نئی دہلی، سماج نیوز: امام الانبیاء خاتم النبیین ﷺنے فرمایا: ’’علماء انبیاء کے بعد ان کے وارث اور دائمی مقام ہوں گے‘‘۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے عقلمند ہونے کے لیے یہی ضروری ہے، اس کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا اہل علم کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اہل علم کی گفتگو سے آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے تعلق ہماری دینی اور دنیاوی زندگی کے لیے مفید ہے، اس کی صحبت سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔آج کے اس دور میں جب کہ دنیا بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ہے اور امت مسلمہ کو لاتعداد مسائل کا سامنا ہے، مسلم مذہبی سکالرز کو طنز، تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنا کر اہل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن موجودہ دور سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا جانشین اور ان کا مستقل مقام بنایا، اس لیے آسمان کی تمام مخلوقات بشمول فرشتے، چیونٹیاں اور مچھلیاں ان سے محبت کرتی ہیں ۔ نیکی کی دعوت دینا، سخی اور فیاض ہونا، لوگوں سے محبت کرنا اور اپنے اور دوسروں کے ساتھ احسان کرنا علماء کی خصوصیات ہیں، یہ وہ علماء ہیں جو دین اسلام کی مضبوطی کے ساتھ پیروی کرتے ہیں اور حق پر ڈٹے رہتے ہیں اور تما م کام نہیں کرتے، لیکن امت مسلمہ پروپیگنڈے کا شکار ہو چکی ہے، دین کی تعلیم دینے اور حق کی راہ پر ثابت قدمی سے چلنے والے علماء کے تشخص کو نشانہ بنا کر لوگوں میں اسلام سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف صحافی و عالم دین مولانا منہاج احمد قاسمی مہتمم ادارہ دعوت القرآن دلشاد کالونی نے اپنے خطاب میں کہا ہمارے علماء ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں بھی جائیں، وہاں آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو ہندوستان میں ایک مخصوص گروپ مذہب علماء کرام اور اسلام کے خلاف بے دریغ حملوں میں مصروف ہے اور کسی نہ کسی بات کو جواز بنا کر علماء کے حقوق کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا افرادمحض غریب یا نادار نہیں ہیں بلکہ ان کا بھی خاندانی پس منظر ایک مستحکم ہوتاہے۔ علما ء کرام اسلام وہ شرابیوں کے دلوں کو دین کی روشنی سے منور کر رہا ہے ۔علما کا کردار کسی بھی پیشے یا مذہب میں سب سے اہم ہوتا ہے جو جوڑے کو مذہبی رسومات اور اصولوں کے مطابق پاکیزہ رشتے میں باندھتا ہے لیکن ہمارا معاشرہ دیگر رسومات پر غیر ضروری اسراف کے باوجود شادی کی تقریب میں کچھ دینا غلط سمجھتا ہے۔ اور ایسا سوچنے والوں کے نزدیک ایک عالم کو صرف دال روٹی پر گزارہ کرنا چاہیے جو کہ ایک نامناسب سوچ ہے۔ علماء بھی انسان ہیں اور ان کی بھی ضرورتیں ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم نہ صرف علماء کی جائز ضروریات کا خیال رکھیں بلکہ ان کی مدد بھی کریں تاکہ علماء بھی اپنی زندگی خوش اسلوبی سے پوری کر سکیں۔اہل علم پر طنزیہ تنقید یا کسی تقریب میں شرکت کو جواز بنا کر تنقید جائز نہیں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے، یہ لوگ دن رات مطالعہ و تدریس میں صرف کرتے ہیں، کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے، فضول خرچی نہیں کرتے۔ دین کی تعلیمات کو پھیلاتا ہے اور لوگوں کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ ایسے لوگوں پر تنقید اور تنقید کرنا اور ان کی عزتوں سے کھیلنا انتہائی شرمناک ہے۔ ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی عالمی مذہب کے جوہر پر بات کرنے سے پہلے مکمل تحقیق کرلیں اور دین کی خدمت کرنے والوں کا مذاق اڑانے کے بجائے ان کا احترام کرنا ضروری ہے تاکہ ہمیں دنیا اور دنیا میں عزت مل سکے۔