Samaj News

قبروں کو پختہ کرنا، ان پر قبے اور گنبد تعمیر کرنا جائز نہیں:عطاء الرحمٰن مدنی

زاہدآزاد جھنڈانگری

جھنڈا نگر؍نیپال، سماج نیوز سروس: تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنا ہر عمل قرآن وحدیث کی تعلیمات کیمطابق کرے کیونکہ اگر کوئی شخص ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی اپنی زندگی قرآن وسنت سے دوری بناکر کرے تو وہ یقیناً گمراہی کا شکار ہو جائے گا، قبروں کی پختہ تعمیر ان پر گنبد اورقبے بنانے کی وجہ سے وہاں پر مردو زن میں اختلاط کے ساتھ شرکیہ اعمال کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جنہیں دیکھ کر ایک موحد کا جسم کانپ جاتا ہے۔ خان خیالات کا اظہار نیپال کے معروف اسلامی اسکالر مولانآ عطاء الرحمن مدنی نے کیا۔آپ نے قران وحدیث کی روشنی میں اپنے خیالات کا مفصل اظہار فرمایا’’صحیح مسلم میں ابو ہیّاج اسدی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : مجھے علی بن ابی طالب ر ضی اللہ عنہ نے کہا:’’کیا میں تمہیں ایسے کام کیلئے ارسال نہ کروں جس کام کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارسال کیا تھا؟[مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:](کسی بھی مجسمہ کو مٹائے بغیر اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا)‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث میں یہ بات ہے کہ قبر بناتے ہوئے سنت یہ ہے کہ زمین سے زیادہ اونچی نہ کی جائے، اور نہ ہی اس کی کوہان بنائی جائے، بلکہ ایک بالشت کے برابر اونچی کی جائے اور [کوہان کی بجائے]برابر ہو، یہی امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام کا موقف ہے، جبکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اکثر علمائے کرام سے یہ نقل کیا ہے کہ قبر کی کوہان بنانا افضل ہے، اور یہ موقف امام مالک رحمہ اللہ کا ہے‘‘۔(شرح نووی علی مسلم‘‘ (7؍ 36)
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’حدیث کے الفاظ” برابر کر دینا” کا مطلب یہ ہے کہ تم [قبر پر بنی عمارت کو] توڑ کر منہدم کر دینا، اور زمین کے برابر کر دینا، چنانچہ صرف قبر کی علامت کے طور پر صرف ایک بالشت اونچی رہنے دینا، اللہ تعالی نے اسی طرح قبریں بنانے کی اجازت دی ہے، کہ زمین سے ایک بالشت کے برابر ہی بلند کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہاں قبر ہے، اور قبر کو قدموں سے روندنے اور اہانت سے بچایا جاسکے، اور ان پر کچھ تعمیر نہ کیا جائے‘‘۔ (فتاوی نور علی الدرب (2؍ 369)
بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ قبروں کو برابر کرنے کا حکم یہود ونصاری کی قبروں کیساتھ مختص تھا، تو اس طرح کا شبہہ کئی وجوہات سے باطل ہے کی جن کا ذکر درج ذیل میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ: سب سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام تھا، اور تخصیص کیلئے دلیل کی ضرورت ہے، جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس تخصیص سے متصادم دلیل ملتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ) میں ” تِمْثَالًا ” اور ” قَبْرًا ” نکرہ ہیں جو کہ نہی کے سیاق میں آئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ حکم ہر قبر کیلئے ہے، کیونکہ نکرہ اگر نفی یا نہی کے سیاق میں آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔
ثمامہ بن شُفَی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ رومی علاقے ’’ردوس‘‘ میں تھے، تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا، تو ہمیں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے اس کی قبر برابر کرنے کا حکم دیا، اور پھر کہا کہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ قبروں کو برابر کرنے کا حکم دے رہے تھے‘‘۔تو یہ ایک صحابی کا فعل ہے ، جو انہوں نے ایک مسلمان کی قبر کیساتھ کیا ہے، جسکی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام قبروں کو برابر کرنے کا مطلب ہی سمجھا تھا۔
دوسری وجہ: اگر یہ حکم صرف یہود ونصاری کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کیساتھ مختص ہوتا تو کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ: تصاویر اور مورتیاں مٹانے کے متعلق حکم بھی انہیں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ دونوں احکامات ایک ہی حدیث میں اکٹھے وارد ہوئے ہیں، اور یہ بات بالکل باطل ہے، اہل علم میں سے کسی کا بھی یہ موقف نہیں ہے۔
