پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
صدقہ یا انفاق فی سبیل اللہ ماہ رمضان کی ایک عظیم عبادت، اللہ سے قربت کا ایک اہم وسیلہ اور اطاعت الٰہی کا ایک اہم نمونہ ہے۔فقراء و مساکین اور محتاجوں پر مال خرچ کرنا، مسلم قرضداروں کے قرض ادا کرنا اور صدقہ کرنا ان اعمال میں شامل ہے جن کی طرف اللہ اور اس کے رسول نے امت کو بڑی رغبت دلائی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
{مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} [البقرة:261، 262]جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
دوسری جگہ فرماتا ہے:{قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} [سبإ : 39] کہہ دو کہ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے اور تم جو چیز خرچ کرو گے وہ اس کا (تمہیں) عوض دے گا۔ اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ. متفق علیہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ رمضان میں اور زیادہ سخی ہو جاتے تھے جب آپ سے جبرائیل علیہ السلام ملاقات کرتے جبرائیل علیہ السلام آپ سے رمضان کی ہر رات ملاقات کرتے اور آپ کو قرآن پڑھاتے اور درس دیتے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ بھلائی کے کاموں میں سخی ہو جاتے تھے۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ متفق علیہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے سب سے بڑے بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔
انس ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ : فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ : يَا قَوْمِ، أَسْلِمُوا ؛ فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً، لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ. رواہ مسلم۔ اسلام کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سوال کیا جاتا آپ اسے دے دیتے وہ کہتے ہیں ایک آدمی آیا تو آپ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کی وادی بھر کر بکریاں عطا کر دیں وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا تو کہنے لگا لوگو اسلام لے آؤ کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو اتنا عطا کرتے ہیں اورواتنا دیتے ہیں کہ انہیں فاقہ کا ڈر نہیں ہوتا۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ فَقَالَ لَا. رواہ البخاری) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی بھی چیز مانگی گئی تو آپ نے اس پر انکار نہیں کیا۔
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:جَاءَتِ امْرَأَةٌ بِبُرْدَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔ قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي، أَكْسُوكَهَا. فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ، فَجَسَّهَا رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، اكْسُنِيهَا. قَالَ : ” نَعَمْ ". فَجَلَسَ مَا شَاءَ اللَّهُ فِي الْمَجْلِسِ، ثُمَّ رَجَعَ فَطَوَاهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ : مَا أَحْسَنْتَ سَأَلْتَهَا إِيَّاهُ، وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا. فَقَالَ الرَّجُلُ : وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهَا إِلَّا لِتَكُونَ كَفَنِي يَوْمَ أَمُوتُ. قَالَ سَهْلٌ : فَكَانَتْ كَفَنَهُ. (رواہ البخاری) ایک عورت ایک چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کے آئی۔۔۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنا ہے کہ میں آپ کو اس سے پہننے کے لئے دوں گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت تھی آپ نے ضرورت کی بنا پر اسے لے لیا پھر آپ ہماری جانب اسے پہن کر نکلے اتنے میں قوم ہی میں سے ایک آدمی نے چھو کر دیکھا اور کہا اللہ کے رسول اسے آپ مجھے پہننے کے لئے دے دیجئے آپ نے کہا ٹھیک ہے پھر آپ مجلس میں بیٹھے رہے جب تک اللہ تعالی نے چاہا پھر آپ واپس گئے تو اسے اتارا اور اس آدمی کو بھیج دیا لوگوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا تم نے یہ کپڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لیا جب کہ تمہیں پتہ تھا کہ آپ کسی سائل کو واپس نہیں کرتے تو آدمی نے کہا اللہ کی قسم میں نے اسے اس لیے مانگا تاکہ جب میری موت ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن سے ملا ہوا یہ کپڑا میرا کفن بنے سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں چنانچہ وہی کپڑا اس کا کفن بنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری سخاوت اللہ کی خاطر اور اللہ کی رضا کی طلب میں ہوتی تھی آپ اپنا مال فقیر کے لیے یا ضرورت مند کے لیے خرچ کرتے یا اللہ کے راستے میں لگاتے یا تالیف قلب کی خاطر لگاتے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کا دل اسلام پر جم جائے اور مضبوط ہو جائے چنانچہ آپ دوسروں کو اپنے آپ پر اپنے اہل و عیال پر اور اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے آپ اس آدمی کی طرح بے حساب خرچ کرتے تھے جسے فقیری کا کوئی ڈر نہ ہو اور خود اپنی زندگی فقیروں کی طرح گزارتے تھے آپ کے گھر ایک ایک مہینہ دو دو مہینہ گزر جاتا آپ کے گھر میں چولہا نہ جلتا کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے۔ آپ کی یہ سخاوت دوسرے مہینوں کی بنسبت رمضان کے مہینے میں کئی گنا بڑھ جایا کرتی تھی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ سات ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا پھر آپ نے ان میں سے ایک آدمی کا یوں تذکرہ کیا: وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ (متفق علیہ)وہ آدمی جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے اور اتنا مخفی رکھتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو نہیں پتہ چلتا کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
بہتر اور افضل ہے کہ انسان نماز روزے اور تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ صدقہ نکالنے کو بھی جمع کر لے جس کے ذریعہ وہ اللہ تعالی کا چہرہ دیکھنے کی آرزو رکھے اللہ تعالی فرماتا ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ} [فاطر: 29، 30]جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت (کے فائدے) کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی کیونکہ اللہ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی دے گا۔ وہ تو بخشنے والا (اور) قدردان ہے۔
لوگو یاد رہے کہ صدقہ کے اتنے فوائد اور اتنے منافعے ہیں جنہیں صرف اللہ تعالی ہی شمار کر سکتا ہے مثال کے طور پر یہ صدقہ اللہ تعالی کی رضا کا سبب بنتا ہے برے انجام سے بچاتا ہے بلیات و مصائب کو ختم کرتا ہے گناہوں کو مٹاتا ہے مال کی حفاظت کرتا ہے روزی کھینچ کے لاتا ہے دلوں کو خوشی عطا کرتا ہے اللہ تعالی پر اعتماد اور حسن ظن کو بڑھاتا ہے شیطان کی ناک خاک میں ملاتا ہے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور اس کو نور دلاتا ہے بندے کو اللہ کے نزدیک اور مخلوقات کے نزدیک بھی محبوب بناتا ہے اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے عمر میں زیادتی کرتا ہے لوگوں کی دعاؤں کا مستحق بناتا ہے ان کی محبتیں لاتا ہے صدقہ کرنے والے فرد سے عذاب قبر کو روکتا ہے قیامت کے دن یہ سایہ بنے گا اللہ کے پاس سفارش کرے گا دنیا اور آخرت کی سختیوں کو یہ کم کرتا ہے اور انسان کو دیگر نیک اعمال کی جانب بلاتا ہے چنانچہ انسان اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتا۔
اس کے فوائد و منافع اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں خصوصیت کے ساتھ ماہ رمضان میں انفاق یا سخاوت و صدقہ کے اور بھی فوائد ہیں جن میں سے کچھ بیان کیے جا رہے ہیں: نمبر ایک
اس ماہ رمضان کےوقت کی اہمیت اور اس میں اعمال کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جانا، اس صدقہ اور انفاق سے اطاعت کے کاموں میں روزے داروں قیام کرنے والوں اور ذکر و اذکار میں مشغول رہنے والوں کی مدد ہوتی ہے تو جو شخص ان کی مدد کرتا ہے ان کو بھی انہیں کے اجر کے برابر ثواب ملتا ہے مثلا کوئی شخص کسی غازی کے لیے سامان قتال مہیا کر دے پھر وہ غزوہ یا جنگ کرے، اسی طرح سے وہ شخص جو غازی کے میدان قتال میں جانے کے بعد اس کے اہل و عیال کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تو بھی مجاہد کا ثواب پاتا ہے زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا (رواہ الترمذی) جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو افطار کرانے والے کو بھی اس روزے دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزے دار کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
نمبر دو:
رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے جس میں خود اللہ تعالی اپنے بندوں کے سلسلے میں رحمت کے تعلق سے مغفرت کے تعلق سے جہنم کی جہنم سے آزادی کے تعلق سے فیاضی کرتا ہے خصوصا شب قدر میں اور یہ اللہ تعالی اپنے مہربان بندوں پر اور رحم کرتا ہے جیسے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ (متفق علیہ) یہ وہ رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں ثابت کر رکھا ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے مہربان بندوں ہی پر رحم کرتا ہے تو جو شخص اللہ تعالی کے بندوں پر سخاوت کرے گا اللہ تعالی اس کو مزید عطا کر کے اور مزید فضل کر کے سخاوت کرے گا اور عمل کا بدلہ تو اسی جیسے عمل سے ملا کرتا ہے الجزاء من جنس العمل محاورہ ہے۔
نمبر تین:
