خادم حرمین شریفین نے شوریٰ کونسل کے آٹھویں اجلاس کے تیسرے سال کا کیاافتتاح
ریاض: خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں شوریٰ کونسل کے آٹھویں اجلاس کے تیسرے سال کے کام کا ویڈیو لنک کے ذریعے افتتاح کردیا۔اس موقع پر شاہ سلمان نے زور دے کر کہا سعودی عرب امن کا ثالث تھا اور اب بھی ہے۔ سعودی عرب نے امن، استحکام اور انصاف کے حصول کی بنیاد رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ایک جامع ترقیاتی تحریک کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس تحریک کا مقصد نئے شعبوں کی ترقی اور ساتھ ساتھ مقامی مواد کی حمایت، کاروباری ماحول کو آسان بنانا اور شہریوں کو بااختیار بنانا ہے۔سعودی عرب ماحولیاتی چیلنجوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مملکت ضرورت مند اور آفات اور بحران سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے پرعزم ہے۔ مملکت نے خوراک اور زرعی تحفظ کے شعبہ میں لگ بھگ 2.8 بلین ریال کی امداد فراہم کی ہے۔شوریٰ کونسل کے سامنے اپنی تقریر میں علاقائی اور بین الاقوامی امور کے متعلق بات کرتے ہوئے خادم حرمین شریفین نے کہا سعودی عرب پوری دنیا کے لیے امن کا ثالث اور انسانیت کا مینار تھا اور اب بھی ہے۔سعودی بادشاہ نے زور دے کر کہا کہ مملکت تیل کی منڈیوں کی مدد، استحکام اور توازن کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی امن ہتھیاروں کی دوڑ یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی فرمانروا نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنی جوہری ذمہ داریاں پوری کرے اور آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔شاہ سلمان نے کہا کہ روس یوکرین بحران کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ یمن میں اقوام متحدہ کی جنگ بندی بحران کے خاتمے اور سیاسی حل کی طرف لے کر جائے گی۔عراق کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے شاہ سلمان نے کہا کہ عراق کی سلامتی اور استحکام خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک ضروری ستون ہے۔سعودی فرماں روا نے کہا لبنانی حکومت کو چاہیے کہ اپنی سرزمین پر امن اور سلامتی برقرار رکھے۔ منشیات کی سمگلنگ روکی جائے اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے۔شام کے معاملے پر کنگ سلمان نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر اس انداز میں عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس سے شام کی خودمختاری، استحکام اور عرب تشخص کا تحفظ ہو جائے۔لیبیا کے مسئلہ پر شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب لیبیا میں مکمل جنگ بندی کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا سے غیر ملکی افواج اور کرائے کے فوجیوں کو بغیر کسی تاخیر کے نکل جانا چاہیے۔خادم حرمین شریفین نے شوریٰ کونسل کے آٹھویں اجلاس کے تیسرے سال کے کام کے افتتاح پر خطاب کیا اور اس میں مملکت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر تفصیلی خطاب کیا۔اپنی تقریر میں انہوں نے مزید اہم باتیں بھی کیں۔ تقریر کے آغاز میں انہوں نے کہا ہمیں شوریٰ کونسل کے آٹھویں اجلاس کے تیسرے سال 1444 ہجری کے کام کا افتتاح کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔سعودی عرب کا آئین اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔1727 عیسوی میں قائم ہونے کے بعد اور شاہ عبدالعزیز کے ہاتھوں اس کے متحد ہونے کے بعد اس ریاست نے اگلے نوے سال سے زائد عرصہ امن، استحکام اور انصاف کے حصول کی بنیادیں رکھی ہیں۔ریاست نے تارکین وطن کو اکٹھا کیا، سلامتی اور استحکام کو ممکن بنایا اور ایک ایسی جدید ریاست کی تعمیر کی گئی جس کا آئین خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے۔خدا نے اس ملک کو دو مقدس ترین مساجد کی خدمت سے نوازا ہے۔ مملکت اپنی اس خدمت کو بھرپور طریقے سے انجام دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ کورونا وبا کے بعد گزشتہ سال حج کے سیزن کے دوران مملکت کے اندر اور باہر سے 10 لاکھ عازمین کو حج کرایا گیا۔اب مملکت میں 2030 تک 30 ملین عمرہ زائرین کی میزبانی کرنے کی صلاحیت کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے کام اور "روض? المدینہ” کا منصوبہ مسجد نبوی کے مشرق کے علاقے میں شروع کیا گیا۔ اس پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں تیسری سعودی توسیع کو مکمل کرنا ہے۔ اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیارات کے مطابق دو مقدس مساجد میں زائرین کے لیے آرام اور سہولت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔شاہ سلمان نے کہا پیارے بھائیو اور بہنوں آپ کا ملک ایک جامع اور پائیدار ترقی کی تحریک کا مشاہدہ کر رہا ہے اور یہ مملکت کے وڑن 2030 کے دوسرے مرحلے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کا مقصد امید افزا اور نئے شعبوں کو ترقی دینا، مقامی مواد کی حمایت کرنا، کاروباری ماحول کو آسان بنانا، شہریوں کو بااختیار بنانا، نجی شعبے کو مزید مشغول کرنا اور اپنے پیارے ملک کی امنگوں اور عزائم کو پورا کرنا ہے۔ٹرانسپورٹ، پانی، توانائی، صحت، تعلیم، مواصلات اور اہم شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی حمایت کی جارہی۔ 200 بلین ریال تک کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کا منصوبہ ان شاء اللہ اگلے دس سال میں مکمل ہو جائے گا۔نیشنل ڈویلپمنٹ فنڈ کی حکمت عملی کے تحت نجی شعبے کی ترقی میں شراکت کو تین گناہ بڑھایا جائے گا۔ اس کے لئے 570 بلین ریال سے زیادہ فنڈز فراہم کئے جارہے۔ہمارے ملک میں جو منفرد منصوبے شروع ہو رہے ہیں وہ ہماری اقتصادی اور ثقافتی بنیادوں کی ترقی کی روشنی میں ہیں۔ جیسا کہ عزت ماٰب ولی عہد شہزادہ نے اعلان کیا کہ ہمارے منصوبے سعودی نوعیت کے ہیں۔ ان منصوبوں میں العلا ترقیاتی پروجیکٹ، درعیہ گیٹ پروجیکٹ، قدیہ پروجیکٹ، امالا پروجیکٹ، نیوم سٹی، بحر احمر پروجیکٹ، دی لائن پروجیکٹ اور دیگر کئی شہروں میں شروع کئے گئے منصوبے ہیں۔اس کے علاوہ ثقافتی اور تفریحی شہروں کے منصوبے لائے جارہے ہیں جو اپنی نوعیت کے ممتاز منصوبے ہیں اور یہ سعودی ثقافتی ورثے کی تاریخ کے فروغ اور تحفظ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان تمام منصوبوں کا مقصد شہری کے معیار زندگی کو بلند کرنا ہے۔مملکت میں ترقی کے نقطہ نظر کا مقصد ایک جامع اور پائیدار نشا? ثانیہ کو ممکن بنانا ہے ایسی نشاہ ثانیہ جسکا مرکز اور ہدف انسان ہے۔ جس میں انسان کے حال کی ترقی کا انتظام ہوتا ہے اور علم کے ساتھ مستقبل کی ترقی کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ انسان کو تحفظ معاش دیا جاتا ، سماجی نگہداشت فراہم کی جاتی اور اس کی ترقی اور سماجی استحکام کے لیے معاون نظام فراہم کیا جاتا ہے۔شاہ سلمان نے کہا مملکت نے متعدد شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔ خاص طور پر غیر تیل کی برآمدات، دنیا کی تمام معیشتوں میں سب سے زیادہ ترقی کی شرح، 63 ملکوں میں دوسری بہترین کارکردگی کی کامیابیاں نمایاں ہیں۔نیز سائبر سیکیورٹی ، مالیاتی منڈی، سائنسی تحقیق کے معیار اور سمگلنگ کے جرائم کا مقابلہ کرنے میں سعودی عرب کی کارکردگی نمایاں رہی۔ہمیں ان ایوارڈز سے بھی بہت خوشی ملی ہے جو ہمارے ہونہار اور باصلاحیت طلباء نے آئی ایس ای ایف 2022 مقابلے میں حاصل کئے۔ تعلیم کے میدان میں عالمی مسابقت کے 16 اشاریوں میں پیش رفت کی گئی۔کنگ سلمان نے مزید کہا سب سے اہم اہداف میں سے ایک جس کی طرف ریاست توجہ دیتی ہے وہ سلامتی کو اپنے جامع معنوں میں برقرار رکھنا اور بڑھانا ہے۔ہم ایسے منصوبوں اور پروگراموں کی حمایت کرنے کے خواہاں ہیں جو درپیش چیلنجوں کا حل تلاش کرنے میں معاون ہوں۔ ان منصوبوں میں 2030 تک سعودی خاندانوں کے لیے مکانات کی ملکیت کے تناسب کو 70 فیصد تک بڑھانا بھی شامل ہے۔سعودی خواتین نے تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے توجہ حاصل کی ہے۔ خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر سماجی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے حکومتی، نجی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں میں اعلی عہدوں تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔اس سال مملکت نے اپنے ’’وڑن 2030 ‘‘ کے ذریعے خلابازوں کے لیے پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد تجربہ کار قومی کیڈرز کو طویل اور قلیل مدتی خلائی پروازوں کا اہل بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ مملکت کو بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے رکن کے طور پر منتخب کیا جانا ، اسی طرح بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی کونسل کے رکن کے طور پر منتخب ہونا مملکت کے عالمی سطح پر کردار کا نشاندہی کر رہا ہے۔