23.1 C
Delhi
جنوری 22, 2025
Samaj News

’کائرہے اس دیش کا پردھان منتری، لگا دو کیس مجھ پر، جیل لے جاؤ مجھے بھی!‘: پرینکا گاندھی کا وزیر اعظم مودی پر سخت حملہ

نئی دہلی، سماج نیوز: کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو لوک سبھا کی رکنیت سے نااہل قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج میں پارٹی لیڈروں اور کارکنوں نے آج مہاتما گاندھی کے مجسموں کے سامنے ایک روزہ ستیہ گرہ کیا۔ پارٹی کے مطابق یہ ‘سنکلپ ستیہ گرہ تمام ریاستوں اور اضلاع میں مہاتما گاندھی کے مجسموں کے سامنے راہل گاندھی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا۔ اگرچہ پہلے کہا جا رہا تھا کہ یہ شام پانچ بجے تک چلے گی لیکن سہ پہر ساڑھے تین بجے ختم کر دی گئی۔اب یہ صرف کانگریس یا راہل گاندھی کا معاملہ نہیں ہے، یہ جمہوریت کا معاملہ ہے۔ کیا یہ جمہوریت کے لیے اچھا ہے کہ اپوزیشن کا مرکزی رہنما پارلیمنٹ میں آواز نہ اٹھا سکے؟ انہیں جیل بھیجنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس کا نقصان صرف ہندوستان کا ہے، راہل گاندھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں، کانگریس پارٹی مضبوط ہوئی ہے۔راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخی کے خلاف راج گھاڑ پر کانگریس کے ستیہ گرہ سے بولتے ہوئے پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے وزیر اعظم مودی پر سخت حملہ بولا۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ‘‘کائر ہے اس دیش کا پردھان منتری۔ لگا دو کیس مجھ پر۔ جیل لے جاؤ مجھے بھی۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ اس دیش کا پردھان منتری کائر ہے، جو اپنی ستا کے پچھے چھپا ہوا ہے!‘‘کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا ’’میرے والد کا جسد خاکی ترنگے جھنڈے میں لپیٹا گیا تھا اور میرا بھائی اپنے والد کے جازے کے پیچھے پیدل چل کر یہاں پہنچا تھا۔ اس شہید کے بیٹے کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ اسے غدار ملک کہا جاتا ہے، میر جعفر کہا جاتا ہے۔ اس کی ماں کے بے عزتی کرتے ہیں۔ آپ کے وزیر پارلیمنٹ میں میری والدہ کی بے عزتی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ خاندان نہرو نام کا استعمال کیوں نہیں کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ راہل گاندھی کو معلوم نہیں ہے کہ اس کا باپ کون ہے! لیکن آپ پر کوئی مقدمہ نہیں ہوتا، آپ کو دو سال کی کوئی سزا نہیں ملتی اور نہ ہی آپ کو پارلیمنٹ سے کوئی باہر نکالتا۔ آپ کو کوئی نہیں کہتا کہ 8 سالوں کے لئے انتخاب نہیں لڑ سکتے۔‘‘پرینکا گاندھی نے مزدی کہا ’’آج تک ہم خاموش رہے اور ہمارے خاندان کی لگاتار بے عزتی کی گئی۔ میرے بھائی نے پارلیمنٹ میں مودی کو گلے لگایا اور کہا کہ میں آپ سے نفرت نہیں کرتا۔ لیکن آپ کی نفرت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ آپ ہمیں کنبہ پرور قرار دیتے ہو، بھگوان رام کون تھے، کیا وہ بھی کنبہ پرور تھے، جو اپنے خاندان کے اقدار کے لئے لڑے۔ کیا کرشن بھگوان بھی کنبہ پرور تھے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’کیا ہمیں شرم آنی چاہئے کہ ہمارے خاندان کے ارکان اس ملک کے لئے شہید ہوئے؟ اس ملک کی جمہوریت کو میرے خاندان کے اپنے خون نے سینچا ہے۔‘‘
