نئی دہلی: بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دستاویزی فلم کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اس فلم میں سن 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ان فسادا ت میں 2000 سے زائد افراد مارے گئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔ ریاست کے گودھرا میں ایک ٹرین میں آگ لگنے کے واقعے، جس میں 59 ہندو یاتریوں کی موت ہو گئی تھی، کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ہندو قوم پرست جماعت بی جے بی اور وزیر اعظم نریندر مودی گجرات فسادات کو روکنے میں ناکامی کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتے رہے ہیں۔ ایک عدالتی انکوائری کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے 2012 میں انہیں الزامات سے بری کردیا تھا۔ اور ان کی بریت کے خلاف چیلنج کرنے والی درخواست بھی گزشتہ برس عدالت عظمی نے مسترد کردی تھی۔بی بی سی کی مذکورہ دستاویزی فلم پر ان دنوں بھارت میں خاصی بحث ہو رہی ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے گذشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "اس دستاویزی فلم میں تعصب، حقائق کی کمی اور نوآبادیاتی ذہنیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔”اریندم باغچی نے مزید کہا کہ ہمیں اس عمل کے مقصد اور اس کے پس پشت ایجنڈے کے بارے میں حیرت ہے اور ہم اس طرح کی کوششوں پر تبصرہ کرکے اسے باوقار بنانا نہیں چاہتے۔
بی بی سی کا جواب:بھارتی وزارت خارجہ کے ردعمل پر بی بی سی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اس نے اس دستاویزی فلم کو بڑی تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے اور اس میں نریندر مودی کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں سمیت مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا نکتہ نظر اور ان کی آرا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔بی بی سی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا’’ہم نے بھارتی حکومت کو دستاویزی سریز میں اٹھائے گئے معاملات سے متعلق جواب دینے کے حق کی پیش کش کی تھی، لیکن انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا تھا‘‘۔
دستاویزی فلم میں کیا ہے؟: منگل کے روز جاری کی گئی اس دستاویزی فلم میں برطانیہ کی جانب سے کرائی گئی ایک انکوائری کی رپورٹ شامل ہے، جس کے مطابق "تشدد کی ایک ایسی منظم مہم چلائی گئی جس میں نسلی تطہیرکی تمام مثالیں موجود تھیں۔” اور رپورٹ میں اس کے لیے مودی کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔دستاویزی فلم میں انکشاف کیے جانے سے قبل تک برطانوی حکومت نے مذکورہ رپورٹ کو کبھی بھی عام نہیں کیا۔دستاویزی فلم کے مطابق انکوائری ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی نے پولس کو واضح طور پر حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔اس دستاویزی فلم میں ایک سابق برطانوی سفارت کار کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ تشدد کا منصوبہ آرایس ایس کی ذیلی ایک تنظیم شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے تیار کیا تھا۔ مودی بچپن میں ہی آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے تھے۔انکوائری ٹیم کے مطابق مذکورہ سفارت کار کا کہنا تھا کہ "ریاستی حکومت کی جانب سے آنکھ موند کر چھوٹ دیے بغیر وی ایچ پی کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانا ممکن نہیں تھا۔”
‘الزامات انتہائی سنگین ہیں:فلم میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے’’یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں کہ وزیر اعلیٰ مودی نے پولس کو کارروائی کرنے سے روکنے اور ہندو انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کافی اہم رول ادا کیا‘‘۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ فسادات کے دوران مسلم خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریپ کیا گیا۔ اور فساد کا ایک مقصد ’’ہندو علاقوں سے مسلمانوں کا مکمل صفایا‘‘ کردینا تھا۔بی جے پی کے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ہندوقوم پرست جماعت کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ اس کی سرکاری پالیسی بن گئی ہے۔ سن 2014 میں مودی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف لنچنگ اور تشددکے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف ہندو شدت پسند گروپوں نے بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی اپنی مہم بھی تیز کردی ہے۔بی بی سی کی دستاویزی فلم میں کہا گیا ہے کہ جب تک وزیر اعظم مودی اقتدار میں رہتے ہیں’’باہمی ہم آہنگی اور مفاہمت ممکن نہیں‘‘۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)
previous post
next post