ذرا تصور کریں جہاں آپ برسوں سے رہائش پذیر ہوں، جہاں آپ اور آپ کے آباء واجداد نے آنکھیں کھولی ہوں، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ہوں، اور اس آشیانہ کے مالکان حقوق بھی آپ کے پاس ہوں نیز آپ تمام ٹیکس بھی ادا کرتے ہوں۔ پھر اچانک اس پر بلڈوزر کی شکل میں سرکاری عتاب نازل ہو تو آپ اور آپ کے خاندان پر کیا گزرے گی؟ اس کرب کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔یہ المناک تصویر بھارت کی ان متعدد ریاستوں میں دیکھنے میں آ رہی ہے، جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ بالخصوص شمال مشرقی ریاست آسام میں یہ سلسلہ تو گزشتہ دو سال سے بلا روک ٹوک جاری ہے، جس کے نتیجہ میں اب تک تقریباساڑھ پانچ ہزار مسلم خاندان بے خانماں ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے اجین شہر اور اتراکھنڈ کے ہلداوانی شہر میں مسلم مکینوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کے نوٹس دیے گئے ہیں۔ لیکن میں آسام کا خاص طور سے تذکر ہ کروں گی، جہاں ’بلڈوزر کلچر‘ منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ بھارت کا وہ صوبہ ہے، جہاں جموں و کشمیر کے بعد صوبہ تناسب کے اعتبار سے مسلمان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ آسام کی کل آبادی میں مردم شماری 2011ءکے مطابق مسلم تناسب 35 فیصد سے زائد ہے۔ پہلے تو انہیں بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوّا کھڑ ا کر کے ایک عرصے تک پریشان کیا جاتا رہا۔ لیکن شہریت (این آر سی) کے نظر ثانی شدہ رجسٹر تیار ہونے کے بعد ‘بنگلہ دیشی دراندازی اور اسلامی ریاست بنانے‘ کا پروپیگنڈا پاش پاش ہو گیا۔تاہم ریاست میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ بر سراقتدار آئی ہے تب سے مسلم آبادی، جس میں بیشتر بنگالی نژاد ہیں، کی زندگی تنگ کرنے کی مسلسل کو شش ہو رہی ہے۔ انہیں کسی نہ کسی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی ستّر، اسّی سال قدیم بستیوں کو غیر قانونی تجاوزات کے نام پر ضابطے کی کارروائی کیے بغیر بڑی بیدردی سے بلڈوزروں سے مسمار کیا جا رہا ہے۔ ان غریب مسلمانوں کی حالت پناہ گزینوں جیسی بنائی جا رہی ہے۔ اب تک تقریباً سینکڑوں مسلم خاندانوں کے سر سے چھت کا سایہ چلا گیا ہے۔
آسام کا یہ کرب ناک منظر دل دہلا دینے والا ہے۔ یہ کسی دشمن فوج کی کارستانی نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ریاست کے ضلع ناگاؤں کے بٹدربا تحصیل کے علاقہ میں 13 دسمبر کو اچانک سینکڑوں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار نمودار ہوئے۔ اس کے نتیجہ میں اطراف کی آبادیوں میں خوف و دہشت پھیل گئی۔ چونکہ اسی علاقہ میں مئی کے مہینہ میں ایک نوجوان کی پولیس حراست میں موت ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے خلاف ردعمل میں مقامی لوگوں نے بٹدربا پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی تھی۔اس کے بعد سے یہاں پولیس دستے مسلسل گشت کر رہے تھے۔ مگر اتنی کثیر تعداد میں پولیس دستے یہاں پہلے کبھی خیمہ زن نہیں ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کو یہ کہہ کر اندھیرے میں رکھا گیا کہ یہاں پولیس کا تربیتی کیمپ لگنے والا ہے۔ تاہم 17 دسمبر کو معلوم ہو گیا کہ مسلم بستیوں پر بلڈوزر چلنے والا ہے۔ چنانچہ دو دن بعد چار مسلم اکثریتی دیہاتوں کو چشم زدن میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ ضلع کے پولیس سربراہ لینا ڈولی اس بات پر مسرور ہیں کہ اتنی بڑی بے دخلی کی کارروائی کے باوجود کوئی مزاحمت ہوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ مئی 2016ء میں جب پہلی مرتبہ بی جے پی ریاست میں بر سر اقتدار آئی تو اس کے بعد سے صرف بنگالی نژاد مسسلموں کو ان کی آبادیوں سے بے دخل کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ سب سے پہلے قاضی رنگا نینشنل پارک کے پاس یہ کارروائی کی گئی جس کی مزاحمت کے دوران پولیس نے دو نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا تھا۔مئی 2021ء سے ستمبر 2022ء کے درمیان بی جے پی حکومت نے کل 4449 بنگالی مسلم خاندانوں کے مکانوں کو مسمار کیا ہے۔ یہ کارروائی پولیس کے سخت پہرے میں انجام دی جاتی ہے اور پولیس اہلکاروں کو طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، جس سے ریاستی حکومت کا غیر انسانی چہرہ سامنے آتا ہے۔
