پلیس آف ورشپ قانون کی حیثیت پر سماعت:مسلم عبادتگاہوں کی ملکیت پر نچلی عدالتوں کو مقدمات سننے سے روکا جائے،جمعیۃ علماء ہند کی سپریم کورٹ سے اپیل
نئی دہلی، سماج نیوز: پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پر آج چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی دو رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے عدالت سے کہاکہ عدالت کی جانب سے متعدد مرتبہ مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی لیکن اس کے باوجود ابتک جواب داخل نہیں کیا گیا ، ایڈوکیٹ ورندا گروور نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ نچلی عدالتوں کو حکم جاری کرے کہ وہ عبادت گاہوں کے تعلق سے داخل کیئے جانے والے مقدمات پر سماعت نہ کرے کیونکہ سپریم کورٹ میں پلیس آف ورشپ قانو ن کی حیثیت پر سماعت چل رہی ہے ایسے میں نچلی عدالتوں بالخصوص گیان واپی، کاشی متھرا نے مسلم عبادت گاہوں کی ملکیت کے مقدمات پر سماعت شروع کردی ہے جس کی وجہ سے ملک کی اقلیت بالخصوص مسلمانو ں میں تشویش کا ماحول ہے ۔ایڈوکیٹ ورندا گروور کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ مقدمہ کی اگلی سماعت پر ان کی درخواست پر عدالت غو ر کرے گی، اسی درمیان بینچ نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا رتشار مہتا کو حکم دیا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر یونین آف انڈیا کی جانب سے جواب داخل کریں، تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ اس اہم معاملے میں حکومت کے اعلی افسران سے ان کی گفتگو چل رہی ہے اور اسی گفتگو کے چلتے ابتک جواب داخل نہیں کیا جاسکاہے لیکن انہیں امید ہے مرکزی حکومت جلد ہی اس تعلق سے کوئی فیصلہ لے گی ۔آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ کسی ترمیم یا تبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہیے جس کے سیکشن 4 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15 اگست 1947 میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی جس کے سیکشن 4 (2) میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر 15اگست 1947میں موجود کسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ اپیل یا کاروائی کسی عدالت ،ٹریبونل یا اتھارٹی میں زیر التواء تو وہ منسوخ ہوجائے گی اور اس طرح کے معاملے میں کوئی مقدمہ ،اپیل یا دیگر کاروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی‘۔
آج عدالت میں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل بھی ایک مداخلت کار کی جانب سے پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے کہاکہ پلیس آف ورشپ قانون کی قانو نی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشتیں ناقابل سماعت ہے لہٰذا عدالت پہلے یہ فیصلہ کرے آیا یہ عرضداشتیں قابل سماعت ہیں یا نہیں کیونکہ ہندو فریقین کی جانب سے داخل عرضداشتیں اس طریقے سے بابری مسجد مقدمہ میں دیئے گئے فیصلہ پر نظر ثانی کا مطالبہ کررہی ہیں جو غیر قانونی ہے۔ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے پلیس آف ورشپ قانون کی قانو نی حیثیت پر مہر لگائی ہے۔ دوران سماعت ہندو فریقین بشمول ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت سے گذارش کی کہ مرکزی حکومت کے حلف نامہ کا انتظار کیے بغیر عدالت سماعت شروع کرے۔ آج اس اہم مقدمہ کی سماعت تاخیر سے شروع ہوئی ، چیف جسٹس آف انڈیا کے ساتھ جسٹس نرسہما نے اس مقدمہ کی سماعت کی، اس مقدمہ کی اگلی سماعت فروری کے آخری ہفتہ میں متوقع ہے۔اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند نے ایک جانب جہاں پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کی مداخلت کرنے کیلئے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے وہیں سول پٹیشن داخل کرکے عدالت سے پلیس آف ورشپ قانو ن کے تحفظ کی درخواست کی ہے ۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 2808؍2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں ۔ عدالت نے جمعیۃ علماء کی رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست کو گذشتہ سماعت پر ہی سماعت کیلئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم ، ایڈوکیٹ سیف ضیاء ، ایڈوکیٹ مجاہد احمدو دیگر موجود تھے۔