روزہ کے ساتھ صدقہ بھی جمع کرنا جنت واجب کرنے والی چیزوں میں سے ہے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا ؟ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَا. قَالَ : ” فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً ؟ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَا. قَالَ : ” فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا ؟ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَا. قَالَ : فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ آج تم میں سے کس نے روزے کی حالت میں صبح کی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں نے پھر آپ نے پوچھا آج تم میں سے کون کسی جنازے کے پیچھے گیا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں اللہ کے رسول آپ نے پھر پوچھا آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں نے آپ نے فرمایا آج کس نے مریض کی عیادت کی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ساری چیزیں جس بھی آدمی کے اندر جمع ہوتی ہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
نمبر چار:
روزے اور صدقہ کو جمع کرنا یعنی روزے کے ساتھ ساتھ صدقہ کرنا یہ گناہوں کو زیادہ مٹانے والا ہوتا ہے اور جہنم سے زیادہ بچانے اور زیادہ دور کرنے والا ہوتا ہے خصوصا اس وقت جب اس میں قیام اللیل جیسا نیک عمل بھی جوڑ دیا جائے اور شامل کر لیا جائے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الصیام جنۃ متفق علیہ روزہ ڈھال ہے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: الصَّوْمُ جُنَّةٌ ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، وَالصَّلَاةُ قُرْبَانٌ – أَوْ قَالَ : بُرْهَانٌ – يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ، إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ النَّارُ أَوْلَى بِهِ، يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ، النَّاسُ غَادِيَانِ فَمُبْتَاعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا، وَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُوبِقُهَا (رواہ أحمد و ابن حبان) روزہ ڈھال ہے صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور نماز تقرب کا ذریعہ یا دلیل ہے اے کعب بن عجرہ جنت میں کوئی ایسا گوشت پوست والا انسان داخل نہیں ہوگا جو رشوت سے پرورش پایا ہو وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے اے کعب بن عجرہ دو طرح کے لوگ صبح کرتے ہیں کوئی آدمی اپنے نفس کو اللہ سے بیچ کر اسے آزادی دلانے والا ہوتا ہے اور کوئی اپنے نفس کو شیطان سے بیچ کر اسے تباہی میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔
اسی طرح عدی بن حاتم طائی رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا تذکرہ کیا آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے آپ نے جہنم سے اللہ کی پناہ مانگی پھر آپ نے جہنم کا تذکرہ کیا اور یہی کیفیت ہوئی پھر آپ نے فرمایا: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ (متفق علیہ) لوگو جہنم سے بچو گرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو اگر کوئی شخص وہ بھی نہ پائے تو بھلی بات کہہ کر جہنم سے بچنے کی کوشش کرے۔ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ وہ کہا کرتے تھے اے لوگو میں تمہارا خیر خواہ ہوں میں تمہارے لیے مہربان ہوں تم لوگ رات کی تاریکی میں قبر کی وحشت سے بچنے کے لیے نماز پڑھا کرو دنیا میں روزہ رکھو تاکہ قبر سے اٹھائے جانے کے دن کی گرمی سے بچو اور مشکلات کے دن سے خوف کھا کرکے صدقہ کیا کرو لوگو میں تمہارا خیر خواہ ہوں بے شک میں تمہارے لیے مہربان ہوں۔
نمبر پانچ:
روزے دار کے اندر لامحالہ بشری تقاضے کے تحت کچھ نہ کچھ نقص یا کمی پائی جائے گی تو عین ممکن ہے کہ صدقہ اس کمی اور اس نقص کو دور کر دے جو اس سے سرزد ہوئی ہے۔
لوگو اللہ تمہاری حفاظت فرمائے ان مالوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرو جس کے ذریعہ تم نیکی کے کاموں میں اپنے آپ پر سخاوت کرسکو اس سے پہلے کہ وقت چلا جائے اور ختم ہو جائے تم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس کا حکم بجا لاؤ اللہ تعالی فرماتا ہے:
{وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} [المنافقون : 10، 11]اور جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس (وقت) سے پیشتر خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کرلیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا۔اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔
لوگو! جس پر متنبہ ہونا ضروری ہے اور جس کے لیے انسان کو محتاط رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ تم اپنے صدقات اور اپنی زکوۃ امانت دار ہاتھوں میں رکھو اور ایسی جہات میں اپنا مال دو جو قابل اعتماد ہوں کیونکہ ایسے لوگ اس دنیا میں اور سر زمین پہ پائے جاتے ہیں جو نا مبارک اور غیر مناسب کاموں کے لیے چندہ اور صدقہ جمع کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے بچ کے رہو تاکہ تمہارے مال غیر شرعی مصارف میں خرچ نہ ہوں یا ایسے اعمال میں خرچ نہ ہوں جن کا ضرر اور جن کا نقصان اللہ کے بندوں اور تمہارے ملک پر پلٹ کر آجائے۔