مملکت توانائی کی دنیا کے تین ستونوں پر مشتمل دفاع حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ایک تو توانائی کی ضروری فراہمی کی حفاظت ہے، دوسرا توانائی کے ذرائع فراہم کرکے مسلسل اقتصادی ترقی کرنا اور تیسرا موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا ہے۔ ان تینوں جہات پر ہمارا ملک سخت محنت کر رہا ہے۔مملکت کے کچھ علاقوں میں قدرتی گیس کے متعدد ذخائر کی دریافت نے اس ملک کے لیے خدا کی نعمتوں سے ایک نعمت کا اضافہ کردیا ہے۔ اس سے عالمی توانائی کے شعبہ میں مملکت کی صف اول کی پوزیشن برقرار رہنے کی حمایت ہوتی ہے۔ہمارا ملک ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا کرنے کی طرف تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، سب سے اہم موسمیاتی تبدیلی ہے۔ اس حوالے سے اہم منصوبہ 2030 تک کاربن کے اخراج کو کم کرکے 278 ملین ٹن سالانہ تک لانا بھی ہے۔ بجلی کی پیداوار کے 50 فیصد حصہ کو قابل تجدید توانائی پر منتقل کرنے کا ہدف بھی حاصل کرنا ہے۔ اسی ضمن میں سعودی انرجی ایفشنسی پروگرام شروع کیا گیا۔ نیوم شہر میں دنیا کی سب سے بڑے پروگراموں میں سے ایک گرین ہائیڈروجن پیداوار کا منصوبہ بھی لایا گیا ہے۔ "گرین سعودی عرب” اور "گرین مڈل ایسٹ” کے اقدامات کئے گئے۔شاہ سلمان نے کہا بدعنوانی کا مقابلہ کرنے اور اس سلسلے میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے میں ہماری دلچسپی ہے۔ بین الاقوامی تعاون کے بغیر بدعنوانی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں ہم عرب کنونشن اور بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے فریم ورک کے تحت بھی کام کر رہے ہیں۔خادم حرمین شریفین نے کہا مملکت نے سیاحت کے شعبے پر بھرپور توجہ دی اور عطیہ دہندگان سے مطالبہ کیا کہ وہ سیاحت کے شعبے کی مدد کے لیے نامزد بین الاقوامی فنڈ کے لیے مالی اعانت فراہم کریں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے جاری ٹریول اینڈ ٹورازم ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق مملکت نے 33 ویں نمبر پرآکر نئی کامیابی حاصل کی ہے۔ سال 2019 کیلئے مملکت نے اکٹھے 10 درجے ترقی کی۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے مملکت کی اقتصادی طاقت اور مالی پوزیشن اور مختصر اور درمیانی مدت میں مثبت اقتصادی امکانات کی تصدیق کی گئی ہے۔عالمی افراط زر کی سطح میں نمایاں اضافے کے باوجود سعودی معیشت نے بلند شرح نمو حاصل کرکے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ مملکت اپنی اقتصادی پالیسیوں کی بدولت مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب رہی۔2022 کی پہلی سہ ماہی میں بے روزگاری کی شرح کم ہوکر 9.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 2030 تک اس شرح کو 7 فیصد تک لایا جائے گا۔سعودی معیشت پر اظہار خیال کرتے شاہ سلمان نے کہا مملکت کی معیشت پر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے مثبت جائزے حکومت کی طرف سے مالیاتی پائیداری کے پروگرام کے فریم ورک کے اندر کی گئی اصلاحات کی تاثیر کی عکاسی کر رہے ہیں۔سیاسی اور اقتصادی سطحوں پر اپنی حیثیت اور اہم کردار اور اپنے سٹریٹجک مقام کی بنیاد پر مملکت نے ہمیشہ دنیا کے دل میں جگہ بنائی ہے۔دنیا کے ممالک کے ساتھ مملکت کے تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے عزت مآب ولی عہد نے متعدد برادر اور دوست ممالک کے سرکاری دورے کیے ہیں۔ عالمی رہنماؤں اور اعلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ مشترکہ مفادات کے اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔شاہ سلمان نے مزید کہا کہ ہم مشترکہ خلیجی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے کے منتظر ہیں جس سے خلیج کی عرب ریاستوں کے لیے تعاون کونسل کی تمام سطحوں پر پیشرفت ہو۔ ہم ایک خوشحال اقتصادی بلاک کی تعمیر کو مکمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔سلامتی اور ترقی کے لیے جدہ سربراہی اجلاس امریکہ اور 9 عرب ممالک کے رہنماؤں کی شرکت سے منعقد ہوا۔ یہ اجلاس خطے اور اس کے عوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر کیلئے اجتماعی کاوش کی اہمیت کی عکاسی کررہا ہے۔