سہارنپور، سماج نیوز:(احمد رضا) نماز عید الفطر کے پر امن طریقے سے نپٹ جانے کے بعد ملت اسلامیہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ محمد علی نے کہا کہ ہماری قوم تشدد اور بد امنی میں قطی یقین نہیں رکھتی مسلم طبقہ امن اور بھائی چارے کا علمبردار ہے جبکہ زیادہ تر ہندو شدت پسند افراد امن کے قیام کے سخت خلاف ہیں اسلئے وہ بات بات پر مسلم افراد کے خلاف نفرت آمیز باتیں اور جملہ ادا کرتے ہیں جس وجہ سے ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے را م نو می کے موقعے پر جو کچھ ملک کے بیشتر علاقوں میں فسادات بھڑک اٹھے وہ سبھی کے سامنے ہیں۔ سینئر ایڈوکیٹ علی نے کہا کہ گذشتہ دنوں آل انڈیا ملّی کونسل اور جمعیت علما بہار کا ایک وفد مولانا انیس الرحمٰن قاسمی اور ڈاکٹر فیض احمد قادری کی زیر بہار شریف کے فساد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے بعد حکومت بہار کے چیف سکریٹری عامر سبحانی سے ملے قائدین نے اپنے مطالبات میں متاثرین کو معاوضہ دینے اور بہار شریف کے متاثرہ علاقہ لہیری کے تھانہ انچارج کی لا پرواہی اور غفلت کی جانچ کئے جانے كا بھی پر زور مطالبہ کیا ہے نتیش کمار سرکار کے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی نہی کئے جانے کے نتیجہ میں مسلم طبقہ کافی گھٹن محسوس کر رہا ہے سبھی لاپرواہ افسران میں جس کے تس اپنی اپنی کرسیوں پر ڈٹے ہوئے ہیں مظلوم مسلم طبقہ خوف اور دہشت کا شکار بنا ہوا ہے سخت کارروائی فسادیوں کے خلاف نہی ہو نے کے سبب افسران کے حوصلے ضرور بلند ہیں بہار کے سیکولر پارٹی یعنی متحدہ محاذ کی حکومت میں رہنے والے وزرا اور دیگر ایم ایل اے و ایم ایل سی وغیرہ کی خاموشی بھی بہت ہی افسوسناک ہے مسلم طبقہ کے حق میں اور جبر و ستم کے خلاف کوئی بھی کھل کر بولنے کی ہمّت نہیں کر رہا ہے کہ کہیں ان کے سیاسی آقا خفا نہ ہو جائیں اس لئے کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی زمین تو ہے نہیں ،سب کچھ سیاسی آقاو¿ں کی مرہون منّت ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اس فساد کے حوالے سے عوامی طور جو ایف آئی آر متعلقہ تھانے کو دیا جارہا ہے ، ان پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ وہاں کے بی ڈی او اور سی او کے ذریعہ دئے جانے والے ایف آئی آر کو درج کیا جا رہا ہے اس سانحہ میں مظلوم کو ہی مجرم بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ایک اچھی بات اس ماحول میں یہ ہوئی کہ مشہور قانون داں محمود پراچہ اس علاقے کا دورہ کرنے پہنچے ہیں وہ ضرور قانونی نکتوں کو سمجھتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائیں گےبہار شریف کے اس فرقہ وارانہ فساد نے بہت سارے لوگوں کو 1981 ءکے فساد کی یاد دلا کر دہلا دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں اس سال کے رامنومی کے موقع پر فساد کرنے اور کرانے کی کوششیںکی گئیں ، لیکن بہار شریف کے فساد کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی ۔ یہاں تک کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی ) بھی خاموش نہیں رہا۔اس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد ہوا ہے اور انتہا پسندوں کے ہجوم نے مدارس کے ساتھ ساتھ لائبریریوں کو بھی نذر آتش کیا ہے او آئی سی نے بطور خاص بہار شریف میں ہونے والے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اس ضمن میں بی بی سی، لندن نے اپنے ایک نشریہ میں کہا ہے کہ او آئی سی کے سکریٹری جنرل ان پر تشدد واقعات کی مذمت کرتے ہیں ۔ یہ پر تشدد واقعات بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی واضح مثال ہے او آئی سی کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایسے واقعے پر قدغن ضروری ہے یہ پہلاموقع نہیں ہے جب او آئی سی نے ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھائی ہو ، لیکن ہندوستان کی وزارت خارجہ ہمیشہ یہ کہہ کر اپنا پلّو جھاڑ لینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