پرینکا نے کہا ’’اگر آپ سمجھتے ہو کہ تمام ایجنسیوں کو لگا کر، چھاپہ مار کر ہمیں ڈرا سکتے ہیں تو غلط سوچتے ہو، ہم اور مضبوطی سے لڑیں گے۔ اس ملک کی جمہوریت کے لئے ہم کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس ملک کی آزادی کے لئے کانگریس پارٹی لڑی اور آج بھی لڑ رہی ہے۔ کیا عوام کو یہ سب نظر نہیں آتا؟ آپ کی تمام دولت لوٹ کر ایک آدمی کو دی جار ہی ہے۔ کیا یہ راہل گاندھی کی دولت ہے۔ یہ عوامی شعبہ کے ادارے (پی اس یو) کس کے ہیں جو یکے بعد دیگرے انہیں دئے جا رہے ہیں؟ یہ سب آپ کے ہیں اور ان سے آپ کو ہی روزگار ملتا ہے، کسی بڑے اڈانی سے روزگار نہیں ملتا۔ راہل گاندھی نے ایسا کیا کہا جو اتنی بڑی سزا سنا دی گئی۔ انہوں نے صرف دو سوال ہی پوچھ لئے نہ! جواب نہیں دے پائے تو بوکھا گے! جب کوئی متکبر شخص سوالوں کا جواب نہیں دے پاتا تو وہ اسی طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔‘‘پوری حکومت، پوری پارلیمنٹ اور تمام وزرا ایک اڈانی کو بچانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ جس کے 20 ہزار کروڑ شیل کمپنیوں میں لگے ہوئے ہیں، اس کو بچایا جا رہا ہے۔ یہ ملک آپ کا ہے، یہ لڑائی آپ کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری جمہوریت ترقی کر رہی ہے، پھر ملک میں بے روزگاری کیوں ہے؟ مہنگائی کیوں ہے؟ آپ کی رسوئی گیس کے دام کم کیوں نہیں ہوتے؟ کیا حکومت گیس کے دام کم نہیں کر سکتی؟ مہنگائی کم نہیں کر سکتی؟ اگر نہیں کر سکتی تو پھر آپ کی حکومت کس لئے ہے؟ کیا صرف اڈانی کو فروغ دینے کے لئے ہے؟‘‘پرینکا گاندھی نے کہا ’’ایک شخص کنیا کماری سے کشمیر تک یاترا پر نکلا۔ اس کے دل میں کیا احساس تھا، کہ لاکھوں لوگ اس کے ساتھ چلیں۔ آج آپ کی ساری میڈیا، تمام ارکان پارلیمنٹ کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی نے ایک طبقہ کی بے عزتی کی ہے۔ ایک شخص جو پیدل چل کر یہ کہتا ہے کہ اس ملک کو متحد ہونا چاہئے، کیا وہ آدمی ملک کی بے عزتی کر سکتا ہے؟ یہ آدمی تو کہہ رہا ہے کہ تمام طبقات کو ان کا حق فراہم کرو۔ جو آپ کا ہے آپ کے ہاتھ میں جانا چاہئے، کسی صنعت کار کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ ایک راہل گاندھی کی بات نہیں ہے، یہ پورے ملک کو بچانے کی بات ہے۔ یہ جمہوریت کو بچانے کی بات ہے۔ آپ سوال اٹھاؤ، اپنا حق مانگو یہی تو جمہوریت ہے۔ لیکن یہ حق آپ سے چھینا جا رہا ہے اور اہم مسئلہ سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔‘‘