انہوں نے کہا مملکت اقوام کے درمیان اپنے اعلیٰ مقام، بین الاقوامی سیاست میں اپنے اہم کردار کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے امن کا ثالث اور انسانیت کا مینار تھا اور اب بھی ہے۔ اس تناظر میں روس یوکرین بحران کے حوالے سے انسانی ہمدردی کے اقدامات کو اپنانے کے لیے ولی عہد شہزادہ کی کوششوں سے متعدد قومیتوں کے قیدیوں کو رہا کرایا گیا۔اپنے انسانی ہمدردی اور اہم کردار سے آگے بڑھتے ہوئے مملکت قدرتی آفات اور انسانی بحرانوں سے متاثرہ انتہائی ضرورت مند ممالک کی مدد کیلئے پر عزم رہتی ہے۔ سعودی عرب عرب اور اسلامی سطح پر انسانی اور ترقیاتی امداد کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔ اور یہ بین الاقوامی سطح پر تین بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے۔ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتے ہیں تاکہ مسلح تصادم کے منفی اثرات اور خوراک کی حفاظت پر ان کے تکلیف دہ اثرات کو کم کیا جا سکے۔اناج اور خوراک کی برآمد میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ قحط کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالے گا۔ خوراک اور زرعی تحفظ کے شعبے میں مملکت کی کل امداد تقریباً دو ارب 890 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔مملکت نے خطے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے 10 بلین ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کیلئے 10 قومی اور علاقائی ترقیاتی فنڈز کی کوششوں کو مربوط اور یکجا کیا گیا۔شاہ سلمان نے کہا مملکت دنیا کے ممالک اور لوگوں کے درمیان اپنے کردار کو سمجھتی ہے۔سعودی عرب دنیا میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اور اصولوں کے دائرہ کار میں کثیر الجہتی بین الاقوامی کارروائی کی حمایت کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔مشرق وسطیٰ کے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے بین الاقوامی جواز اور عرب امن اقدام کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل کی تلاش میں تیزی لانے اور 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی القدس کو کے قیام کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مملکت تمام یکطرفہ اقدامات کی مذمت کرتی ہے جو دو ریاستی حل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مملکت ایسے تمام یک طرفہ اقدامات روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یمن میں بحران کے خاتمے کے لیے مملکت کے اقدام کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے سپانسر کی گئی جنگ بندی ایک جامع سیاسی حل کی طرف لے جائے گی۔ یمن کے اندر اشتعال انگیز مسلح حوثیوں کی خلاف ورزیوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔شاہ سلمان نے کہا عراق کی سلامتی اور استحکام خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک ضروری ستون ہے۔ مملکت عراق کی سلامتی، استحکام، ترقی میں تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینے کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کرتی ہے۔ہم برادر سوڈانی عوام کے لیے اپنی حمایت کی تجدید کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر اس کوشش جو سیاسی قوتوں اور سوڈانی جماعتوں کے درمیان بات چیت میں تعاون اور حوصلہ افزائی کرتی ہے اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔شام کے مسئلے کے حوالے سے ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں پر اس انداز میں عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ شام کی خودمختاری، استحکام اور عربیت کا تحفظ ہو۔لبنان میں ہم جامع ڈھانچہ جاتی سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کو نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو اس کے بحران پر قابو پانے کا باعث بنے۔سعودی عرب لیبیا میں مکمل جنگ بندی کی بھی حمایت کرتی ہے اور لیبیا سے سلامتی کونسل کی متعلقہ قرارداد کے مطابق بلا تاخیر غیر ملکی افواج، غیر ملکی جنگجوؤں اور کرائے کے فوجیوں کی مکمل روانگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ہمارا ملک افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی سلامتی کی حمایت کی جائے اور یہ کہ افغانستان دہشت گرد کارروائیوں کے لیے لانچنگ پیڈ یا دہشت گردوں کے اڈے میں تبدیل نہ ہو۔