اور مجھے جامعہ کے قیام سے روکنے کی مکمل کوشش کی گئی۔ لیکن اللہ سے دعا اور میرے چند مخلصین کی مدد سے میں نے کام جاری رکھا اور جامعہ جس کی تخمینی لاگت سو کروڑ روپئے تھی۔ تکمیل کو پہنچایا۔ اس مدرسہ سے میری صرف یہی سوچ تھی کہ مدرسہ اور جامعات کو غریبوں کا مسکن اور یتیموں کا قیام گاہ، غریب علماء ودعاۃ کے ذریعہ درس دیا جانے والا ادارہ جسے سمجھا جاتا ہے ، اس میں امیر ترین افراد کی بچیاں بھی تعلیم حاصل کریں۔ اور جھوپڑیوں میں پنپنے والا دین اسلام امیروں کی کوٹھیوں اور بنگلوں میں بھی مذہب اسلام کی روشنی جگمگائے۔
عوام اور سماج کے لئے کینسر جیسی وبا سود سے لوگوں کو چھٹکارہ دلانے کے لئے میں نے عالمی پیمانے کا سود سے پاک تجارت شروع کیا۔ جس میں لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم ہوا۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگوں نے سود سے پاک تجارت میں شرکت کرکے پچیسوں سال تک سود کی لعنت میں پھنسے ہوئے افراد نے چھٹکارہ حاصل کیا۔ اور اپنے گھروں پر رہتے ہوئے صاف پاک شفاف سود سے پاک تجارت سے مستفید ہوتے ہوئے جہاں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا وہیں بزرگوں کی دواؤں اور دیگر بنیادی ضروریات سے لوگوں کا نمٹنا آسان ہو گیا۔ بچیوں کی شادیوں میں آسانیاں فراہم ہوئیں۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے۔ چھوٹے موٹے تجارت لوگ خود کرنے لگے۔ کرایوں کے گھروں میں گزر رہی نسلوں کی زندگیوں کو اپنے گھر کا تحفہ مہیا ہوا۔ اور سب سے خاص بات یہ کہ جو لوگ زکوۃ اور فطرہ لیتے تھے وہ دینے والے بن گئے۔ یہاں تک کہ خوشحالیاں ہمارے ذریعہ سے لوگوں کی نسلوں کو سدھارنے کا ذریعہ بن گئیں۔ یہ غریبوں کے فلاح وبہبود غلط کاروں کی آنکھوں میں دن رات چبھنے لگے۔ بینک کے مالکوں کو ان کے سودی حرام کاموں میں نقصان نظر آنے لگا۔ لہٰذا یہ سب کامرانیاں لوگوں کو راس نہ آئیں اور میرے خلاف وہ سب کچھ کیا گیا جس کی مستحق میں نہ تھی۔
ملک میں بلکتی انسانیت اور خواتین و غریبوں کے خلاف جرم کی نت نئی داستانیں۔ کہیں طلاق کے تھپڑ تو کہیں زندہ درگور کرنے کی ستم ظریفیاں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی لائنوں میں موت ۔تو دواؤں کی عدم فراہمی سے گھروں میں پسری مایوسیاں۔ چوری ، ڈکیتی ، رہ زنی، بھوک مری اور طرح طرح کے جرائم کو دیکھ کر جب سیاست کا رخ کیا ۔ اور کوشش اس بات کی ہوئی کہ ایوان بالا سے مظلوموں کی آواز بلند کی جائے۔ سیاسی گلیاروں میں ہو رہی بدعنوانیوں کا قلع قمع کیا جائے۔ غریبوں کے لئے نکلنے والی اسکیموں کو ان تک پہنچایا جائے۔ ملک کی سڑکوں کو گڈھوں سے پاک کیا جائے۔ اسپتالوں سے مریضوں کو فیض ہونے کے اقدامات کئے جائیں۔ جب ان افکار کے ذریعہ ایک الگ میدان سے کوشش کی گئی کہ غریبوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کام کیا جائے ۔تو ایک بار پھر غلط کار لوگوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔
میرا دس ہزار طلبا کے لئے میڈیکل کالج بنانا اور ملک کے کونے کونے سے پیسے مہیا نہ کرپانے والے قابل طلبا کے لئے انتظامات کرنا لوگوں کو راس نہ آیا۔ لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کا ذریعہ سود سے پاک تجارت لوگوں کی آنکھوں میں کنکر بن گیا۔ لہذا مجھے تمام اقدامات سے روکنے کی کوشش اور ہتھکنڈے اپنائے گئے جو ملک کے غریبوں کے کام آسکتا تھا۔ لہذا مجھ سے کسی کو کوئی بیر اور دشمنی نہ تھی۔ اگر شر پسندوں کو ناپسند تھا تو ہمارے ذریعہ غریبوں کے لئے کئے گئے فلاح کے کاموں کا ہونا نا پسند تھا۔