31.1 C
Delhi
مئی 24, 2025
Samaj News

پروفیسر ابن کنول کا انتقال

نئی دہلی، سماج نیوز: ممتاز افسانہ نگار پروفیسر ابن کنول ( ناصر محمود کمال ) سابق صدر شعبہ اردو دہلی یو نیورسٹی کا آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں شدید ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔ یہ خبر انتہائی افسوسناک ہے کہ اردو کے مایہ ناز استاذ پروفیسر ابن کنول کا آج علی گڑھ میں ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔ وہ علی گڑھ کے شعبہ اردو میں ایک وائوا کے سلسلے میں گئے تھے ۔یکایک ان کی طبیعت بگڑی اور اسپتال جاتے جاتے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔وہ ایک اعلی اور ذی علم خانوادے کے چشم و جراغ تھے ۔علی گڑھ کے قریبی قصبہ ڈبائی میں پیدا ہوئے اور علی گڑھ سے ہی تعلیم حاصل کی بعد از آں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاذ مقرر ہوکر صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ بیسیوں کتابوں کے مصنف تھے ۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ ان کی عمر تقریباً 65برس تھی۔ تخلیقی کاوشوں میں شاہکار افسانے ، خاکے ، انشائے ، ڈرامے اور سفر نامہ وغیر ہ قابل رشک تصنیفات ہیں۔ تنقید میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان گنت طلباء و طالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کا شرف حاصل کیا تھا۔ ان کی موت کی خبر نے ادبی و تدریس حلقے میں اداسی چھیل گئی ہے ۔ پروفیسر ابن کنول کا اصل نام ناصر محمود کمال ہے ۔ ان کی ولادت اتر پردیش کے ضلع مراد آباد کے قصبہ بہوئی میں 15اکتوبر 1957کو ایک زمیندار خاندان میں ہوئی تھی ۔ والد محترم مشہور قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے ۔ ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی علمی وادبی سرگرمیوں کے سبب کافی مشہور رہا ہے ۔ پروفیسر ابن کنول کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں علی گڑھ میں پروفیسرخورشد الاسلام، پروفیسر قاضی عبدالستار،ڈاکٹرخلیل الرحمان اعظمی، پروفیسرشہر یار، پروفیسر نور اسن نقوی، پروفیسر عتیق احمدصدیقی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر نعیم احمد اور پروفیسر اصغر عباس جیسے اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا۔ ایم اے مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے جہاں سے انہوں نے ایم فل کیا۔ تقریبا پانچ دہائیوں سے واردوزبان وادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف تھے چنانچہ اب تک مختلف اصناف میں متعدد حقیقی، تقیدی علمی وادبی مضا مین قلم بند کر چکے تھے ۔ ان کے افسانے قارئین کو حظ ہم پہنچارہے تھے ۔ اب تک اپنی بیش قیمتی 28 کتابیں اردو دنیا کو عطا کر چکے ہیں۔

ان کے چند رفقا ءکے تاثرات :

‏پروفیسر کوثر مظہری -شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ :

‏ابن کنول صاحب کا نام آتے ہی ایک ہنستا مسکراتا اور بشاس چہرہ سامنے آ جاتا ہے ۔آج جب فیس بک پر یہ اندوہناک خبر دیکھی تو طبیعت پر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی ۔وہ ایک افسانہ نگار ،خاکہ نگار ،استاد تو تھے ہی لیکن جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ ان کی رواداری اور حسن سلوک ۔وہ خردوں سے بھی کھل کر ملتے تھے ،ان کے اندر کسی قسم کی بناوٹ نہیں تھی ۔سیمینار ہو یا جلسہ یا پھر کوئی نجی مجلس نہایت خوبصورت اور اکثر بے باک گفتگو کرتے تھے ۔مجھے بے حد عزیز رکھتے تھے ۔اپنے شاگردوں کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ تھا۔اپنے رفقائے کار کے معاندانہ رویوں کا ذکر بھی کرتے تو مذاحیہ انداز میں ۔انہوں نے کلاسیکی ادب بالِخصوص داستان اور ناول پر اچھے تنقیدی کام کئے ۔ان کے افسانوں کے بھی کئی مجموعہ شائع ہو چکے ہیں جنہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔ادھر کچھ دنوں سے ،خصوصا کووڈ کے لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے خاکے لکھے اور خوب لکھے ،ساتھ ہی خاکے پڑھکر ویڈیو بناتے اور فیس بک پر شئر کرتے رہے۔خاکہ نگاری میں انہیں درک حاصل تھا ۔پڑھنے کا انداز بھی خوب تھا۔افسوس !کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے ۔اب یا تو ان کی یادیں ہیں یا تحریریں ۔دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے۔آمین

پروفیسر احمد محفوظ -صدر شعبۂ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی :

پروفیسر ابن کنول کی موت سے اردو دنیا کے لوگ بے حد غمزدہ ہیں ۔پروفیسر ابن کنول کا اچانک دنیا سے اٹھ جانا تمام اردو والوں کے لئے جانکاہ صدمے سے کم نہیں ہے۔ مرحوم نے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں طویل مدت تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ ابن کنول صاحب نہایت خوش خلق اور اور دوست دار انسان تھے۔ پوری اردو دنیا میں جن اساتذہ کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، ان میں مرحوم بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اردو زبان و ادب کے میدان میں ابن کنول صاحب کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے تمام متعلقین کو صبر عطا کرے۔

