سپریم کورٹ کے کام کاج میں سرکاری دخل سے انصاف ملنے میں رکاوٹ ممکن
سہارنپور،سماج نیوز(احمد رضا) سرکار سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری کے حسّاس ترین معاملات میں مداخلت کی خواہش مند ہے سرکار چاہتی ہے کہ ججیز کی تقرری میں اسکا نمائندہ شامل رہنا چاہئے عوام اس فیصلہ کے خلاف سخت ترین رخ اختیار کئے ہوئے ہے اس معاملہ پر تیز ترار سیاسی رہنما بے اور حسّاس ترین معاملات میں بے باک انداز میں اپنی رائے ظاہر کر نے میں مشہور ڈاکٹر سبرا منیم سوامی نے اپنے ٹوئیٹ میں سرکار کے عدلیہ پر نکیل کسنے کے غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کو سرکار کی من مانی اور اپنے وفادار ججیز کو تعیناتی دینے کی کوشش قرار دیتے ہوئے سرکار کے سپریم کورٹ میں اپنا نمائندہ شامل کرنے کی نیت کو غیر آئینی اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے عدلیہ کی خد مختاری کی وکالت کی ان کے ساتھ ساتھ نامور قانون داں سینئر ایڈوکیٹ پر شانت بھوشن سینئر ایڈوکیٹ کپل سببل،قانون داں جانثار احمد سہارنپور ، ایڈوکیٹ جوہی رضا صدیقی لکھنؤ اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے بھی سرکار کے فیصلہ پر طنز کرتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی ہے دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے صاف کیاکہ اگر عدلیہ کے معاملات میں سرکار کے زریعہ مداخلت کی جائیگی تو پھر انصاف کی توقع بے معنی ہوکر رہ جائیگی، سیکڑوں سالہ عدلیہ نظام یہی ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ پر کسی کا دباؤ نہی ہو نا چاہئے اگر ججوں کے سرپر یا برابر میں سرکار کا نمائندہ کرسی لگاکر بے ٹھیگا تو آپ صاف شفاف جسٹس کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں عدالتوں کا اپنا وقار ہوتا ہے اسلئے عدلیہ کو خد مختار بنے رہناملک میں آئین کی دستبرداری اور جمہوریت کی بقاء اور حفاظت کے لئے بیحد ضروری ہے! عدلیہ کی آزادانہ حیثیت کی بابت سوال پو چھنے پر ویسٹ اتر پردیش کے دو سو سے زائد نوجوان وکلاء کا سیدھا کہنا ہے کہ قابل احترام عدلیہ کا آزاد اور خودمختار بنے رہنا ہم سبھی کے لئے قابل قبول اور قابل احترام عمل ہے سرکار شروع سے جاری عدلیہ عالی کی خد مختاری پر پہرہ لگانا چاہتی ہے یہ عمل کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا نا چاہئے۔
قابل غور ہے کہ پچھلے نو سال کی مدت کے دوران ملک میں کچھ ایسے فیصلہ کچھہ ججيز کی جانب سے سرکاری دباؤ میں لئے گئے کہ جن فیصلوں کے خلاف عوام میں تشویش دیکھنے کو ملی اسلئے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا نی چاہئے سرکار چیف جسٹس آف انڈیا کے كام میں مداخلت کا ارادہ کیوں رکھتی ہے یہ سرکار کو واضع کرنا ھوگا پچھلے بہت سی سرکاروں میں لگاتار 66 سالوں تک اس طرح کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کانگریس ، جنتادل اور یو پی اے کے دس سال کے دور حکومت میں کبھی اس طرح کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی آخر بھاجپا سرکار ہی قابل احترام ججیزکے ساتھ اپنا نمائندہ شامل کیوں رکھنا ضروری سمجھ رہی ہے یہ تو خد سینئر ایڈوکیٹ آورقانونداںہیبتاسکتے ہیں؟آپکو بتادیں کہ تین دن پہلے مرکزی حکومت نے چیف جسٹس آف انڈیا قابل احترام ڈی وائی چندرچوڑ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کالجیم میں بھی حکومت کی نمائندگی ہونی چاہئے رپورٹ کے مطابق مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے چیف جسٹس آف انڈیا جناب چندرچوڑ کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کالجیم میں مرکزی حکومت اور ہائی کورٹ کالجیم میں ریاستی حکومتوں کی نمائندگی ہونی ضروری ہے سرکار کہتی ہے کہ یہ عمل شفافیت کے لیے ضروری ہےہم سرکار سے پو چھنا چاہتے ہیں کہ کیا آج تک سب کچھ صاف شفاف نہیں ہو رہا ہے پھر آپ کونسی شفافیت کی با ت کر رہے ہیں!وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا ہے کہ وہ ججوں کی تقرری کے موجودہ کالجیم نظام سے مطمئن نہیں ہیں انہوں نے ایک بار پھر کالجیم کی جگہ قومی عدالتی تقرری کمیشن (این جے اے سی) کی بحالی کی حمایت کی ہے۔
کرن رجیجو کا استدلال ہے کہ ججوں کی تقرری میں حکومت کا کردار بہت اہم تھا، کیونکہ ججوں کی حکومت کے پاس موجود تمام رپورٹس اور ضروری معلومات تک رسائی نہیں ہوتی وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا ہے کہ حکومت کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ کالجیم کے تجویز کردہ ناموں کو منظوری نہیں دی گئی تھی حکومت کا کام صرف آنکھیں بند کرکے کالجیم کے تجویز کردہ ناموں کو منظور کرنا نہیں ہےتاہم دوسری طرف سپریم کورٹ کا بھی کرن رجیجو اور حکومت کی اس دلیل پر اپنا نظریہ ہےجسٹس ایس کے کول اور جسٹس ابھے ایس اوکا (ابھے ایس اوکا) بینچ نے کہا ہے کہ اگر حکومت کو کالجیم کے تجویز کردہ کسی نام پر کوئی اعتراض ہے اور اسے تفصیل کے ساتھ بتایا جائےلیکن اس طرح ناموں کو روکنا درست نہیں کالجیم نظام پر تنازعہ کے درمیان قابل احترام چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ نے حال ہی میں کہا تھا کہ آئینی جمہوریت میں کوئی بھی ادارہ 100فیصد پرفیکٹ نہیں ہے اور ججوں کی تقرری کے لئے کالجیم نظام بھی اس سے آگے نہیں ہےموجودہ سپریم کورٹ کالجیم پانچ سینئر ججوں پر مشتمل ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس آ ف انڈیا سی جے آئی چندر چوڑ کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس اجے رستوگی بھی اس کلجیم میں شامل ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی جسٹس چندر چوڑ کے بعد اگلا چیف جسٹس بننے کے لئے تیار نہیں ہےوزیر قانون کرن رجیجو کا خط (کرن رجیجو کا خط سی جے آئی کو) ایسے وقت آیا ہے جب ججوں کی تقرری کو لیکر سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان کشمکش جاری ہےعدلیہ کا خیال ہے کہ حکومت ایک بار پھر پچھلے دروازے سے ججوں کی تقرری میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے،جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ کچھ دن قبل کالجیم کے سامنے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) کا معاملہ تھا بہر حال کا لجیم کا وقار ہر صورت میں قائم رہنا اشد ضروری ہے۔