پرینکا نے کہا ’’راہل گاندھی کی ہارورڈ اور کیمبرج کی ڈگری ہے لیکن آپ اس کو پپو قرار دیتے ہیں۔ ملک میں میڈیا والوں نے بھی انہیں پپو بنا دیا۔ پھر پتہ چلا کہ پپو تو یاترا پر نکل گیا اور پتہ چلا کہ یہ تو پپو ہے ہی نہیں! اس کے ساستھ تو لاکھوں لوگ چل رہے ہیں۔ گھبرا گئے کہ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں وہ سوال اٹھائے جن کا ان کے پاس جواب نہیں ہے! ایک آدمی کو روکنے کے لئے اتنا سب کچھ کرنا پڑا۔ جس آدمی نے سورت میں راہل گاندھی کے خلاف عرضی داخل کی۔ اس نے خود عدالت پہنچ کر کہا کہ اس کیس پر روک لگا دیجئے۔ پھر اچانک ایک سال وہ عدالت پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ اب ہم تیار ہیں کیس کھول دیجئے! پھر ایک مہینے کے اندر فیصلہ سنا دیا گیا اور سزا بھی سنا دی گئی۔ اور آپ نے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ سے باہر کر دیا جائے اور 8 سال تک الیکن نہیں سکتے!‘‘پرینکا گاندھی نے کہا کہ ‘‘کائر ہے اس دیش کا پردھان منتری۔ لگا دو کیس مجھ پر۔ جیل لے جاؤ مجھے بھی۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ اس دیش کا پردھان منتری کائر ہے، جو اپنی ستا کے پچھے چھپا ہوا ہے! لیکن اس ملک کی قدیمی روایت ہے کہ متکبر راجہ کو عوام جواب دیتی ہے اور متکبر راجہ کو یہ ملک پہچانتا ہے۔‘‘پرینکا گاندھی نے اس موقع پر میڈیا سے بھی سچ کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا ’’میڈیا کے ساتھیو! میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں، بہت ہو گیا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ پر کتنا دباؤ ہے لیکن آج جمہوریت خطرے میں ہے۔ اگر حکومت آواز اٹھانے والے کو پارلیمنٹ سے نکال دیتی ہے اور الیکشن لڑنے سے روک دیتی ہے تو یہ ملک کے لئے خطرناک ہے۔ آپ نے جب صحافت کا سفر شروع کیا تھا تو عہد لیا ہوگا کہ سچائی کے لئے بولیں گے اور لکھیں گے لیکن آج آپ بول نہیں پا رہے ہیں۔ آج ہمیں ایک ہونا پڑے گا کیوں یہ ملک خطرے میں ہے۔ ایک آدمی کو بچانے کے لئے پوری حکومت کھڑی ہو جاتی ہے۔ کتنے لوگوں نے اس ملک کے لئے خون بہایا ہے۔ کتنے لوگوں نے اس ملک کی دھرتی، اس ملک کی آزادی کے لئے خون بہایا ہے۔ ملک کے جوان سرحد پر خون کیوں بہا رہے ہیں؟ اڈانی کے لئے یا اس ملک کے کسان، غریب، خواتین اور چھوٹے کاروباریوں کے لئے! وقت آ گیا ہے ڈرو مت! ان کا سامنا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یکجا ہو جاؤ۔ سامنا کرو۔ اس ملک کو متحد رکھو اور آگے بڑھاؤ۔‘‘واضح رہے کہ جمعہ کو لوک سبھا سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ انہیں سورت کی ایک عدالت نے 2019 کے ہتک عزت کے مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائی تھی۔ لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان کی نااہلی کا حکم 23 مارچ سے ہی نافذ ہوگا۔

Related posts

بھاجپا کی بوکھلاہٹ کانگریس کی کامیاب ’یاترا‘ اور راہل کی مقبولیت کا نتیجہ:طارق صدیقی

www.samajnews.in

بزرگوں کے درس اور اصولوں کو بھلا دینے والی قوم ہی اکثر تباہی و پستی کا شکار بنتی ہے:مولانا محمد یعقوب بلند شہری

www.samajnews.in

وارم اَپ میچ میں بھارت کی جیت

www.samajnews.in