خود وزیراعلی بھی یہ بیان دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے کہ ان ”غیر قانونی تجاوزات کھڑے کرنے والوں‘‘ کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا۔ ستمبر 2021ء میں ضلع دارنگ کے دھال پور علاقہ میں انہدامی کارروائی کے خلاف مزاحمت کے دوران پولیس نے گولی چلا دی تھی، جس میں دو نوجوان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ گولی سے زخمی ایک ادھ مرے نوجوان کے جسم پر سرکاری عملہ کے ساتھ موجود ایک فوٹو گرافر کو رقص کرتے دیکھنے کا دلخراش منظر پوری دنیا نے دیکھا تھا۔جب سے وزیراعلی ہیمنتا بسوا سرما کی قیادت میں مئی 2021ء میں بی جے پی کی دوبارہ حکومت بنی ہے تب سے اس مہم کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ موصوف ایسے تند و ترش بیانات دیتے ہیں کہ انہیں آئین کا بھی لحاظ و پاس نہیں رہتا جس کی پاسداری کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ یہاں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ہے کہ آسام میں ہر سال زبردست سیلاب کی زد میں آتا ہے۔ خاص طور سے تبت سے بہنے والا دریا برہم پترا بڑی تباہی مچاتا ہے، اس کے نتیجے میں آبادیوں کی آبادیوں بکھر جاتی ہیں۔ سیلاب کے سبب جو جزیرے وجود میں آتے ہیں وہاں یہ لوگ منتقل ہو جاتے ہیں، جنہیں آسامی زبان میں’چار‘کہا جاتا ہے۔ ان ہی چار علاقوں میں بسے گاؤں میں آباد مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اس انسانی المیہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور اس’بلڈوزر کلچر‘ کے خلاف سیکولر کہی جانے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں مہر بہ لب ہیں۔ اسی سے شے پا کر بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھی مسلم مکنیوں کے آشیانے مہندم کیے گئے یا ان کو اپنی آبادیاں خالی کرنے کے حکم صادر کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسی حکومت میں ہو رہا ہے، جس کا نعرہ ہے کہ ‘ہر سر پر چھت‘ دینے کا ہے جس نے 2022ء تک سب کو چھت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
فسطائی عزائم کے خلاف سرگرم ایک تنظیم ’جن ہشتکیپ‘ Janhastakshep نے ایک فیکٹ فائندنگ ٹیم ان متاثرہ علاقوں میں روانہ کی تھی۔ تنظیم کے کنوینر ڈاکٹر وکاس باجپئی کے بقول این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے عزائم میں ناکامی کے بعد ریاست کی بی جے پی حکومت اپنی خفت مٹانے اور مایوسی دو ر کرنے کی غرض سے غیر قانونی تجاوزات کے نام سے مسلمانوں کو ان کے آبائی مقامات سے بے دخل کرنے کی انتقامی مہم چلا رہی ہے۔ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ آسام کی حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاً کانگریس اور آل انڈیا یوناٹیڈ ڈیموکریٹیک فرنٹ نے جس کے سربراہ مولانا بدردالدین ہیں، اس غیر انسانی کارروائی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مولانا اجمل خود بنگالی نژاد ہیں اور رکن پارلیمان بھی میں لیکن ان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ یہ معاملہ ابھی تک پارلیمان میں نہیں اٹھا سکے۔ آل آسام مائنارٹیز اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری محمد امتیاز حسین کہتے ہیں کہ یہاں مسلمان خوف کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے ہیں اس لیے وہ اب احتجاج کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔ترنمول کانگرس کے سابق رکن پارلیمان اور کثیر الااشاعت بنگالی روزنامہ پوبیر قلم کے ایڈیٹر احمد حسن عمران کہتے ہیں کہ سرما جب سے وزیراعلی کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت کے دوران مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے برٹش دور حکومت سے چلے آرہے مدرسہ بورڈ کو توڑ دیا، تقریبا ً 700 مدرسوں کو بند کر دیا گیا۔ نیز متعدد نجی مدرسوں کو بھی دہشت گردی کے شبہ مسمار کرا دیا، مسلمانوں کو اس بات کا پابند کر دیا کہ کوئی بیرونی امام آئے تو اس کی خبر پولیس کو کریں اور متعدد مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا۔ احمد حسن عمران نے ایک کھلا خط لکھ کر آسام کی صورت حال کی طرف سیاسی جماعتوں، ملی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس انتقامی مہم کا مقصد کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے ریاست میں فرقہ وارانہ صف بندی کو ہوا دینا ہے۔ بھارتی سیاست میں اب فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دینا کامیابی ایک آزمودہ نسخہ بن گیا ہے۔ اس سے حکمرانوں کو اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