‏پروفیسر ابو بکر عباد – ‏شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی :

پروفیسر ابن کنول صاحب انتہائی ،خلیق ،ملنسار اور محبتِ کرنے والے انسان تھے۔وہ ایک اچھے استاذ،تخلیق کار اور ناقد بھی تھے۔شعبہ اردو دھلی یونیورستی میں ہمارا بیس برسوں کا ساتھ تھا۔وہ پابندی سے کلاس لیتے اور طالبعلموں کی علمی معاونت میں ہر طرح تیار رہتے تھے۔ تمام رفقاء سے بھی ان کے بہتر تعلقات تھے۔ہر کے ساتھ خوش دلي سے پیش اور عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ۔طالبعلم ان کی بعض خوبیوں کی بنا پر انھیں کافی پسند کرتے تھے ۔زود حس تھے اس لیے اچھی اور بری باتوں کا فورا اثر قبول کرنے اور جلد ہی خوش اور ناراض ہو جاتے ۔۔ غصے اور ناراضگی کی حالت میں بھی بری یہ نہ مناسب باتیں منھ سے نہیں نکالتے تھے۔ خوش گفتاری اور حس مزاح ان کی شناخت تھی ۔۔ علیگ ہونے کی وجہ سے مجھ سے بطور خاص محبتِ رکھتے تھے ۔۔شعبے سے سبکدوشی کے دن ملنے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب آپ شعبے سے ریٹائر ہو رہے ہیں ، ہمارے ذہن و دل سے نہیں۔ائے رہیے گا تاکہ آپ کی سرپرستی اور محبت کا احساس توانا رہے ۔ سن کر آب دیدہ ہو گیے،فرمایا اتا رہوں گا۔اب اچانک ان کے دنیا سے چلے جانے یقین نہیں ہو رہا ہے۔ خدا ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے ۔۔افسوس صد افسوس جو بادہ کش تھے پرانے و ہ اٹھتے جا تے ہیں۔

پروفیسر ظہیر رحمتی- ‏ذاکر حسین کالج :

‏ پروفیسر ابن کنول پریم چند اسکول کے جدید قابل قدر افسانہ نگار تھے اور دبستان قمر رئیس کے اہم ناقد اور محقق تھے ۔شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی کے وقار کی بازیافت اور تعمیر و ترقی میں آپ کا اہم رول رہا ہے ۔ابن کنول صاحب نے ہمیشہ با صلاحیت طلبا کی حتی الامکان معاونت کی اور اردو تحقیق و تنقید کو معیار و وقار بخشنے کی کوشش کی۔پروفیسر ابن کنول صاحب میرے بڑے محسنین میں سے تھے۔انہیں مرحوم لکھتے ہو میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔بہر حال مشیت ایزدی ۔ اللہ انکی مغفرت کرے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

‏پروفیسر سرور الہدی – ‏جامعہ ملیہ اسلامیہ :

‏پروفیسر ابن کنول نے ہماری ادبی اور تہذیبی زندگی کو اپنی تحریروں اور تقاریر سے متاثر کیا ہے ۔اردو نثر کے ارتقائی سفر پر ان کی گہری نظر تھی ،کلاسیکی اور جدید نثر کے سلسلے میں ان کی خدمات بہت اہم ہیں ۔اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور اردو ادب کو ان کا نعم البلد عطا کرے۔

‏پروفیسر ساجد احمد – ‏دیال سنگھ کالج دہلی یونیورسٹی :

‏پروفیسر ابن کنول موجودہ ادبی منظر نامہ میں کلاسیکی نثر کے بڑے پارکھ تھے ۔آج ان کی موت سے کلاسیکی روایت کے ایک مستند قاری و ناقد سے اردو دنیا محروم ہو گئی ۔اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے۔

پروفیسر مشتاق قادری – ‏شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی :

‏پروفیسر ابن کنول ایک مخلص اور مشفق استاد تھے۔ ان سے جب بھی کو ئی ملتا تو دیر تک اور دور تک ان کی یادوں کے نقوش ذہن و دل پر ثبت ہو جاتے نہایت نیک اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ بطور استاد وہ نہایت ایماندار تھے ان کے اچانک چلے جانے سے اردو ادب کا نا قابل تلافی نقصان ہو گیا ہے۔ اللہ تعالی غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔

Related posts

صحافتی پیشہ کو اختیار کرتے ہوئے طلبہ ملک وقوم کی خدمت کو اپناشعار بنائیں: محمد یوسف رحیم بیدری

www.samajnews.in

‘‘جنوبی افریقہ نہیں نیوزی لینڈ ہے اصلی ’’چوکر

www.samajnews.in

مدرسہ عربیہ زبیدیہ کے طلباء کاسالانہ مسابقہ اور یک روزہ دینی و دعوتی اجلاس عام

www.samajnews.in