خادم القرآان مولانا غلام محمد وستانوی کی دینی اور اصلاحی خدمات لازوال نظیر اور ہمارے لئے مشعل راہ
سہارنپور، سماج نیوز:(احمد رضا) مولانا غلام محمدوستانوی کی طبیعت اندنوں ناساز چل رہی ہے آپ کے اہل خانہ اور اہل حلقہ کے لوگ آپ کی جلد صحتیابی اور عمر میں درازی کی بے تحاشہ دعائیں کر نے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سرپرست خادم القرآان مولانا محمد غلام وستانوی کا سایہ ہمارے سر پر قائم رکھے آمین۔ آج ہم آپ کو خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کی ذندگی کی بابت چند اہم باتیں غوش گزار کر نا چاہتے ہیں وہ یہ کہ مولانا محمد غلام وستانوی کی پیدائش یکم جون 1950ء کو گجرات کے ضلع سورت کے ایک چھوٹے سے قصبہ ’’وستان‘‘ میں ہوئی ہے آپ کے والد ماجد کا نام محمد اسماعیل ہے۔ خادم القرآان مولانا محمد غلام وستانوی صاحب نے قرآن مجید اپنے وطن ’’کو ساری‘‘ میں ہی قائم مدرسہ قوۃ الاسلام میں حاصل کی اس کے بعد آپنے اپنے نانیہال ’’ہتھورن‘‘ سورت، گجرات کے مدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں ابتدائی کتابیں مختلف اساتذۂ کرام سے پڑھیں۔ اس کے بعد آپ 1964ء میں گجرات کے مشہور ومعروف مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے اور مسلسل آٹھ سال رہ کر 1982ء کے اوائل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد سند فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذۂ کرام فلاح دارین ترکیسر میں حضرت مولانا احمد بیمات، مولانا عبد اللہ کاپودروی، مولانا شیر علی افغانی اور مولانا ذو الفقار علی رحمہم اللہ جیسے نامور علماء کرام کے نام قابل ذکر اور قابل احترام رہے ہیں۔ مدرسہ فلاح دارین سے فراغت کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے 1982ء کے اواخر میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے یہاں آکر آپ نے حافظ حدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃاللہ سے صحیح البخاری اور دیگر اساتذۂِ دورۂ حدیث سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر 1973ء میں مدرسہ مظاہر العلوم سے سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد گجرات کے قصبہ ’’بوڈھان‘‘ (سورت ضلع کے ایک گاؤں) میں اپنے تدریس کا زمہ اٹھا یا مگر نہ جانے کیوں یہاں آپنے کل دس دن پڑھایا، اس کے بعد 1973ء کے اواخر میں دار العلوم کنتھاریہ (بھروچ) تشریف لے گئے اور وہاں ابتدائی فارسی سے لے کر متوسطات تک کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں طلبہ کو پڑھائیں کنتھاریہ میں تدریس کے فرائض انجام دینے ہوئے ہی آپنے بڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے 1980ء میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی بنیاد ڈالی، جس کی ابتدا ’’مکرانی پھلی محلہ‘‘ سے کی گئی، ابتدا میں ان کا قیام کنتھاریہ میں ہی رہا، اس دوران مولانا یعقوب خانپوری (ناظم مکاتب و ناظم تعمیرات) اور ان کے برادر حافظ محمد اسحاق (نائب مہتمم) نظامت سنبھالتے رہے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ یہاں رہتے ہوئے مکمل نظم وضبط دشوار ہوگا تو پھر استعفی دے کر مستقل اکل کوا تشریف لے آئے، جب سے اب تک رئیس الجامعہ کے عہدے پر فائز ہیں۔جامعہ اکل کنواں کی بنیاد کا پس منظر کے بارے مولانا فرماتے ہیں کہ ” جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے قیام سے پہلے میرا ایک دعوتی تبلیغی سفر یہاں کا(اکل کنواں) اپنے دوستوں کی دعوت پر ہوا تھا، اس وقت جب میں یہاں آیا تو مکرانی پھلی میں مہمان ٹھہرا، دیکھاکہ مسجد بھی غیر آباد ہے، قرب و جوار میں مکاتب بھی سسک رہے تھے، نہ ہونے کے برابر تھے، عوام خاص طور پر مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی قابل رحم تھی، میں دو رات یہاں رہا، جمعہ کی نماز اکل کوا کی جامع مسجد میں پڑھی جو بہت چھوٹی سی تھی، وہاں نماز سے قبل میرا بیان ہوا، اس دوران میرے دل میں اللہ کی جانب سے ایک مضبوط خیال آیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ، اس کے بعد میں گجرات لوٹا اور اپنے تمام اکابرین کو میں نے خط لکھا کہ میں نے ایسی ایسی جگہ دیکھی ہے، آپ کا کیا خیال ہے، تو سبھی کا یہی جواب آیا کہ تم وہاں بیٹھ جاؤ، چناں چہ جب بزرگوں کا حکم ہوا تو میرا یہاں آنا جانا زیادہ ہوگیا، جب آنا جانا زیادہ ہوا تو سب سے پہلے میرے یعقوب دادا نے کہا کہ میں تین ایکڑ زمین دیتا ہوں، زمین مل جانا بہت بڑی بات تھی، دوسرے جمعہ کو حاجی سلیمان صاحب نے کہا کہ میں بھی تین ایکڑ زمین دیتا ہوں، اور یوں چھ ایکڑ زمین ہوگئی، پہلے تو مدرسہ کے ٹرسٹی حاجی شفیع صاحب سے کہا کہ ہم یہاں کے مقامی مکاتب کو مضبوط کریں گے، اور جو مکاتب چل رہے تھے اس کے اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کردیا، اس کے بعد میرے نانا ساؤتھ افریقہ رہتے تھے وہ جماعت میں آئے اور جامعہ کے بارے پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار روپے دیئے، تو اس سے میں نے ایک عارضی عمارت "مکرانی پھلی” میں بنائی، یہ اکل کوا کا ایک محلہ ہے۔