نئی دہلی، سماج نیوز:دہلی کا قدیم تعلیمی ادارہ مدرسہ زبیدیہ جو محلہ نواب گنج میں واقع ہے۔ در اصل یہ ایک قدیم مسجد ہے جسے مرحومہ زبیدہ خاتون نے 1340 ہجری میں تعمیر کروایا تھا، اسی وقت سے اس میں مدرسہ بھی قائم ہوا تھا، جس کی نشأۃ ثانیہ سن 2000 میں حافظ رضاء الحق سلفی صاحب نے کی، تب سے ابتک اپنے مخلص معاونین کے ساتھ اس کی ذمہ داری بحسن وخوبی نباہ رہے ہیں، ہزار اللہ خیرا، جس میں تقریبا 40 _45 بچے حفظ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، جن کے خورد ونوش کا انتظام مدرسہ میں رہتا ہے، حافظ شاہد ریاضی ودیگر 4 اساتذہ بحسن وخوبی تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہی اساتذہ کی محنت نیز مہتمم مدرسہ کی زیر سرپرستی 12 مارچ کو انجمن صوت الطلباء کے زیر اہتمام طلبہ کے مابین حفظ و قرأت اور اردو تقاریر کا مقابلہ ہوا جس میں دو گروپ تھے، مسابقہ قرأت گروپ الف میں پہلا انعام ارسلان بن مجیب الرحمن، دوسرا انعام الحق، تیسرا عبدالحسیب بن عبد المغنی نے حاصل کیا، گروپ (ب) کا پہلا انعام زبیر شاہد دوم ایان نے حاصل کیا، اسی طرح اردو تقاریرگروپ الف میں اول انعام نعمت اللہ بن رحمت اللہ دوم ارسلان سوم عبدالحسیب کو ملا، اردو تقریر گروپ (ب) میں پہلا انعام محمد حسان بن حسین اختر دوم عبداللہ بن رحمت اللہ سوم ایان بن ریاض احمد کو شریک علماء کے بدست دیا گیا۔
دینی و دعوتی اجلاس: اس کے علاوہ بعد نماز مغرب دینی و دعوتی اجلاس کا آغاز مدرسہ کے استاد قاری محمد عرفان الحسینی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، جلسہ کی صدارت شیخ شکیل احمد سنابلی نے فرمائی، جبکہ نظامت کے فرائض شیخ عبدالرزاق ریاضی نے بحسن وخوبی انجام دئے، مدعوئین علماء میں مولانا عبدالمبین ندوی استاذ جامعہ ریاض العلوم دہلی کا مدلل خطاب قرآن کی عظمت و فضیلت کے موضوع پر ہوا موصوف نے کم وقت میں نزول قرآن مجید کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ رمضان المبارک کے افضل مہینہ میں جو جلد ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے میں قران مجید کا نزول ہوا، جسے اللہ نے پوری کائنات کے لئے چشمہ ہدایت بنایا، اور اس کی رہتی دنیا تک حفاظت کی ذمہ داری خود لے لی، انہی ننھے منے بچوں کے سینہ میں اسے محفوظ کردیاہے، اس کے علاوہ دیگر آسمانی صحیفے نزول کے بعد منسوخ ہوگئے، قرآن کریم پر پرکفار قریش سے لے کر اب تک جس بدبخت نےاعتراض کیا یا نکتہ چینی کی تو منہ کے بل گرا، تاریخ اس پر شاہد ہے، اس میں تمام اعتقادی و جسمانی بیماریوں کا علاج وشفا ہے، ان آیتوں کی شیخ نےنشاندہی کی، اصلاح معاشرہ میں خواتین کے کردار پر بھی روشنی ڈالی،دوسراخطاب نوجوان مقرر شیخ حافظ عمیر کمال سلفی کا ہوا، موصوف نے بھی پرجوش انداز میں قرآن کی فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی، اور بتایا کہ یہ وہ کلام ہدایت ہے جس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، مختلف ایات واحادیث سے اپنے خطاب کومدلل کیا، آخری خطاب صدر جلسہ شیخ شکیل احمد سنابلی کا ہوا، موصوف نے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ میرے لئے یہان کی حاضری باعث سعادت ہے، میں صدر جامعہ سنابل شیخ محمد رحمانی سنابلی مدنی کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت کے طور پر حاضر ہوا ہون، دہلی کے قدیم مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ مدرسہ عربیہ زبیدیہ بھی قدیم اداروں میں سے ہے، جس کی اس وقت آبیاری حافظ رضاء الحق صاحب کررہے ہیں، اللہ ذمہ داروں کی کوششوں کو قبول فرمائے، شیخ کا بھی خطاب مدلل رہا اور عظمت قرآن کے اردگرد گھومتا رہا ، آخر میں مہتمم مدرسہ حافظ رضاء الحق نے علماء وتمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماہا کہ یہ علماء ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ہمین انکی قدر کرنی چاہئے، اپنے تمام معاونین نیزجلسہ میں شریک مہمانوں وخواتین کا بھی شکریہ ادا کیا، یہ اعلان بھی کیا کہ تمام شرکاء کھانا کھا کر جائیں گے، سب کو پرتکلف عشائیہ پیش کیا، جلسہ میں شریک علماء کرام میں شیخ نصراللہ سنابلی انچارج آفس جامعہ اسلامیہ سنابل، مولانا انوار سلفی، پرنسپل جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی، ڈاکٹر نور محمد، فیصل بھائی، ریاض احمد بھائی، حافط محمد شاہد ریاضی، مولوی محمد نسیم ریاضی، مظہر یقین (عاپ) نہال احمد الجزیرہ ٹوروٹراول وغیرہ بڑی تعداد میں شریک ہوئے، اللہ سب کی کوششوں کو شرف قبولیت فرمائے اور ادارہ کو نظر بد سے بچائے۔ آمین