تیسری وجہ: قبر پر تعمیراتی کام چاہے قبر کے ارد گرد ہو یا قبر کے اوپر ہر دو صورت میں حرام ہے، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم میں شامل ہے، اور یہ شرک کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے قبروں پر تعمیر کا حکم دیا ہو، اور ان پر مزار یا عمارتیں بنانے کا حکم بھی نہیں دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے اس چیز کی ممانعت ثابت ہے، آج بھی بقیع میں صحابہ کرام کی قبریں سب لوگوں کیلئے عیاں ہے، کوئی قبر بھی اونچی نہیں ہے، اور ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مزار وغیرہ بھی نہیں ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر پرکھتے ہیں، چنانچہ مخالفین کو کہا جائے گا: اگر قبر نبوی پر تعمیراتی کام سنت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین اس کا حکم ضرور کرتے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو ساتھیوں کی قبر پر اس لئے تعمیر کی کہ انہوں نے مسجد کی توسیع کیلئے قبر پر ایک دیوار بنائی، تا کہ عوام الناس قبر نبوی کو سجدہ گاہ نہ بنا لیں، اور جاہل لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنے۔
چنانچہ بخاری اور مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا تھا: "اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فر مائے جنہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا‘‘ اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی سب کیلئے عیاں ہوتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’علمائے کرام کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یا کسی اور کی قبر کو بھی سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا تھا، اس لئے کہ کہیں لوگ تعظیم نبوی میں غلو سے کام لیں اور فتنے میں نہ پڑ جائیں، جو کہ بسا اوقات انسان کو کفر تک بھی پہنچا سکتا ہے، جیسے کہ گزشتہ اقوام کیساتھ ایسا ہو بھی چکا ہے۔اور جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور تابعین کرام کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث مسجد نبوی میں توسیع کی ضرورت پیش آئی ، اور توسیع امہات المؤمنین کے گھروں تک پہنچ گئی ، جن میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی تھا، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دو ساتھیوں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا مدفن بھی ہے، تو انہوں نے قبر کے ارد گرد چاروں طرف دیوار بنا دی تا کہ مسجد سے قبر نظر نہ آئے، اور کہیں عوام اسی طرف متوجہ ہو کر نمازیں نہ پڑھنے لگیں، اور حرام کام کا ارتکاب نہ کریں، پھر اسکے بعد انہوں نے شمالی جانب کے دونوں کناروں سے دیوار کو تھوڑا سا موڑ دیا، اور انہیں اتنا بڑھایا کہ دونوں شمالی کناروں سے آنیوالی دیواریں آپس میں مل گئیں، یہ انہوں نے اس لئے کیا کہ کوئی بھی قبر کی طرف قبلہ رخ نہ ہو، اسی لئے حدیث کے آخر میں کہا:’’ اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھول دی جاتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے‘‘۔(شرح النووی علی مسلم: 5؍ 14)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کسی بھی نبی، یا ولی چاہے اہل بیت میں سے ہو یا کسی اور میں سے کسی بھی فرد کی قبر پر تعمیراتی کام کی اجازت نہیں دی، نہ مسجد بنانے کی اور نہ ہی مزار بنانے کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اسلام میں کسی بھی قبر پر مزار نہیں بنا ہوا تھا، ایسے ہی خلفائے راشدین اور ان کے ساتھ ساتھ علی بن ابی طالب، اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی کوئی مزار نہیں تھا، اس زمانے میں کسی نبی یا غیر نبی ؛کسی کی قبر پر بھی مزار نہیں بنا ہوا تھا، ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر بھی مزار نہیں تھا‘‘ انتہی (’’منهاج السنة النبوية ‘‘ 1؍ 479)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی قبریں نہ تو اونچی تھی اور نہ ہی زمین کیساتھ چپکی ہوئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں صحابہ کی قبریں کوہان والی ہیں، جن پر سرخ رنگ کی باریک کنکریاں ڈالی گئیں ہیں، قبروں پر کوئی عمارت نہیں ہے، اور نہ ہی مٹی کی لیپائی کی گئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں کی قبریں ہیں‘‘۔ (زاد المعاد 1؍ 505)اور ابو داود نے ’’المراسيل‘‘ میں نقل کیا ہے کہ صالح بن اخضر کہتے ہیں:’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی جو تقریبا ایک بالشت کے قریب اونچی تھی‘‘۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر جلنے کی توفیق دے۔

Related posts

چندرابابو نائیڈو کے جلسہ میں بھگدڑ، 8 کی موت، متعدد زخمی

www.samajnews.in

عالمی یوم اُردو: اپنے نو نہالوں کو کم از کم درجہ 5 تک اُردو ضروری پڑھائیں: ڈاکٹر ماجد دیوبندی

www.samajnews.in

’کل ہند شریعہ کونسل‘ کامقصد مسلمانوں کی دینی علمی معاشی سیاسی اقتصادی میدانوں میں شرعی رہنمائی کرنا:مولانا سلمان حسینی ندوی

www.samajnews.in